منتخب ایوانوں میں سوچے سمجھے انداز میں خونی تشدد یا بے ساختہ مار پیٹ کوئی انہونی شے نہیں۔رومن شہنشاہ جولیس سیزر کا قتل منتخب ارکانِ سینٹ کے ہاتھوں ہی ہوا تھا۔
برطانوی دارالعوام میں ایک عرصے تک معزز اراکین کو اسلحے سمیت آنے کی اجازت رہی۔کسی تصادم کو روکنے کے لیے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی بنچوں کے درمیان دو تلواروں کی چوڑائی کے برابر سرخ لائنیں کھچی ہوئی ہیں۔ گرما گرم بحث کے دوران میں کسی رکن کو یہ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کے باوجود انیس سو بہتر میں آئرلینڈ کے مسئلے پر ایک مباحثے کے دوران ایک خاتون سوشلسٹ رکن برناڈیٹ ڈیولین نے وزیرِ داخلہ ریجنالڈ موڈلنگ کو مکہ جڑ دیا۔جس کے بعد مس ڈیولین کو چھ ماہ کے لیے دارالعوام سے معطل کردیا گیا۔
امریکی ارکانِ کانگریس ایک عرصے تک خود کو ایک دوسرے سے محفوظ رکھنے کے لیے اجلاس کے دوران چھڑی یا ریوالور اپنے ساتھ رکھتے رہے۔ اس کا محرک دو مشہور واقعات تھے۔جنوری سترہ سو اٹھانوے میں ایوانِ زیریں کے ایک رکن راجر گرسوالڈ نے ایک اور رکنِ کانگریس میتھیو لیون کو ایک تقریب کے دوران بزدل کہا جس پر لیون نے گرسوالڈ کے منہ پر تھوک دیا۔ گرسوالڈ سے بے عزتی ہضم نہ ہوئی اور وہ موقع کی تاک میں رہا۔ ایوانِ نمائندگان کے بھرے اجلاس میں گرسوالڈ نے لیون کو چھڑی سے پیٹا۔ لیون نے آتشدان سے دھاتی بھالہ اٹھایا اور گرسوالڈ کے چہرے کو نشانہ بنایا۔اس دوران دیگر ارکانِ کانگریس نے بیچ بچاؤ کروا دیا۔ اٹھارہ سو چھپن میں ایک اور واقعہ میں رکنِ کانگریس پریسٹن بروکس نے ایک اور رکن چارلس سمنر کو مکہ جڑ دیا کیونکہ سمنر نے اپنی تقریر میں بروکس کے بھائی کو عورتوں کا دلال کہا تھا۔
جنوبی کوریا، تائیوان اور جاپان کے پارلیمانی ایوانوں میں تو آئے دن گھونسے، مکے، لات، کرسیاں اور مائکروفون چلتے رہتے ہیں۔
بھارتی لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں جو کام فحش گوئی سے شروع ہوتا ہے وہ آخر میں کرسیوں، اڑتے ہوئے پیپر ویٹ اور سر سے ماری جانے والی ٹکروں پر ختم ہوتا ہے۔
سری لنکا کی پارلیمان میں تین برس قبل ارکانِ اسمبلی کے ایک گروہ نے دو بدھ ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے لیے سپیکر کی میز پر رکھے ہوئے روایتی ڈنڈے سے مارا۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سب سے خونی واقعہ آٹھ اکتوبر انیس سو اٹھاون کو پیش آیا جب مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر عبدالحکیم نے سرکاری بنچوں کے چھ اراکین کی رکنیت معطل کردی کیونکہ ان کے پاس منفعت بخش سرکاری عہدے تھے۔اس رولنگ پر سرکاری ارکان مشتعل ہوگئے اور وہ سپیکر پر پیپر ویٹ اور پردوں کی سلاخیں لے کر لپکے۔سپیکر نے فرار ہوکر جان بچائی۔ان کی جگہ ڈپٹی سپیکر شاہد علی نے کرسی سنبھال لی اور سپیکر کو پاگل قرار دینے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے چھ ارکان کی معطلی کے فیصلے کو منسوخ کردیا۔اس پر حزبِ اختلاف کے ارکان مشتعل ہوگئے اور انہوں نے مائیکروفون اکھاڑ کر ڈپٹی سپیکر کو شدید زخمی کردیا۔دو روز بعد ڈپٹی سپیکر کا ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔
انیس سو بہتر میں تشکیل پانے والی پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی میں کئی مرتبہ ہنگامہ آرائی ہوئی۔ایک مرتبہ سپیکر کے حکم پر اسمبلی کی سکیورٹی کے عملے نے حزبِ اختلاف کے ارکان کو ڈنڈا ڈولی کرکے کار پارکنگ میں پھینک دیا۔ ایک مرتبہ قائد حزبِ اختلاف ولی خان نے وزیرِ قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کا گریبان پکڑ لیا۔ولی خان نے ایک موقع پر وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر یہ الزام بھی لگایا کہ ان کی حکومت مجھے اسمبلی کے فلور پر قتل کرنا چاہتی ہے۔ سن دو ہزار دو کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پنجاب اسمبلی کے ایک اپوزیشن رکن رانا ثنا اللہ کو مبینہ طور پر کسی ایجنسی نے اغوا کیا اور انکی مونچھیں اور بھنویں مونڈ کر چھوڑ دیا۔ جبکہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم حقیقی کے واحد رکن اسمبلی یونس خان جو پولیس کو مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔انہیں حلف اٹھانے کے لیے برقعہ پہن کر اسمبلی میں آنا پڑا۔لیکن واپسی پر انہیں اسمبلی کے احاطے میں ان کے مخالفین نے مارا پیٹا اور پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔ جون دو ہزار چھ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چار ارکانِ سندھ اسمبلی نے ایوان میں سرکاری رکن ایشور لال کی پٹائی کی کیونکہ ایشور لال نے پیپلز پارٹی کی خاتون ایم پی اے شازیہ مری سے چھیڑ خوانی کی تھی۔سپیکر مظفر شاہ نے ایشور لال سمیت واقعہ میں ملوث پانچوں ارکان کی رکنیت عارضی طور پر معطل کردی۔ لیکن سندھ کے سابق وزیرِ اعلی ارباب رحیم کی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ہاتھوں پٹائی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں انیس سو اٹھاون کے بعد کا سب سے سنگین واقعہ بتایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سندھ اسمبلی کے سبکدوش ہونے والے سپیکر مظفر حسین شاہ اور سابق وزیرِ اعلی ارباب غلام رحیم کا تعلق ایک ہی علاقے یعنی تھرپارکر سے ہے۔ دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں سے ہے۔ لیکن ایک کی ایوان میں پیپلز پارٹی کے ہر رکن نے کیوں تعریف کی اور دوسرے کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اپنی قیادت کی جانب سے سمجھانے بجھانے کے باوجود کیوں مارا پیٹا۔ اس میں جتنا قصور پیپلز پارٹی کے مشتعل جیالوں کا ہے اتنا ہی قصور ارباب غلام رحیم کا بھی ہے جنہوں نے وزیرِ اعلی ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت پر سیاسی سے زیادہ ذاتی حملے کئے اور یہ بھول گئے کہ ایک دن وہ وزیرِ اعلی نہیں ہوں گے۔ چونکہ ارباب غلام رحیم ذاتی زندگی میں ایک مذہبی آدمی ہیں اور انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں جہاں ماتحتوں کو برسرِ عام تھپڑ مارے اور گالیاں دیں وہیں انہیں صوم و صلوۃ کا پابند بنانے کی بھی کوشش کی۔لہذا انھیں حضرت علیٰ کا یہ قول یاد دلانا بے جا نہ ہوگا کہ تلوار کا گھاؤ تو بھر جاتا ہے زبان کا گھاؤ نہیں بھرتا۔