کسی شخص کے مہدی ہونے یا نہ ہونے کے اعتقاد کو اسلام سے کیا علاقہ!نہ یہ بنائے فسق و تقوی ہے ، نہ معیار ایمان و کفر۔اگر ایک شخص نے کسی داعی شریعت و آمر بالمعروف و ناہی عن المنکر کو مہدی مان لیا تو اس سے اس کے اسلامی عقائد میں کو ن سا فتور آ گیا؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ انطباق علائم و آثار میں اس نے اجتہادی غلطی کی۔ اصل شے جو مطلوب شارع ہے وہ تو صرف ایمان باللہ و بما جاء من عنداللہ ہے اور دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ متقین میں سے ہے یا نہیں۔ متقین کی تعریف قرآن نے اپنی پہلی سورت ہی میں بتاد ی۔ الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ و مما رزقنھم ینفقون۔ والذین یومنون بماانزل الیک و ماانزل من قبلک و بالاخرۃ ھم یوقنون۔ پس جو شخص ان چیزوں کا ایمان و عمل رکھتا ہے وہ اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون میں داخل ہے۔ خواہ کسی کو مہدی تسلیم کرے خواہ دجال ۔ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم البتہ یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ جس شخص کو مہدی تسلیم کرتا ہے وہ متقی ہے یا مبتدع۔اگر اس کی بدعات و محدثات یااعمال غیر صالحہ ثابت ہوں گے اور یہ بھی ان کامصدق اور پیرو ہو گا تو بلا شبہ اس پر وہ حکم دیا جائے گا جس کا وہ شرعاً مستحق ہو گا۔ لیکن نہ بر بنائے اعتقاد مہدویت بلکہ بسبب عقائد و اعمال منکرہ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک جزئی مسئلے میں اس کو غلطی پر سمجھ سکتے ہیں، تخطیہ کر سکتے ہیں لیکن نہ تو برا کہہ سکتے ہیں اور نہ اس کے اسلام و ایمان میں شک کر سکتے ہیں۔اگر اس کا عمل اچھا ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت و اتباع اور ایثار فی اللہ وللہ میں تیز گام ہے تو یقینا کل کو اللہ کے حضور وہی سب سے اونچا ہو گا اور ہم سب اس کے نیچے ہو ں گے اگر چہ ہم کتنے ہی کامل و اکمل اشعری و ماتریدی ہوں وہاں صرف غرور اشعریت و ماتریدیت کام نہ دے گا۔
افسو س جزئیات مزعومہ عقائد کے غرورباطل نے مسلمانوں کو جس قد ر نقصان پہنچایا، کسی چیز نے نہیں پہنچایا عمل صالح کی اہمیت بالکل جاتی رہی اور سارا دارومدار چند مزعومہ عقائد پر آ کر رہ گیا۔ ایک شخص صرف اس غرور میں کہ میں الف سے لے کر ی تک ٹھیک ٹھیک عقائد نسفی کا مجسمہ ہوں ، تمام مسلمانوں کو حقیر و گمراہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ عمل صالح اورایثار و محبت فی اللہ کوئی شے نہیں۔ ایک شخص تقوی و طہارت میں کتنا ہی اصلح ہو ، لیکن اگر کسی ایک جزئی و ضمنی عقیدہ میں مخالف ہواتو اس کی ساری عمر کی کمائی رائیگاں گئی اورباوجود عمر بھر کے ایمان و عمل صالح کے کافر کا کافر ہی رہا۔جس کلمہ کے ایک بار اقرارکرلینے سے ابوسفیان اعدی عدوئے اسلام اور وحشی قاتل حمزہ کا خون حرام ہو گیا تھا اور اگر ابو جہل بھی اقرار کر لیتا تو اس کی ساری عمر کا کفر و طغیان بھی محو ہو جاتا ۔ آج ساری عمر اس کے ایمان و عمل میں بسر کر دیجیے لیکن پھربھی مومنوں کے گروہ میں شمار ہونے کا حق حاصل نہیں کر سکتے ۔افسوس تیرہ سو برس گزر گئے مگر کفر و ایمان کی گتھی آج تک نہ سلجھی۔ اصل یہ ہے کہ اسلام نے باب عقائد میں صرف بنیاد کی چند صاف صاف اورموٹی موٹی باتیں بتلا دی تھیں اور اس کے بعد سارا دارومدار عمل صالح پر رکھا تھا۔ بنی الاسلام علی خمس اور من آمن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحاً فلا خوف علھم ولا ھم یحزنون ہر طرح کی فضیلت اور عزت کا معیار صرف تقوی اور اس کے مراتب بعضھا علی بعض تھے اور بس کہ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم جو شخص شہادتین کا اقرار کرتا تھا بمجرد اقرار مسلمانوں میں داخل ہوجاتاتھا۔ اور پھر مسلمانوں میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سب سے زیادہ ایثا ر جان و مال کرتا تھا وہی سب سے افضل اور اعلیٰ سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام کا پورا عہد گزر گیا مگر کسی شخص کو ایک لمحے کے لیے بھی اس کا وہم نہ ہوا کہ اسلام و ایمان اور فضیلت و بزرگی کا معیار عمل صالح اور تقوی و طہارت کے سوا بھی اور کوئی چیز ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی روایتیں جو تم صحاح میں پڑھتے ہو و کان اصحاب رسول اللہ ﷺلا یرون شیاً من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوۃ تو ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ بنیاد ساری باتوں کی صرف عملی زندگی تھی۔ عقائد کے باب میں نہ تو کوئی اختلاف تھا اور نہ فتنہ تفریق و تمذہب کی بنیاد پڑی تھی۔ لیکن اس کے بعد فتن و فساد اور بدعات و محدثات کا آغاز ہوا اور اوائل بنو امیہ ہی میں عجمی اقوام کے اختلاط اور عجمی علوم ذہنیہ مہلکہ کے شیوع سے عقائد میں فتنہ کاوش و تعمق کی بنیاد پڑی جس کو اسلام نے سختی سے روک دیا تھاکہ ھلک المتعمقون اور نئے نئے سوال پید ا ہونے لگے ۔ یہ حال دیکھ کر مجبوراً اہل حق و سنت کو اس طرف متوجہ ہو نا پڑا اور باب عقائد میں سب سے پہلے ردو کد او ربحث و نظر کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں تک جو کچھ ہوا بالکل ٹھیک تھا اور نا گزیر ، لیکن آگے چل کر یہ چیز حد اعتدال سے متجاوز ہو گئی ۔اور رفتہ رفتہ عمل کی طرف سے طبیعتیں بے پروا ہو گئیں۔ حتی کہ آج یہ حال ہے کہ ایمان و اسلام کا سارادارومدار محض چند جزئیات اختلافیہ عقائد کی محافظت پر آکر ٹھہر گیا ہے ۔ اور صرف انہی کے غرور و پندار میں ہر شخص مست رہتا ہے۔عمل کی درستی اورتقوی و طہارت کی اہمیت و تقدیم یک قلم فراموش کر دی گئی ہے ۔اور قریب ہے کہ اسلام کے ارکان و شرایط سے عمل صالح کا رکن ہونا معدوم ہوجائے ۔گویا کہ وہ کوئی ضروری چیز تھا ہی نہیں۔ساری جستجو اورکاوش صرف اس کی ہوتی ہے کہ فلاں شخص کے عقائد کیسے ہیں یعنی چند مزعومہ جزئیات غیر متعلقہ میں اس کے عقیدے کا کیا حال ہے اس کو کوئی نہیں دیکھتا کہ اس کا عمل کیسا ہے، اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں انفاق جان و مال کاکیا حال ہے ؟ تقوی اور طہارت نفس کے لحاظ سے کیسی زندگی بسر کرتا ہے ؟ بندوں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہے اور خد اکے خوف سے دل خالی رکھتا ہے یا بھر پور؟ معاملات میں کیا حال ہے ؟ لین دین میں سچائی اور دیانت ہے یا نہیں؟ ایک شفیق باپ ، رفیق بھائی ، وفادار شوہر اوررحیم و غم گسار ہمسایہ ہے یا ایک بے رحم و جود ، بے حس پتھر اور موذی ومہلک مخلوق ؟ ان ساری باتوں میں (جن کے الگ کر دینے کے بعد اسلام میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی ) اس کا حال خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ، لیکن اگر چند اختلافی جزئیات میں ہمارا ہم آہنگ ہے تو پھر ہمارے نزدیک اس سے افضل ہستی روئے زمین پر کوئی نہیں۔ یہی گمراہی یہودکی تھی کہ صرف اسرائیلیت کے غرور میں بد مست رہتے تھے و قالوا لن تمسنا النار الا ایاماً معدودۃ یہ غرور عقائد کافتنہ بہت ہی بڑا فتنہ ہے اور آج مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی اس سے گھلی جارہی ہے ۔ ولکن اکثر الناس لا یعلمون۔
(بحوالہ ‘تذکرہ ’’مرتبہ مالک رام ص۷۰تا ۷۲ اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور)