لوگوں نے حیات و سیرت طیبہ ختم المرسلین پر اس حیثیت سے بہت کم نظر ڈالی ہے کہ اگر روایات و دفاتر تاریخی سے قطع نظر کر لیا جائے اور صرف قرآن حکیم ہی کو سامنے رکھا جائے تو آپ کی سیرت و حیات پر کیسی روشنی پڑتی ہے ۔ اور جس طرح قرآن اپنی کسی بات میں اپنے غیر کا محتاج نہیں اسی طرح اپنے حامل و مبلغ کے وجود و حیات کے بیان میں بھی خارج کا محتاج ہے یانہیں۔ اصحاب سیر و محدثین کرام نے فضائل و مدائح منصوصہ قرآنیہ کے تو باب باندھے ہیں مثلاً قاضی عیاض نے شفا کے کے متعد دابواب میں قرآن حکیم کی آیات متعلق فضائل و مدائح جمع کی ہیں ، لیکن جہاں تک مجھے معلو م ہے آج تک کبھی اس کی کوشش نہیں کی گئی کہ صرف قرآن حکیم میں دائرہ استناد و اخذ محدود رکھ کر ایک کتاب سیر ت میں مرتب کی جائے ۔حیات و سیرت کا کوئی ضروری ٹکڑا ایسا نہیں ہے جس کے لیے قرآن میں ایک سے زیادہ آیات نہ ہوں اور پھر نہ صرف آنحضرت ﷺہی کی سیرت بلکہ صحابہ کرام کے حالات و خصائص کا بھی کافی ذخیرہ ملا ۔ صحابہ کی جماعت درس گاہ تزکیہ و تعلیم نبوت سے نکلی ہو ئی مومنون الاولون کی اولین جماعت تھی۔ اس لیے ان کے سوانح وایام بھی سیرت نبویہ ہی کے مختلف اجزا ہیں بلکہ ہدایت قرآنی و حکمت نبوی کے عملی و مجسم ثمرات ہونے کے لحاظ سے دلائل و آیت نبوت کے حکم میں داخل ۔ پس یقینا آپ کی سیر ت مکمل نہ ہوتی۔ اگر ان کے حالات بھی قرآن میں پوری شرح و تفصیل سے نہ ملتے ۔ اس ٹکڑے کودیکھ کر مجھ کو آخری مرتبہء یقین اس بارے میں حاصل ہو گیا کہ اگر دنیا سے تاریخ اسلام کی ساری کتابیں معدوم ہوجائیں اور دنیا نے جو کچھ چھٹی صدی عیسوی کے ایک ظہور دعوت کی نسبت سنا ہے وہ سب کچھ بھلا دے اور صرف قرآن ہی دنیا میں باقی رہے جب بھی آنحضرت ﷺ کی شخصیت مقدسہ اور آپ کی سیر ت و حیات کے براہین و شواہد مٹ نہیں سکتے ۔صرف ایک قرآن ہی اس کے لیے بس کرتا ہے کہ و ہ ہمیشہ دنیا کو بتلا دے کہ اس کا لانے والا کو ن تھا؟ کیسے زمانے میں آیا؟ کس ملک میں پیدا ہوا؟ اس کے خویش و یگانہ کیسے تھے ؟ قوم و مرزبوم کا کیا حال تھا؟ اس نے کیسی زندگی بسر کی ؟ ا س نے دنیا کے ساتھ کیا کیا اور دنیا نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ اس کی باہر کی زندگی کیسی تھی اور گھر کی معاشرت کا کیا حال تھا؟ اس کے دن کیسے بسر ہوتے تھے اورراتیں کن کاموں میں کٹتی تھیں ؟ اس نے کتنی عمر پائی ؟ کون کون سے اہم واقعات حوادث پیش آئے ؟ پھر جب دنیا سے جانے کا وقت آیاتو دنیااور دنیا والوں کو کس حال پر چھوڑ گیا؟ اس نے جب دنیا پر پہلی نظر ڈالی تھی تودنیاکا کیا حال تھا اور جب واپسیں نظر وداع ڈالی ، تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ چکی تھی؟ غرض کہ ایک وجود و مقاصد وجود اوراعلام صداقت و عظمت کے لیے اس کے وقائع میں سے جن جن باتوں کی ضرورت ہو سکتی ہے ، وہ سب کچھ قرآن کی زبانی دنیا معلوم کر لے سکتی ہے اور اس بارے میں بھی قرآن اپنے سے باہر کا ابداً محتاج نہیں۔ اور پھر یہ سب کچھ از قبیل اشارات و مرموزات نہیں ہے جیسا کہ ارباب نکات و دقائق کا طریق استنباط ہے بلکہ صاف صاف اور کھلاکھلا بیان جوفقہا کے طریق استنباط اشارۃ النص سے کہیں زیادہ واضح اور ظاہر ہے ۔ اور اگر رموز و اشارات و تلمیحات کا طریق اختیار کیا جائے تو پھر خاص خاص آیتوں کو چھانٹنے کی کیا ضرورت؟ پورے قرآن میں بجز اس ایک ذکر کے اورکوئی ذکر ہی نہیں ہے ۔اگر غور کیا جائے تو فی الحقیقت یہ معاملہ بھی منجملہ مہمات خصائص و اعجاز قرآن کے ہے ۔ کسی پیغام کی صداقت جانچی نہیں جا سکتی جب تک پیغام لانے والے کی صداقت و امانت نہ جانچی جا سکے اوروہ ممکن نہیں جب تک اس کی پوری زندگی اورزندگی کے وقائع و اعمال دنیا کے سامنے نہ ہوں۔ پس اس اعتبار سے آج تمام عالم میں اگر کوئی صحیفہ آسمانی ایسا ہے جو اپنے لانے والے کی زندگی کے وقائع و سوانح ہر زمانے اور ہر عہد میں خود اپنی زبانی سنا دے سکتا ہے تو وہ بحکم ھذا کتابنا ینطق علیکم بالحق (ہماری یہ کتاب تم سے سچ سچ بیان کرتی ہے ۔ سورہ الجاثیہ ) بجز قرآن حکیم و محفوظ کے اور کوئی نہیں۔ اس کے علاوہ جس قدر کتب سماویہ ( فی اعتقادنا و فی زعمھم) موجود ہیں و ہ یا تو اپنی صداقت کی اور ساری باتوں کی طرح اس بارے میں بھی بالکل خاموش اور مظلم ہیں ، حتی کہ اپنے لانے والوں کے وجود کے اثبات سے بھی عاجز، اور اگر اس کی شخصیت کا ذکر کرتی بھی ہیں و ایسے مجہول و سراپا شکوک و ارتیاب کی شکل میں جس سے اثبات کی جگہ اور زیادہ سلب و نفی کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر جب اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ آج دنیا میں شہرت و تواتر ، نقل و حفظ و روایت ، اور توراث اسناد و قرا ت و تعامل کروڑ ہا نفوس عالم ۔۔۔۔کے اعتبار سے صرف یہی ایک کتاب قطعی و یقینی اورمحفوظ و غیر مبدل ہے ۔ اور اسی لیے علی وجہ الار ض اسم و علم ‘ الکتاب’ کا مستحق اور کوئی نہیں۔ تو پھر ظاہرہے کہ جس وجود اور شخصیت اور اس کی حیات و سیرت کا اثبات و اعلام اس کتاب کے اند رہو گا اس کے وجود و سیرت سے بڑھ کر سماء دنیا کے نیچے اور کو ن سی انسانی ہستی قیامت تک کے لیے اثبت و اقوم ہو سکتی ہے ؟ اور دنیا اپنی ہدایت کے لیے اگر کسی انسان کے آگے جھک سکتی ہے تو اس انسانیت کبری و عبدیت اعلی و بشریت واحدہ کے سوا اور کون انسان ہے ،جس پر آنکھوں سے دیکھنے والوں کی طرح ہمیشہ یقین کیاجا سکتا ہے ۔ اور جس پر ایمان لانے کے لیے پچھلی امتیں اور نسلیں بھی پہلوں کی طرح قطعی و یقینی روشنی رکھتی ہیں؟
ماخوذ از تذکرہ مرتبہ مالک رام
انتخاب ، خضر حیات ناگپوری