محمد مصطفی گنج سعادت کے امیں تم ہو
شفیع المذنبیں ہو ، رحمۃ اللعالمیں تم ہو
ہوئی تکمیل دین تم سے کہ ختم المرسلیں تم ہو
رسالت ہے اگر انگشتری اس کے نگیں تم ہو
تمہاری یاد ہو جس دل میں ایسے دل کا کیا کہنا
مکاں ہو گا عجب ہی شان کا جس کے مکیں تم ہو
ہوئی کافور ظلمت کفر کی جس کی شعاعوں سے
زمانہ پر یہ روشن ہے کہ وہ مہر مبیں تم ہو
ہوا اسلام کا شرمندہ احسان جہاں سارا
ہر ایک اقلیم پر برسا گئے در ثمیں تم ہو
لقب خیر الامم جس کو دیا تاریخ عالم نے
اس امت کے نگہباں اس زمانے میں تمہیں تم ہو
محمد کے تصدق میں تمہاری مغفرت ہو گی
اگر وابستہ دامان ختم المرسلین تم ہو
مولانا ظفر علی خاں کا نام برصغیر کی سیاسی اور ادبی تاریخ کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ ایک مشاق شاعر، ممتاز ادیب، بے باک صحافی ، فعال اورنڈر سیاسی رہنما اور شعلہ بیان مقررتھے۔ غرض کہ بڑی ہی رنگا رنگ شخصیت کے مالک تھے۔ ۱۸۷۳ میں وزیر آباد کے قریب کرم آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ برسوں بسلسلہ ملازمت حیدرآباد دکن میں مقیم رہے۔لیکن اپنی آزاد فطر ت ، جوش طبیعت اور قومی و مذہبی حمیت کی وجہ سے انہیں ریاست چھوڑنے پر مجبور ہو نا پڑا۔پنجاب واپس لوٹے اور والد کے جاری کردہ ہفتہ واراخبار ‘‘زمیندار’’ کو روزنامے میں بدل دیا۔ انہوں نے اپنے زور قلم سے زمیندار کو ملک کانمائندہ اخبار بنا دیا۔ انہوں نے تحریک پاکستا ن میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔و ہ بڑے وسیع المطالعہ تھے ،انگریزی اوراردو پر یکساں قدرت رکھتے تھے ۔شعر و ادب ، صحافت ،خطابت اور سیاست کا یہ شہسوار حب نبی سے ہمیشہ سرشار رہا ۔ عشق رسول ان کا سرمایہ حیات تھا۔ ۱۹۵۶ میں انتقال ہو ا اور آبائی گاؤ ں میں دفن ہوئے۔انتخاب خضر حیات ناگپوری