ہمارے خیال میں پاکستانی معاشرے میں تشدد کی وجہ مذہبی طبقے کادین کے صحیح تصور سے نابلد ہونا ہے اور عوام میں جہالت اور افلاس کاپایا جانا اورمعاشرے میں عدم انصاف بڑی وجوہات ہیں۔ (ادارہ)
ہم کم و بیش تواتر سے اس طرح کی خبریں سنتے ہیں کہ لاہور میں بشری نے اپنے دو بچوں سمیت ریلوے لائن پر خودکشی کر لی۔محمد رفیق نے اپنے بیوی بچوں کو قتل کرکے خود کو بھی مار لیا۔گوجرانوالہ میں ایک ہجوم نے قرآن کے بے حرمتی پر ایک شخص کو جلا دیا۔ کراچی میں ایک ہندو مزدور کو اسی کے ساتھیوں نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جبکہ ایک وکیل کے چیمبر میں چھ افراد کو بند کرکے یا ایک بازار میں تین ڈاکوؤں کو پکڑ کر ہجوم نے زندہ جلا ڈالا۔
آدمی کا خارجی وجوہات کے سبب خود کو مارلینا یا سامنے والے کو مار دینا یا ھجوم کا حصہ بن کر درندگی کا مظاھرہ کرنا، کیا یہ ایک ہی نفسیاتی و سماجی مسئلے کے کئی رخ ہیں یا بنیادی طور پر ایک ہی مسئلہ ہیں۔
سماج میں قوت برداشت تشدد کی نفسیات میں کیوں کر ڈھلتی ہے۔ اس بارے میں پاکستان کے ایک سرکردہ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہارون احمد کا خیال ہے کہ دنیا میں بالعموم اور ہمارے اردگرد کے علاقوں میں بالخصوص گزشتہ سات آٹھ برس سے جس طرح کا پرتشدد ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے اب ایک عام آدمی کے نزدیک کسی دھماکے یا فائرنگ کے نتیجے میں بیس تیس افراد کا مرجانا کوئی خبر نہیں رہی، خوف، بے چارگی اور عدم تحفظ کم و بیش ہر شخص میں سرایت کرگیا ہے۔ چنانچہ جب اس نفسیات کے حامل لوگ کسی وجہ سے ہجوم کی شکل میں متحرک ہوتے ہیں تو انہیں اپنی طاقت کا ادراک ہوجاتا ہے جسے بے لگام طریقے پر استعمال کرکے اپنے خوف اور محرومی کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب لوگ کسی کو زندہ جلا کر یا پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے منظر کو اطمینان سے دیکھ کر لطف اٹھا رہے ہوں تو اس سے ان کی ذہنی صحت کا اندازہ کوئی بھی شخص لگا سکتا ہے۔اور پھر جب یہ بھی یقین ہو کہ وہ جو کچھ بھی کر گزریں قانون ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔
لیکن نوبت یہاں تک پہنچتی کیوں ہے۔ماھرِ عمرانیات و شہریات عارف حسن کہتے ہیں کہ جب نہ تو پانی ہو، نہ بجلی، نہ آٹا، نہ ٹرانسپورٹ ، نہ رہائش کے لیے کھلی جگہ ، نہ یہ معلوم ہو کہ جس گھر میں میں رہ رہا ہوں اس پر کوئی قبضہ تو نہیں کر لے گا،اسے کوئی ڈھا تو نہیں دے گا۔اور جب کچرے سے اٹی بستیاں اتنی گنجان ہوں کہ چلنا پھرنا سانس لینا دو بھر ہوجائے اور پھر کسی بھی سطح پر کوئی شنوائی بھی نہ ہو تو انسان یا تو باؤلا ہوکر خود کو کاٹے گا یا پھر دوسرے کو۔اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے کہ سب لوگوں کو بنیادی سہولتوں کی بلا تخصیص فراہمی۔تاکہ ان کے ذھن کچھ مثبت سوچنے کے قابل ہوسکیں۔
ہیومین رائٹس کمیشن کے ڈائریکٹر اور سرکردہ مبصر آئی اے رحمان سمجھتے ہیں کہ سماج کی رگوں میں تشدد آج داخل نہیں ہوا بلکہ یہ ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہے۔ مثلاً جب آزادی ملی تو لاکھوں لوگوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔اس پر فخر کیا اور رقص کیا۔ پھر یہ کہ ہماری سیاست میں کبھی دلیل کی گنجائش نہیں رہی۔ بنگالی کو ہم نے دلیل کے بجائے گولی مار دینے کی دھمکی سے قائل کرنے کی کوشش کی اور گولی ماری بھی، یہی طریقہ بلوچوں اور پٹھانوں کے ساتھ برتا گیا اور برتا جارہا ہے۔ہمارا سماج بیشتر وقت آمرانہ نظام اور ذھنیت کا شکار رہا۔ججوں کو گھر بھیج دوں گا۔آئین پھاڑ دوں گا۔حکومت بدل دوں گا وغیرہ وغیرہ۔نائن الیون کے بعد تو یہ صورت ہوگئی ہے کہ ہر مخالف کو دہشتگرد یا غدار گردانا جاتا ہے اور اس کے ساتھ غائب کئے جانے سمیت ہر طرح کا سلوک جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ تقسیم کے وقت صرف دو جرائم کی سزا موت تھی یعنی قتل اور غداری۔آج پچیس جرائم کی سزا موت ہے۔آپ کو حکمرانوں سے لے کر قوم کے ترجمان سیاستدانوں کے لہجے پر غور کرنا چاہیے۔میں آپ کو الٹا لٹکا دوں گا۔ کھمبوں سے لٹکا دیا جائے۔فلانے پل پر پھانسی دے دی جائے۔ایک آدھ ٹکانے میں کوئی حرج نہیں وغیرہ وغیرہ۔ آئی اے رحمان کے بقول اس طرزِ گفتگو نے عوام کو بھی متاثر کیا اور ان کے لاشعور نے اسے ایک بے ضرر شے کے طور پر قبول کرلیا۔چنانچہ اب ہر کوئی ہر مسئلہ صرف تشدد سے حل کرنا چاہتا ہے۔اور صرف یہی زبان ہے جو ہر آدمی بول رہا ہے اور سمجھ رہا ہے۔
(بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام)