چاہتا ہے جو دکھ سے بچے آدمی
ان کے نقش قدم پر چلے آدمی
دیکھنا جب بھی ہو، ان کے اخلاق کو
مصحف کبریا، دیکھ لے آدمی
نفرتوں کے نہیں تھے وہ پیغام بر
نفرتوں سے کنارا کرے آدمی
وہ جو طائف میں گزری، رہے ذہن میں
صبر سے آزمایش، سہے آدمی
حکم ان کا یہی ہے، عمل بھی یہی
جو کٹے کیوں نہ اس سے جڑے آدمی
‘‘خاک سے ہیں، سب آدم کی اولاد ہیں’’
کھینچتا کیوں ہے یہ دائرے آدمی؟
اعتراف خطا سے نہ پیچھے ہٹے
جو غلط ہے نہ اس پر اڑے آدمی
جس نے محروم رکھا ہمیشہ نعیم
وقت آئے تو اس کو بھی دے آدمی