ہاں میں گنجا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔گنج وہ خزانہ ہے جو ہر کسی کے ہاتھ نہیں آ سکتا۔ جو نادان گنجے اسے کوئی عیب سمجھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر وگ ، گرافٹنگ یا طرح طرح کی بال اگاؤ ادویات استعمال کرکے خود فریبی کا شکار بنتے ہیں، وہ کیا جانیں کہ اس ایلیٹ کلب میں کیسے کیسے لوگ شامل ہیں۔ وہ بے خبر ہیں اس راز سے کہ تاریخ کے ہر سنگِ میل پر ایک گنجا موجود ہے۔جارج واشنگٹن ، لینن، اتاترک، چرچل،گاندھی جیسے مشاہیر۔ظاہر شاہ، جومو کنیاٹا، نہرو، پٹیل، لیاقت علی خان، آئزن ہاور، میخائیل گوربچوف، فرانسوامتراں، انور سادات، مینہم بیگن، شاہ حسین، ایتزاک رابین، یاسر عرفات، زوالفقار علی بھٹو، غلام اسحاق خان سے لے کر نوابزادہ نصراللہ خان تک، پرنس کریم آغا خان سے لے کر گل جی اورعبدالستار ایدھی تک، فیض احمد فیض سے لے کر امجد اسلام امجد تک، الفرڈ ہچکاک، کوجک (ٹیلی سلواس)،مہیش بھٹ، انوپم کھیر، اداکار محمد علی، رفیع خاورننھا، مصطفے ٹنڈ اور ببو برال تک، بھلا ایسا کونسا گنجا ہے جو سیاست، سماجی خدمت، فنونِ لطیفہ ، ادب اور صحافت سمیت کسی بھی شعبے کے لئے باعثِ شرمندگی ہو۔اگر آپ یہ کہیں کہ گنجا ہونا اتنا ہی اچھا ہے تو پھر نواز شریف اور شہباز شریف نے پوری دنیا پراظہر من الشمس گنج چھپانے کے لئے ہئیر ٹرانسپلانٹیشن کا سہارا کیوں لیا۔اس سوال کاجواب آپ دیجیے میں کیوں دوں؟
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ‘‘ گنج’’ ہائے گراں مایہ کیا کیے