غزل

مصنف : کیف بھوپالی

سلسلہ : غزل

شمارہ : جون 2009

 

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں تہمتیں، بدنامیاں ، رسوائیاں
 زندگی شاید اسی کا نام ہے دوریاں ، مجبوریاں ، تنہائیاں
 
 کیازمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات کروٹیں، بے تابیاں، انگڑائیاں
 کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار آہٹیں، گھبراہٹیں، پرچھائیاں
 
 ایک رند مست کی ٹھوکر میں ہیں شاہیاں، سلطانیاں، دارائیاں
 رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور حکمتیں، آگاہیاں ، دانائیاں
 
 ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئیں خوبیاں ، زیبائیاں ، رعنائیاں
 دیدہ و دانستہ ان کے سامنے لغزشیں، ناکامیاں، پسپائیاں
 
 زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں بدلیاں ، برکھا رتیں، پرُوائیاں
 ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں الجھنیں ، فکریں، قیاس آرائیاں
 
 چند لفظوں کے سوا کچھ بھی نہیں نیکیاں ، قربانیاں ، سچائیاں
 کیف ، پیدا کر سمند ر کی طرح وسعتیں ، خاموشیاں ، گہرائیاں