تجوید کی تعریف
قرآن کے حرفوں کو ان کے مخارج مقررہ سے تمام صفات کے ساتھ ادا کرنے کو تجوید کہتے ہیں۔
تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت کا حکم
قرآن، حدیث اور اجماع امت کی رو سے تجوید کے مطابق قرآن پڑھنا ضروری ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : ‘وَرَتِّل القُرآنَ تَرتِیلاً.’ (المزمل، ۴) اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول منقول ہے : ‘‘ترتیل نام ہے حروف کو تجوید کے ساتھ ادا کرنے اور وقف کا محل اور اس کا طریقہ پہچاننے کا’’۔
حرکات: -َ -ِ -ُ زَبر، زیر، پیش کو حرکات کہتے ہیں۔ جن حروف پر حرکات ہوں انھیں جلدی ادا کریں ، تھوڑا بھی نہ کھینچیں اور نہ جھٹکے سے پڑھیں، نہ آخر میں ‘ہا’ کی آواز نکالیں۔
جزم (سکون): -ْ جس حرف پر جزم ہو اس کو پچھلے حرف سے ملا کر پڑھتے ہیں۔ جزم والے حرف کو ساکن کہتے ہیں۔
حروف مدّہ: حروف مدّہ تین ہیں۔ ا، ی، و۔ ان کو تھوڑا کھینچ کر پڑھیں ۔
ا: الف ساکن سے پہلے زبر ہو تو زبر کو کھینچ کر پڑھیں، مثلاً زَادَ۔ قَالَ، تَابَ۔
یْ: یائے ساکن سے پہلے زیر ہو تو زیر کو کھینچ کر پڑھیں، مثلاً دِیْنِیْ، فِیْہِ، اَخِیْہِ۔
وْ: واؤ ساکن سے پہلے پیش ہو تو پیش کو کھینچ کر پڑھیں، مثلاً نُوْحُ، طُوْرُ، قَالُوْا.
-ٰ -ٖ -ٗ : کھڑا زبر۔ کھڑا زیر۔ الٹا پیش۔ ان تینوں کو بھی حروف مدّہ کی طرح کھینچ کر پڑھیں۔
-ٰ: کھڑا زبر برابر ہے الف کے جیسے بٰ۔ بَا۔
-ٖ: کھڑا زیر برابر ہے یا کے جیسے بٖ۔ بِیْ۔
-ٗ: الٹا پیش برابر ہے واؤ کے جیسے بٗ۔ بُوْ۔
ان کی مثالیں : اٰدَمَ۔ اٖلٰفِ۔ دَاوٗدَ۔
حروف لین: حروف لین دو ہیں۔ و۔ ی۔ واؤ ساکن سے پہلے زبر ہو اور یائے ساکن سے پہلے زبر ہو تو ان دونوں حرفوں کو نرم آواز کے ساتھ جلدی ادا کریں۔ مثلاً اَوْفِ۔ حَوْلَ۔ بَیْنَ۔ اَیْنَ۔
تنوین اور نون ساکن: -ً -ٍ -ٌ دو زبر، دو زیر، دو پیش کو تنوین کہتے ہیں۔
نْ: نون ساکن اس نون کو کہتے ہیں جس پر جزم (سکون) ہو۔ تنوین یا نون ساکن کی آواز ایک جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً باً ۔بنْ۔ بٍ۔ بِنْ۔ بٌ۔ بُنْ۔
تنوین اور نون ساکن کے قاعدے
تنوین اور نون ساکن کے چار قاعدے ہیں:
۱۔ اظہار۔ ۲۔ اخفاء۔ ۳۔ اقلاب۔ ۴۔ ادغام۔
۱۔ اظہار: (حروف حلقی چھ ہیں: ء ہ ع ح غ خ) تنوین یا نون ساکن کے بعد حروف حلقی میں سے کوئی حرف آئے تو نون کو ظاہر کر کے پڑھیں ۔ مثلاً طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔ مِنْہُ خِطَاباً۔ مِنْ عَیْنٍ۔ اٰنِیَۃٍ۔ نَارٌ حَامِیَۃٌ۔ مِنْ غَیْرِہٖ۔ لِمَنْ خَشِیَ۔
۲ ۔ حروف اخفا پندرہ ہیں: ت ث ج د ذ ز س ش ص ض ط ظ ف ق ک۔ تنوین یا نون ساکن کے بعد حروف اخفاء میں سے کوئی حرف آئے تونون کی آواز ناک میں چھپا کر پڑھیں۔ اخفاء کی مقدار ایک الف کے برابر ہے۔ مثلاً اَنْتَ مُنْذِرُ۔ کِرَاماً کَاتِبِیْنَ۔ مَنْ دَخَلَہٗ۔ اُنْثٰی۔
۳۔ اِقلاب: تنوین اور نون ساکن کے بعد حرف‘ب’ آئے تو ‘ن’ کو ‘م’ سے بدل کر غُنّہ کے ساتھ پڑھیں، اس کو اقلاب کہتے ہیں۔ مثلاً لَنَسْفَعاً م باِلنَّاصِیَۃِ۔ کِرَامٍ م بَرَرَۃٍ۔ رَجْعم بَعِیْدٌ۔ مَنْم بَخِلَ۔ مِنْم بَعْدِ۔
۴۔ ادغام: حروف ادغام چھ ہیں۔ ی ر م ل و ن۔ ان کو حروف ‘یرملون’ بھی کہتے ہیں۔ تنوین یا نون ساکن کے بعد حروف ‘یرملون’ میں سے کوئی حرف آئے تو ‘ل’ اور ‘ر’ کی صورت میں بغیر غنّہ کے ملا کر پڑھیں۔ اس کو ادغام بلا غنّہ اور ادغام تام بھی کہتے ہیں۔
الف۔ ادغام بلا غنّہ: مثلاً رزقاً لّکُم۔ اُفٍّ لّکُمْ۔ کُلٌّ لّہٗ۔ مِنْ لَّبَنٍ۔ مِنّ رَّبِّکَ۔ عِیْشَۃٍ رَّاضِیًۃٍ۔ رَ ءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ تنوین یا نون ساکن کے بعد حروف ‘یرملون’ میں سے ‘ی و م ن’ (یومن) دوسرے کلمہ میں آئیں تو غنّہ کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ اس کو ادغام مع الغنّہ او ر ادغام ناقص بھی کہتے ہیں۔
ب۔ ادغام مع الغنّہ: مثلاً مَنْ یَّعْمَلَ۔ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ۔ اِلٰہًا وَّاحِدًا۔ مَنْ وُّعِدَ۔ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۔ رَحِیْمُ وَّدُوْدٌ۔ رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ۔ عَنْ مَّنْ۔ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا۔ مِنْ نَّبِیٍّ۔فَمَنْ نَّکَثَ۔ نُوْرًا نَّہْدِیْ۔
حروف قلقلہ: حروف قلقلہ پانچ ہیں۔ ق ط ب ج د۔ ان کا مجموعہ قُطُبُ جدٍّ ہے۔ جب ان پر جزم ہو تو پڑھتے وقت ان کے مخرج ٹکر کھا کر الگ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً یَجْعَلْ۔ لَقَدْ۔ خَلَقْنَا۔ اَطْعَمَنَا۔ اِبْرَاہِیْمَ۔
ہمزہ: (ءْ) ہمزہ ساکنہ کے پڑھنے میں جھٹکا ہوتا ہے۔ مثلاً اِقْرَأْ۔ تأتُوْنَ۔ یأْتِیْکَ۔ یأْمُرُوْنَ۔
تشدید: -ّ جس حرف پر تشدید ہو اس کو مُشدّد کہتے ہیں اور یہ دو مرتبہ پڑھا جاتا ہے۔ ایک بار پچھلے حرف سے ملا کر اور ایک بار خود اُسے جس پر تشدید ہو۔ آواز میں ایک قسم کی سختی ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آواز اس میں رک گئی ہے۔ مثلاً کُوِّ۔ عَدَّ۔ سُجِّ۔ فَعَّ۔
نون اور میم پر تشدید ہو تو غنّہ کریں گے۔ مثلاً یَظُنُّ۔ اِنَّ۔ مِمَّا۔ ثُمَّ۔ ناک میں تھوڑی دیر آواز روکنا غنّہ کہلاتا ہے۔ غُنّہ کی مقدار ایک الف برابر ہے۔
حروف مُسْتَعْلِیَۃ: حروف مستعلیہ سات ہیں۔ خ ص ض غ ط ق ظ۔ ان کا مجموعہ خُصَّ، ضَغْطٍ، قِظْ ہے۔ ان کو ہمیشہ پُر (موٹا) پڑھنا چاہیے۔
‘ر’ کو پُر اور باریک پڑھنے کے طریقے
رائے متحرک پر زَبر یا پیش ہو تو ‘ر’ کو پُر (موٹا) پڑھیں گے۔ مثلاً رَبِّ۔ رَبَّنَا۔ رُفِعَتْ۔ اٰخِرَۃِ۔
رائے متحرک پر زیر ہو تو باریک پڑھیں گے۔ مثلاً وَطُوْرِ سِنِیْنَ۔ مِنْ غَیْرِہ۔ مُجْرِمِیْنَ۔
رائے ساکنہ سے پہلے زبر یا پیش ہو تو رائے ساکنہ پر ہو گی ورنہ باریک ۔ مثلاً اَرْسَلْنَا۔ یَغْدُرْکَ۔ فِرْعَوْنَ۔ اُمِرْتُ۔
رائے ساکنہ سے پہلے زیر ہو اور اسی کلمہ میں حروف مستعلیہ میں سے کوئی حرف آئے تو رائے ساکنہ کو پُر پڑھیں گے۔مثلاً مِرْصَادًا۔ قِرْطَاسٍ۔ فِرْقَۃٌ۔
رائے ساکنہ سے پہلے زیر ہو اور حروف مستعلیہ دوسرے کلمہ میں آئے تو رائے ساکنہ باریک ہو گی۔ مثلاً فَاصْبِرْ صَبْرًا۔
لام جلالَہ: لفظ اللہ سے پہلے زَبر یا پیش ہو تو اللہ کے لام کو پُر یعنی موٹا پڑھیں گے۔ زیر ہو تو باریک پڑھیں گے، باقی ہر لام باریک پڑھیں گے۔ مثلاً
زبر: اِنَّ اللّٰہَ۔ قَالَ اللّٰہُ
زیر: قُلْ اللّٰہُ۔ دِیْنِ اللّٰہِ
پیش: حُدُوْدُ اللّٰہِ۔ خَلْقُ اللّٰہِ
میم ساکن کے قاعدے
میم ساکن کے تین قاعدے ہیں:
۱۔ اظہار شفوی۔ ۲۔ اخفاء شفوی۔ ۳۔ ادغام شفوی۔
۱۔ اظہار شفوی: میم ساکن کے بعد ‘ب’ اور میم کے علاوہ کوئی اور حرف ‘و’ یا ‘ف’ آئے تو میم کو ظاہر کر کے پڑھیں گے۔ جیسے اردو میں ہم۔ تم کی میم، مثلاً ہُمْ فِیْہَا۔ لَکُمْ دِیْنُکُمْ۔
۲۔ اخفاء شفوی: میم ساکن کے بعد حرف ‘ب’ آئے تو غنہ کے ساتھ اخفاء ہو گا۔ مثلاً اِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ۔ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ۔
۳۔ ادغام شفوی: میم ساکن کے بعد ‘م’ آئے تو ‘م’ کو ‘م’ سے ملا کر غنّہ کے ساتھ پڑھیں گے۔ مثلاً اِلَیْکُمْ مُّرسَلُوْنَ۔ لَہُمْ مَّا یَشَاءُ وْنَ۔
مَدْ -ٓ: ۱۔ حروف مدّہ کے بعد ہمزہ اسی کلمہ میں ہو تو مدّ متصل ہو گا۔مثلاً جَآءَ۔ سِیٓئَتْ۔ سُوْٓءُ۔
۲۔ حروف مدّہ کے بعد والے حرف پر اگر جزم یا تشدید ہو تو مد لازم ہو گا۔ مثلاً اٰلْٓئٰنَ۔ حَآجُّوْکَ۔ وَالصّٰٓفّٰتِ۔
رسم الخط (لکھنے کاطریقہ): قرآن پاک میں بہت جگہ‘ا۔و۔ی’ لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے۔ مثلاً اَفا× ئِنْ مَّاتَ۔ مَلَا ×ئِہ۔ مُوْسٰی× عِیْسٰی× زَکٰو× ۃَ۔ صَلٰو× ۃَ۔
نوٹ: لفظ ‘اَنَا’ میں نون کے بعد کا الف کہیں نہیں پڑھا جائے گا۔ بلکہ‘ اَنَ’ کی طرح پڑھیں گے جبکہ اس پر وقف نہ کریں۔
طریقۂ وقف: (یعنی رکنے کا طریقہ): ایسے گول نشان کو o آیت کہتے ہیں۔ زبر زیر پیش ۔ دو زبر، دو زیر، دو پیش پر آیت کرنا ہو تو آخری حرف پر جزم (سکون) دے کر سانس توڑیں۔ اسی کو آیت کرنا یا رکنا کہتے ہیں۔ دو زبر پر رکنا ہو تو ایک زبر کے ساتھ الف پڑھا جاتا ہے خواہ الف لکھا ہو یا نہ ہو۔مثلاً اَحَدًا سے اَحَدَا۔ نِسَاءً سے نِسَاءَ ا۔
گول ۃ پر آیت کرنا ہو تو ہائے ساکنہ بن جاتی ہے یعنی آخر میں‘ہا’ کی آواز آئے گی۔ مثلاً جَارِیَۃٌ سے جَارِیَہْ۔ حَامِیَۃٌ سے حَامِیَہْ۔
اہم آداب تلاوت
۱۔ قرآن شریف کی تلاوت بہتر تو یہ ہے کہ وضو کر کے کی جائے کیونکہ وضو کر کے پڑھنے سے ایک حرف کا ثواب ۲۵ نیکیوں کے برابر ملتا ہے۔ البتہ بے وضو بھی جائز ہے ۔
۲۔ تلاوت قرآن کے وقت نہ ہنسے، نہ کھیلے۔ درمیان میں کسی سے بات چیت بھی نہ کرے اگرچہ سلام کا جواب ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر کوئی سخت ضرورت پیش آ جائے تو قرآن مجید کو بند کر کے بات کرے اور پھر ‘اعوذ’ پڑھ کر تلاوت شروع کرے۔ تلاوت کرنے والے کو سلام نہ کرنا چاہیے اور اگر کسی نے سلام کیا تو اس پر جواب دینا نہیں ہے۔
۳۔ جب بھی تلاوت قرآن شروع کریں ‘اعوذ’ اور بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں۔
ختم قرآن کا طریقہ
۱۔ جب قرآن ختم کرنے لگے تو سورۃ الناس کے آخر پر تلاوت ختم نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اسی وقت اسی مجلس میں دوسرا قرآن مجید شروع کر دینا چاہیے اور سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی چند ابتدائی آیات یعنی ‘المفلحون’ تک پڑھ کر تلاوت ختم کرنی چاہیے۔ اس طرح سے تلاوت کرنے والا شخص قرآن مجید کا ایسا ختم کرنے والا ہے کہ اس نے ختم کرتے ہی دوسرے قرآن کا آغاز کر دیا ہے اور تلاوت قرآن سے اکتایا نہیں۔
۲۔ قرآن ختم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اوراپنی دینی اور دنیوی حاجتیں اس سے مانگیں اور تلاوت قرآن میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کے بارے میں اللہ سے استغفار کریں اور گناہوں کی معافی مانگیں۔
استاذ القرا: ابوالحسن صدیقی (ابوظبی)