سید احمد شہید ۲۸نومبر۱۸۷۶ء (۶صفر۱۲۰۱ھ) کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام سید محمد عرفان تھا۔بچپن ہی سے ان کی توجہ جسمانی کھیلوں کی طرف زیادہ تھی۔عمر بھرصبح کی ورزش ان کا معمول رہی مسلسل تین تین گھنٹے ڈنڈ پیلتے اور مگدر ہلاتے۔انہوں نے تیراکی میں بھی مہارت حاصل کی۔ پانی کے بہاؤ کے خلاف تیرنے کا بہت شوق تھا ۔سید احمدؒ اوائل عمر ہی سے ضعیفوں اور بیواؤں کا بہت درد رکھتے تھے۔صبح وشام اپنے آس پڑوس کے غربا کے ہاں جاتے ،انہیں لکڑی اور سودا لا کے دیتے اور ان کے لیے کنویں سے پانی بھر کر لاتے۔ سید احمد ؒ کوذکر الٰہی اور عبادت سے بھی خاص لگاؤ تھا۔اپنے چند ہم وطنوں کے ساتھ ملازمت کی تلاش میں لکھنو گئے ۔ملازمتیں دوستوں کو دلوادیں اور خود دہلی پہنچ گئے جہاں پر شاہ ولی ﷲ دہلوی کے بڑے بیٹے شاہ عبد العزیزؒ کی بیعت کی اور چھوٹے بیٹے شاہ عبدالقادرؒ سے بھی استفادہ کیا۔
۱۸۰۹ء میں وہ راجپوتانہ کے نواب امیر خاں کے پاس آئے ۔ وسطی ہندوستان کے اس حاکم کے پاس ایک منظم فوج اور بھاری توپ خانہ تھا۔سید صاحب اسلامی حکومت کی بحالی چاہتے تھے لیکن جب امیرخاں نے انگریزوں سے مصالحت کر کے اپنی فوج ختم کردی تو وہ اس کا ساتھ چھوڑ کر دہلی واپس چلے آئے۔ ۱۸۱۸ء میں ان کی ملاقات اپنے مرشد شاہ عبدالعزیز ؒ کے بھتیجے شاہ اسماعیل ؒ اور ان کے داماد مولانا عبدالحی سے ہوئی۔ ان تینوں اصحاب نے مل کر دہلی اور اس کے اطراف میں تبلیغ و دعوت کا کام کیااور جہاد و شہادت کی فضیلتوں پر جا بجا وعظ کہے۔اس زمانے میں سمندر کاسفر پرخطر تھا،بعض علما حج پر جانے سے روکتے۔ جب گڑھ (یوپی) کے مولوی یار علی نے فتویٰ دیا کہ اب سفر حج کرنا حرام ہے تو سیداحمدؒ نے اعلان کیا،میں حج پر جا رہا ہوں ،جو مسلمان میرے ساتھ جانا چاہتا ہے، میں اس سے خرچ کا مطالبہ نہ کروں گا۔ ۴۰۰ آدمیوں کے ساتھ وہ رائے بریلی سے چلے ،کلکتہ کی بندرگاہ سے روانہ ہوئے توان کے ساتھ جانے والے عازمین کی تعداد ۷۵۳ ہو چکی تھی۔ ان سب کے قیام و طعام اورواپسی کے اخراجات سید ؒصاحب نے خود برداشت کیے۔ان کے اس سفر میں ہزاروں غیر مسلم ان کے ہاتھوں نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے۔
اس زمانے میں ہندوستان کے بڑے حصے پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا جب کہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت تھی۔ سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا،وہ مسلمانوں کے کھیت تباہ کر دیتے اور مسجدوں کو جلا دیتے۔ہمسایہ ملک افغانستان میں اقتدار کی جنگ جاری تھی ۔اس کی سرحد پر واقع پشاور میں کوئی منظم فوج نہ تھی۔ سکھ راجہ رنجیت سنگھ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پشاور پر بھی قبضہ کر لیا۔ان حالات میں سید احمد شہیدؒ نے ہندوستان کوخیر باد کہا ،۱۷ جنوری ۱۸۲۶ء کو وہ ۶۰۰ کے قریب غازیوں کو لے کر رائے بریلی سے چلے۔ گوالیار، اجمیر، حیدرآباد (سندھ)، شکارپور ، بولان اور کوئٹہ کے راستے سے ہوتے ہوئے قندھار پہنچے۔پھر براستہ غزنی ،کابل ، جلال آباد،پشاور نوشہرہ آئے ۔ انہوں نے کابل میں ۴۵ روزصرف اس غرض سے قیام کیا کہ وہاں کے امیر دوست محمد خاں اور اس کے بھائیوں کے بیچ اختلافات ختم کرا دیں لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سرحد پہنچ کر سید احمدؒ نے سکھ حکومت کو اسلام قبول کر نے یا جنگ کی دعوت دی ۔حکومت کی طرف سے بدھ سنگھ ۱۰ہزارکی فوج لے کر اکوڑہ پہنچا۔ ۲۰ دسمبر ۱۸۲۶ء کو ۹۰۰ غازیوں نے آنے والے اس لشکر پر شب خون مارا، ۷۰۰ سکھ فوجی مارے گئے جب کہ محض ۳۶ مجاہدین شہید ہوئے۔سکھ لشکر چند میل پیچھے ہٹ کر شیدو میں مقیم ہو گیا۔
جنوری ۱۸۲۷ء میں شیدو کے مقام پر مجاہدین اور اس لشکر میں جنگ ہوئی ۔ یوسف زئی قبائل اور پشاور کے سرداروں سلطان محمد اور یار محمد کے دستوں کو ملا کر ایک لاکھ فوج معرکے کے لیے تیار تھی ۔ سکھوں نے خفیہ پیغامات بھیج کریار محمد کوجنگ سے قبل ہی ڈرا دھمکا لیاتھا۔اس نے سیدؒ صاحب کوایک رات پہلے زہر دلوایالیکن ان کی جان بچ گئی۔ عین اس وقت جب مجاہدین کو غلبہ ہوااور سکھ فوج پسپا ہونے لگی ،یار محمداور اس کے بھائی شکست شکست کا شور مچاتے ہوئے اپنی فوج میدان کارزار سے نکال کر لے گئے۔ شکست کے بعد سید بادشاہؒ نے سوات کی ایک وادی پنجتار(خدوخیل) میں اپنی چھاؤنی قائم کی ۔ فروری ۱۸۲۹ء میں انہوں نے اڑھائی ہزار علما اور پٹھان سرداروں کو یہاں جمع کیا اوران سے زکوۃ و عشر اور شرعی قوانین کے نفاذ کی بیعت لی ۔ہنڈ کے رئیس خادی خا ں نے سید صاحب کا ساتھ نہ دیا ،الٹا اس نے سکھوں کو پنجتار پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی ۔سکھ لشکر پنجتار پہنچ گیا لیکن اسے مجاہدین سے جنگ کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ لشکر کے لوٹ جانے کے بعد سید بادشاہؒ نے قلعہ ٔ ہنڈ کومسخر کیا پھر زیدہ کی جنگ میں درانیوں کی بھاری فوج کو شکست دی۔ان سے دغا کرنے والا ایک غدار یار محمد اس معرکے میں مارا گیا۔پنجتار میں سید احمد شہیدؒ کی حکومت چارسال سے زیادہ مدت تک قائم رہی،اس دوران میں انہوں نے ڈمگلہ اور شنکیاری کے مقامات پر سکھوں کو ہزیمت سے دوچار کیا۔امب پر قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے مردان کے قریبی علاقے مایار میں لڑی جانے والی جنگ میں فتح حاصل کی۔اس جنگ میں سلطان محمد خاں کے لشکر پر کاری ضرب لگی تو مردان اور پشاورکے شہر سیداحمدؒ کے ہاتھ آ گئے۔ شکست کھانے کے بعد سلطان محمد نے صلح کی درخواست کی ،اس نے شرعی نظام جاری کرنے اور جہاد میں مدد کرنے کا وعدہ کیاتو سید صاحب نے پشاور اسے واپس سونپ دیا۔ایک آزمائے ہوئے بد عہد شخص پر اعتماد کر لینا ایسا فیصلہ تھاجس سے کوئی خوش نہ تھا ، سیدبادشاہؒ کے قریبی ساتھی شاہ اسماعیلؒ کا دل بھی نہ مانتا تھا۔سیدصاحب ؒکا اصرار تھا ،ہمارا دین بندے کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے عہد وپیمان کو رد نہیں کرتا۔جب سلطان محمد خاں وعدہ کر رہا ہے کہ اب وہ عہد شکنی نہ کرے گا اورماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے گاتو کوئی وجہ نہیں ،ہم اس پراعتبار نہ کریں۔ا س وقت پشاور سے لے کر اٹک تک اور اٹک سے امب تک کا پوراعلاقہ سید صاحبؒ کے زیر نگیں تھا۔ سکھ ان سے اس قدر مرعوب ہو چکے تھے کہ صلح کی صورت میں اٹک کے اس پار ان کی عمل داری اور حکومت ماننے کو تیار تھے۔سید صاحب ؒ نے جواب دیا، ایک علاقہ یا جاگیر ہتھیانا ان کا مقصد نہیں ،وہ پورے ہندوستان میں اسلامی حکومت بحال کرکے شریعت نافذ کرانا چاہتے ہیں۔
ہونی ہو کر رہتی ہے ،۱۸۳۰ کی سردیوں میں سلطان محمد خاں نے پشاورمیں سید صاحبؒ کے متعین کردہ قاضی القضاۃ مولوی مظہر علی عظیم آبادی اور دوسرے عاملین عشر و زکوٰۃ کو شہید کر دیا۔ اس نے سمہ کے علاقے میں خط بھیجے کہ سیداحمد ؒ بد عقیدہ ہیں ،فلاں فلاں عالم نے ان کے قتل کا فتویٰ دیاہے ۔ اس کی تحریک اور سازش سے دیہاتوں میں بکھرے ہوئے ۲۰۰ کے قریب عاملین اورغازیوں کو شہید کر دیا گیا۔صرف امب اور پنجتار کے محفوظ مقامات تک پہنچ جانے والے غازی زندہ بچ سکے۔ سید احمدؒدرانیوں اور دوسرے خوانین کی بدعہدیوں سے تنگ آ چکے تھے۔انہوں نے کہا، اب یہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے ۔ ان کے مخلص ساتھیوں نے مشورہ دیا ، اس محفوظ مقام کو چھوڑ کر نئی جگہ جانا خطرے سے خالی نہ ہو گا۔ان کے ساتھ ہندوستان سے آنے والے مہاجراور مقامی پٹھان سب مصر تھے کہ یہاں سے کوچ نہ کیا جائے ۔سید صاحب ؒ نے کہا، مجھے دنیاوی جاہ وجلال کی آرزو نہیں، میں وہی کام کروں گا جس سے میرارب راضی ہو چاہے اس میں میری جان چلی جائے۔ایسے موقعوں پر ہجرت کرنا انبیا کی سنت ہے اس لیے اب یہاں سے چل نکلنا ہی موزوں ہے۔ان کا عزم دیکھ کر سب خوشی سے ان کی اطاعت کرنے پر تیار ہوگئے۔چونکہ کشمیر کے مسلمان بارہا سیدصاحب ؒ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے چکے تھے اورکشمیر کے راستے میں پڑنے والے علاقوں کے سرداربھی ان کا ساتھ دینے کے لیے ہمہ تن تیار تھے اس لیے انہوں نے دشوار گزار پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے مجاہدین کا لشکر لے کرکشمیر جانے کا ارادہ کر لیا۔دریائے اباسین کو عبور کرتے ہوئے وہ ہزار ہ کے بالائی مقام راج دواری پہنچے،پھر بھوگڑمنگ،گونش اور بالا کوٹ میں اپنے مراکز قائم کیے۔کچھ غازیوں نے آگے جا کر مظفر آباد پر قبضہ کر لیااس طرح کشمیر کا اکثر حصہ ان کے قبضے میں آ گیا۔زیادہ تر مجاہدین بالا کوٹ میں تھے کہ سید صاحب ؒ کے مخالفین نے راجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو ان پر حملہ کرنے کی دعوت دی ۔وہ ۱۰ ہزار کالشکر لے کر پشاور سے چلا۔بالا کوٹ اونچائی پر واقع ہے۔دریائے کنہار کے نشیب کی طرف سے سکھ فوج کا داخل ہونا آسان تھا اس لیے سید صاحبؒ نے دریا کاپل تڑوایا اور ناکے لگا کر اس راستے کو بند کر دیا۔ انہوں نے عقب سے آنے والے پہاڑی رستوں پر بھی اپنے غازی جوان متعین کر رکھے تھے ۔ کچھ مقامی لوگوں نے سکھ فوج کو پہاڑی پگ ڈنڈیوں پر سے ہوتے ہوئے مٹی کوٹ کے ٹیلے تک پہنچنے کا راستہ بتایا۔یہ بالا کوٹ کے مغرب میں اس سے زیادہ اونچائی پر واقع ہے ۔ اس زمانے میں مثل مشہور تھی ،جس کا مٹی کوٹ ،اسی کا بالا کوٹ۔ایسا ہی ہوا، جمعہ ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو دن چڑھے بالا کوٹ اور مٹی کوٹ کے درمیانی میدان میں خوں ریز لڑائی ہوئی جو ۲ گھنٹے ہی میں ختم ہو گئی۔سکھ تعداد میں کئی گنا زیادہ تھے، غازیوں نے بڑی جاں فشانی دکھائی اورمٹی کوٹ کی پہاڑیوں سے اترتے ہوئے بے شمار سکھوں کو جہنم واصل کیا حتیٰ کہ وہ وقتی طور پر پسپا ہوئے اور پہاڑیوں پر واپس چڑھنے پر مجبور ہو گئے۔ سید صاحب ؒ ایک پتھر کی اوٹ سے دشمن پر گولیاں برسا رہے تھے،جنگ تیز ہوئی تو وہ آگے بڑھ کر دست بدست لڑائی کرنے لگے ۔کچھ دیر میں ان کا پتا نہ چلا،غازی ان کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔شاہ اسماعیل ؒ کی پیشانی پر گولی لگی،ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ بھی سیدصاحب کو تلاش کر رہے تھے۔مولوی سید جعفر علی کے چشم دید بیان کے مطابق سید صاحب ؒ کی ران پر گولی لگی اور پیشانی پر پتھر سے چوٹ آئی۔کچھ غازی امیر المومنین کو نہ پاکر بالا کوٹ پلٹ گئے ،ان کا ارادہ وہاں سے دوبارہ حملہ کرنے کا تھالیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ سکھ فوج غالب آگئی،سید احمدؒاور شاہ اسماعیلؒ کے علاوہ ۳۰۰ غازی جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ فاتح سکھوں نے سید صاحب ؒ کا جثہ تلاش کرایا تو سر تن سے جد ا ملا۔ انہوں نے سر اور جسم اکٹھا کر کے دفن کرا دیے لیکن دوسر ے یا تیسرے دن نہنگوں(سکھوں کا ایک فرقہ)نے لاش قبر سے نکالی اور دریا میں بہا دی۔ دریائے کنہار میں بہتے ہوئے سر اورتن پھر الگ ہو گئے، تن دریا سے نکال کر تلہٹہ میں دفن کیا گیا جب کہ سر۳ میل اور آگے گڑھی حبیب اﷲ جا پہنچا،اس کی تدفین وہاں ہوئی۔ سید احمد شہیدؒ نے مجاہدانہ زندگی بسر کرنے کے ساتھ چند مختصر رسالے بھی تحریر کیے جو فارسی زبان میں ہیں۔‘‘تنبیہ الغافلین’’،‘‘رسالۂ نماز’’،‘‘رسالہ در نکاح بیوگان’’انہوں نے خود لکھے جب کہ ‘‘صراط مستقیم’’شاہ اسماعیلؒ اورمولانا عبد الحی کو املا کرائے۔