ابو، آپ کہاں ہیں!

مصنف : ڈاکٹر حنا خان

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : مئی 2009

 

ایک بیٹی اپنے باپ کو یادکرتی ہے 
یادیں ان کی خوشبو خوشبو

 

ترجمہ: محمد صدیق بخاری

            سینما ہال کی مدھم روشنی میں جوں ہی میں نے ابو کی خالی سیٹ دیکھی تو امی کے کان میں کہا ،امی ،ابوکہاں ہیں؟ وہ مغرب کی نماز پڑھنے گئے ہیں، امی نے جواب دیا۔یہ سن کر مجھے ایک ندامت سی محسوس ہوئی کہ میں فلم کا ایک حصہ کیوں نہ قربان کر سکی۔اور پھر میں سوچنے لگی کہ اس اچھی فلم کی طرح ہر اچھی چیز اتنی جلد کیوں ختم ہو جاتی ہے؟ کاش ایساہو جائے کہ اچھی چیزیں ہمیشہ قائم رہا کریں اور انسا ن ہر دکھ سے آزاد زندگی گزارا کرے۔

              اس طرح کے مواقع پر، مجھے پھر کبھی اپنی امی سے یہ پوچھنے کی نوبت نہ آئی کہ امی ابو کہاں ہیں کیوں کہ مجھے یہ اچھی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ کوئی بھی جگہ اور کوئی بھی موقع کیوں نہ ہو، ابو نماز ضرور پڑھیں گے۔ چاہے ہم کسی شاپنگ مال میں ہوں یا کسی سینما ہال میں، چاہے وہ ساحل سمند رہو یاکوئی خاندانی تقریب ، ابو نماز کو کبھی نہ بھولتے تھے اور نماز کے وقت وہ ہم سب کو چھوڑ کر یوں چل دیتے تھے کہ جیسے ہمیں جانتے ہی نہ ہوں۔ہم چھ بہن بھائیوں نے جلد ہی ان کی نقل شروع کر دی اور پھر جب نماز کا وقت ہوتا تو ابو اکیلے نہ ہوتے تھے بلکہ ہماری صف ان کے ساتھ ہوتی تھی ا سطرح انہوں نے بچپن ہی سے ہمارے من میں نماز سے محبت کی جوت جگا دی تھی۔

            میرے والد کا تعلق بلوچستان کے قبائلی علاقے سے تھاجسے انہوں نے پہلے سکول کے لیے چھوڑا اور پھر کالج سے لے کر انجینرنگ کی ڈگر ی تک چھوڑے ہی رکھا۔وہ اپنے باپ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور والد نے قبائلی لڑائیوں کے خطرے کے پیش نظر انہوں جلد ہی گاؤ ں سے باہر بھیج دیا تھاکیونکہ اس سے قبل ا ن کے والد اپنے کئی بیٹے قبائلی عصبیت کی بھینٹ چڑھا چکے تھے۔میرے دادا نے جلد ہی یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ان کا چھوٹا بیٹا باقی سب سے مختلف ہے اس کو نہ تو زمین جائداد سے کوئی دلچسپی تھی نہ ہی قبائلی روایات اور جھگڑوں سے۔ وہ سرداری نظام میں بھی کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا حالانکہ خود اس کاوالد قبیلے کا سردار تھا۔ اس کی دلچسپی توبس اپنی کتابوں اور پڑھائی تک محدود تھی اور وہ قبائلی او رخاندانی شور وغوغا سے دور کتابوں کی دنیا میں کھویا رہتاتھا۔

            آ ج جب میں زندگی کے ایک ایسے موڑ پر کھڑی اپنے والد کے بارے میں سوچتی ہوں کہ جہاں وہ میرے ساتھ نہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ اللہ کے ہاں سے صفت ابراہیمی لے کر پیدا ہوئے تھے ۔ان کی زندگی میں توحید کا رنگ بہت گہر اتھااور اس نے ان کی زندگی کو ایک خاص رنگ میں رنگ دیا تھا۔ (صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ)

            وہ بہت باحوصلہ انسا ن تھے ۔قبائلی عصبیت کی جنگو ں سے گریز کے باوجود انہوں نے ہر اس رسم اورروایت کے خلاف جنگ لڑی جو ان کے خیال میں جہالت پر مبنی تھی۔ان میں سے ایک بہت اہم رسم بیٹیوں کو ناخواند ہ رکھنا اور ان کی شادیاں خاندان میں کرنے سے متعلق تھی تا کہ جائدادنہ صرف محفوظ رہے بلکہ اپنے ہی خاندان میں منتقل ہوتی رہے۔

            اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد ان کاٹریننگ اور جاب کے سلسلے میں مختلف مقامات پر جانا ہوا۔ایسے ہی ایک تعلق سے ان کی ملاقات میری والدہ کے چھ بھائیوں سے ہوئی جو ممبئی کے مضافات سے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ میرے نانا کا ممبئی میں بزنس تھا اوروہ تحریک پاکستا ن سے محبت رکھتے تھے ۔ ہمیں بھی پاکستا ن اور تحریک پاکستان کے لیڈروں سے محبت والدہ کے صدقے ملی۔میری والدہ کے خاندان میں وہی زبان بولی جاتی تھی جو جناح صاحب کے خاندان میں اور میری والدہ کوآج بھی وہ منظر یا د ہے جب جناح صاحب ان کے سکول میں آئے تھے اور ان کے سر پر بھی انہوں نے ہاتھ پھیرا تھا۔

            میرے ماموں کاروباری معاملات اورعام زندگی میں اس بلوچ نوجوان کی دیانت اور محنت سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بہن کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور میرے والد نے بھی ہر قسم کے خاندانی ، علاقائی اور مذہبی تعصبات سے بالا تر ہوکر یہ پیش کش قبول کر لی تھی۔ میری والدہ کا تعلق شیعہ مکتبہ فکر سے تھا جبکہ والد اہل سنت میں سے تھے اور اس زمانے میں اس قسم کی شادی بہت عجیب تھی ۔ یہ شادی بھی دراصل اسی جنگ کا ایک تسلسل تھا جو والد صاحب روایت پرستی اور جہالت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ (میری والدہ بھی میرے والد صاحب کی طرح بچپن ہی میں والدین کے سایہ سے محروم ہو گئی تھیں)

            میری والدہ اپنی پوری ازدواجی زندگی میں والد صاحب سے بہت متاثر رہیں۔ شادی کے بعد دونو ں بلوچستان منتقل ہوگئے تھے ۔والد صاحب نے کبھی والدہ کے مذہبی عقائد اور معاملات پراعتراض نہ کیا اگرچہ انہوں نے ہماری تعلیم وتربیت کے لیے بہت اہتمام سے ایک سنی مولوی صاحب کا تقرر کیاتھا۔البتہ والدہ صاحبہ کی وجہ سے مجھے شیعہ مکتبہ فکر کو جاننے اور قریب سے دیکھنے کا بہت موقع ملا ۔ کراچی اور کوئٹہ کی شیعہ مجالس اور اجتماعات میں جانے کے بھی وافر مواقع میسر آئے۔

            مجھے کوئی ایسی صبح یا د نہیں جب والد محترم نے بآواز بلند قرآن مجید کی تلاوت نہ کی ہو۔ قرآن مجید کی یہی آواز ہمیں فجر میں جگانے کاباعث بنتی تھی۔بعد کے دنوں میں انہیں مسجد سے بہت محبت ہو گئی تھی خاص طو ر پراس کے بعد جب کہ میرا ایک بھائی اور ایک بہن ایک حادثے میں موت کی نذر ہو گئے تھے۔زندگی کے جبر مسلسل کا انہوں نے ہمیشہ بہت ثابت قدمی سے مقابلہ کیااو رخاندان کے ضمن میں ان پر عائد ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہ ہوئے۔جب وہ میرے موجودہ گھر میں آیا کرتے تو کہتے ‘ گلابی ’ مجھے تمہارا برمنگھم والا گھر بہت پسند تھاکیونکہ وہاں دو مساجد قریب قریب تھیں،اور یہاں مسجد دور ہے جس کے لیے گاڑی پر جانا پڑتا ہے اورپھر وہ مسکراکر کہاکرتے ، اس عمر میں برٹش قوانین کی پابندی کے ساتھ میرے لیے ڈرائیونگ یقینا مشکل امرہے۔لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنی عادت کے موافق اندھیرے منہ اٹھتے ،کار پر جمنے والی برف کو صاف کرتے پھربچوں کو سکول چھوڑتے اور مجھے ہسپتال۔اور اس وقت بھی وہ میرے ساتھ ہوا کرتے جب شمالی انگلینڈ کی برفانی ہواؤں میں ،میں اپنے خاوند کا انتظار کیا کرتی جو کسی اور علاقے میں کام کرتے تھے اور واپسی پر مجھے اس مقام پر آ ملتے تھے جہاں ہم ان کا انتظارکر رہے ہوتے تھے۔

            میرے والدین نے ہم بہن بھائیوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔وہ چونکہ مواصلاتی انجنیر تھے اور اس ناطے ان کی ٹرانسفر بہت سے مقامات پر ہوتی رہتی تھی اس لیے ہمیں بھی بہت سے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کاموقع ملا۔میں نے کوئٹہ کانونٹ سے نرسری کی تعلیم کا آغاز کیا۔سکول اور کالج کے دنوں میں وہ باوجود اپنی مصروفیات کے ہمیشہ ہر اہم موقع اور ہر اہم تعلیمی تقریب میں میرے ساتھ رہے۔وہ میرے لیے ایک منارہ نو ر تھے جہاں سے مجھے زندگی کی ہر اندھیری رات میں روشنی مل جاتی تھی ،وہ میرے لیے ایک پنا ہ گاہ تھے جہاں ہر طوفا ن میں مجھے پناہ مل جا تی تھی وہ میرے لیے ایک کشتی نو ح تھے جو ہمیں ہر سیلاب بلا سے بچا لیتی تھی۔‘نہ ہو سکنے ’ کا لفظ ان کی لغت میں نہ تھا او رنہ ہی انہوں نے ہم کو سکھایا۔ نامساعد حالات کے باوجود آگے بڑھتے رہنے کی روایت ان کے قبائلی خون کا حصہ تھی اور یہی روایت انہوں نے ہم کو منتقل کی۔ کامیابی بالآخر ان کا مقدر ٹھہرتی تھی اور ناکامیوں کو ان کی سعی مسلسل کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑتے تھے۔

            جب میں کوئٹہ کے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے منصوبہ بنا رہی تھی تو انہوں نے بغیر کسی توقف کے میرے ہاتھ میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کے فارم تھما دیے اور کہا یہاں اپلائی کروکیونکہ یہ ادارہ تمہاری صلاحیت سے مطابقت رکھتا ہے ۔مجھے یہ گمان بھی نہ تھا کہ وہ مجھے کوئٹہ سے اتنی دور بھیج دیں گے کیونکہ میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی اور وہ مجھے کبھی ‘لاڈلی’ اور کبھی ‘گلابی’ کہا کرتے تھے۔انہوں نے کہا بیٹا کچھ بھی قربانی کیے بغیر نہیں ملتا۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے انہوں نے کہا‘ میری طرف دیکھو، مجھے کامیابی کی شاہراہ تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ پیچھے چھوڑ دینا پڑا۔ اسی طرح یہ شاہرا ہ تمہارا بھی انتظار کر رہی ہے’۔

            مجھے آج بھی کوئٹہ سے سبی کی بل کھاتی ہوئی سڑک کا وہ سفر یاد ہے جہاں ابو مجھے انٹرویو کے لیے لے جا رہے تھے اور میں سڑک کے دونوں جانب ایستادہ اونچے، بنجر اور کالے پہاڑوں کو دیکھنے میں مگن تھی۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ان پہاڑوں کی اونچائی شاید میرے خیالات سے کم ہے۔اس رات میں نے خواب میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھا ۔میں نے دیکھا کہ یہ پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں اور روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھرتے ہیں اور لوگ ہیں کہ قبروں سے نکل کر بھاگے چلے جارہے ہیں۔یوم یکون الناس کالفراش المبثوث ۔ و تکو ن الجبال کالعھن المنفوش ۔۔۔

            مجھے اپنے گاؤں والوں کی وہ سخت مخالفت بھی یاد ہے جب انہوں نے یہ سنا کہ مجھے والد صاحب لاہور بھیج رہے ہیں۔میرے والد ان کے اور میرے مابین ایک سیسے اور لوہے کی دیوار کی مانند کھڑے تھے اس لیے روایت پرست لوگوں کی رسائی مجھ تک نہ ہو سکتی تھی۔میرے کانوں میں ان کے یہ الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں ۔ وہ کہہ رہے تھے‘‘ اگر میں اپنے بیٹے کو سات سمندر پار رائل نیوی میں تربیت پانے کے لیے بھیج سکتا ہوں تو اپنی بیٹی کو کیا محض اس لیے نہ بھیجوں کہ وہ صنف نازک سے تعلق رکھتی ہے حالانکہ اس میں اس کی استعداد اور صلاحیت ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔وہ کہہ رہے تھے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کے مابین ایسا امتیاز میرے اصولوں کے خلاف ہے ۔’’البتہ مجھے ان کی روشن پیشانی پہ ابھر ی فکر کی ایک لکیر آج بھی یا د ہے جب کہ وہ مجھے کوئٹہ ائیر پورٹ پر لاہور کے لیے الوداع کہہ رہے تھے ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ‘‘ بیٹا ، اگر کوئی تمہیں ہاسٹل میں یہ پیغام بھیجے کہ تمہارا والد باہر تمہارا انتظار کر رہا ہے تو کبھی باہر نہ آنا جب تک کہ میں خود ظاہر نہ ہو جاؤں۔’’ مجھے معلوم تھا کہ اس ہدایت کا پس منظر کیا تھا اور ان کی پیشانی پہ پریشانی کی ابھر ی لکیر کا مطلب کیا تھا۔ان کے ذہن میں قبیلے والوں کی مخالفت گھوم رہی تھی اور میرے بہت سارے کزنوں کی تصویر جن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ان میں کسی سے ‘گلابی’ کو بیا ہ دیں اور تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیں۔لوگ کہہ رہے تھے ،چاچا، یقین کرو ایک بار گلابی گھر سے باہر نکل گئی تو وہ بھی گمراہی کی اسی زنجیر کی ایک کڑی بن جائے گی جس کاحصہ بنناگھروں سے دور رہنے والی لڑکیوں کا مقدر ہوتا ہے۔اور پھر لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ‘ گلابی ’ سال بعد چھٹیوں میں گاؤں واپس آئی تو وہ بڑی چادر میں لپٹی ہوئی تھی او راس نے حجاب کر رکھا تھا۔لوگوں کے لیے یہ ایک اچنبھے کی بات تھی کہ کانونٹ میں پڑھنے والی لڑکی اور ایک ماڈرن ماں کی بیٹی ہونے کے ناطے اس میں یہ تبدیلی کیسے آگئی۔ اگرچہ بعد کے دنوں میں میری ماں مجھے یہ بتایا کرتی تھی کہ تم بچپن ہی سے یہ ضد کیا کرتی تھیں کہ مجھے ایک بڑا دوپٹہ لے کر دو اور جب بلوغت کی سرحدوں کو پہنچی تھی تو تم نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب ہاف سلیو شرٹس نہیں چلیں گی۔بعد میں فاطمہ جناح کالج میں میرا جمعیت کی لڑکیوں سے تعارف ہو گیا اور میں ا ن کے ساتھ ان کے دروس میں شرکت کرنے لگی۔میں اس گروپ سے بہت متاثر ہوئی اور میں نے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ جمیعت کا کورس بھی پورا کیا۔مجھے یاد ہے کہ جب میری والدہ میری اس واضح تبدیلی کے بار ے میں میرے والد صاحب سے بات کرتیں اور ان سے کہا کرتیں ‘‘ لگتا ہے ، مودودی صاحب نے برین واش کر دیا ہے’ ’ تو والد صاحب یہ کہہ کر چپ ہو جاتے ، ‘‘جب تک یہ دین کے راستے پر چل رہی ہے فکر کی کوئی بات نہیں’’۔

            جب ہم بہنوں کی شادی کی بات ہوئی تو اپنے اصولوں کے عین مطابق والد صاحب نے ذات برادری کے تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر میرٹ پر فیصلہ کیا او ر کسی کی ایک نہ سنی۔

            زندگی کی آخری ساعتوں میں بھی وہ میرٹ کے اپنے اصول پر قائم رہے ۔ قبائلی سسٹم میں یہ رواج ہے کہ سردار یا اس کے بیٹوں کو اس کے علاقے میں ہی دفن کیا جاتا ہے ۔ والد صاحب کی آخری بیماری میں یہ بات بھی زیر بحث آئی۔اور انہوں نے میرے ایک کزن سے جو، ان کی عیادت کے لیے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ لاہور آئے تھے اور قبیلے کے موجودہ سردارہیں، کہا ،کہ ان کی تدفین کا بندوبست ان کی ماں کی قبر کے قریب گاؤں میں کرنا۔لیکن جب میری بہن نے یہ درخواست کی کہ ابا جان ہم چاہتی ہیں کہ آپ بعدا زمرگ بھی ہمارے قریب رہیں، اس لیے ہم چاہتی ہیں کہ آپ کو گارڈ ن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے تو انہوں نے مسکرا کر کہا ، ‘‘یہ بھی ٹھیک ہے ۔ گارڈن ٹاؤن کا قبرستان بھی ہر ا بھرا ہے یہاں بھی ٹھیک رہے گا’’۔اور بالآخر وہ دور جدید کے دو اہم دینی اداروں الھدیٰ اور المورد کے درمیان خاک نشین ہو گئے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ انہی دونوں اداروں سے ان کی بیٹیاں وابستہ ہیں۔

تا ہم بعد میں میری والدہ نے مجھے یاد دلایا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ دین کاکام کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ خود کو کسی نام سے وابستہ کیا جائے بس یہ کام تو اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے اگرچہ ہمارا یہ نقطہ نظر تھا کہ کسی جماعت یا تنظیم سے وابستگی دین کے کام میں آگے بڑھنے کے لیے ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے او ر جماعت کے اراکین ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ اس طرح بعض اوقات ناموں سے وابستگی کا تعصب دین کے کام پر حاوی ہوجاتا ہے اور جماعت یا تنظیم کی رضا پہلے نمبر پر آ جاتی ہے اور اللہ کی رضا دوسرے نمبر پر، جو ان کے نزدیک ایک جرم عظیم تھا۔

            اس موقع پر اگر میں اپنی والدہ کا ذکر نہ کروں تو یہ زیادتی ہو گی۔وہ میرے والد کی حمایت میں ہمیشہ ایک چٹان کی طرح مضبوط سہارا بنی رہیں اورزندگی کے سفر میں انہیں ہمیشہ پھولوں کی لطافت اور کلیوں کا تبسم پیش کرتی رہیں ۔ انہوں نے خاندان کی ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ اپنا آرام اور سکون قربان کیے رکھا۔ بلکہ بعض اوقات تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ والد صاحب زندگی کی کٹھن راہوں میں کبھی پٹڑی سے اترنے بھی لگتے تو والدہ انہیں محبت سے واپس لے آتیں۔اور یہ حقیقت ہمارے گھر میں بھی ثابت ہوکر رہی کہ ہر کامیاب مر د کے پیچھے ایک نہ ایک عور ت ضرور ہوتی ہے۔

            دعا ہے کہ اللہ کریم میری والدہ کو بھی ان کی قربانیوں کاصلہ عنایت کرے اور والد صاحب کو بھی اپنی بے پایاں رحمت میں ڈھانپ لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں ابراہیمی صفت پیدا کر سکیں اور توحید کے بارے میں اتنے ہی حساس ہو کر زندگی گزار سکیں جیسے میرے والدصاحب تھے۔ آمین