جنوب مشرقی ایشیا میں ویتنام کا ایک ہمسایہ ملک کمپوچیا بھی ہے۔ جب کمپوچیا بھی امریکہ کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کے نتیجے میں ویتنام کی جنگ کا ایندھن بن گیا تو وہاں کھیمروج نامی ایک گروہ نے امریکہ کی کٹھ پتلی مقامی حکومتوں کے خلاف خود کو عوام دوست اور ماؤ نواز مارکسسٹ نظریے کا علمبردار ظاہر کرکے جنگ زدہ آبادی کی ہمدردیاں سمیٹیں۔ کھیم روج نے انیس سو پچھہتر میں مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ملک پر قبضہ کرلیا۔ کھیم روج نے اعلان کیا کہ وہ ہر طرح کے استحصال سے پاک ایک نیا سماجی ڈھانچہ تعمیر کریں گے۔چنانچہ کیلنڈر کو زیرو سے شروع کیاگیا۔ روایتی ناموں کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی مثلاً پارٹی لیڈر پال پوٹ کا نام بھائی نمبر ایک اور ان کے نائبین کے نام بھائی نمبر دو ، تین ، چار وغیرہ رکھے گئے تاکہ نام و نسب سے جڑے تفاخر کا خاتمہ ہوسکے۔ سکولوں، ہسپتالوں، فیکٹریوں، بینکوں ، کرنسی اور مذہب کو سرمایہ دارانہ لعنتیں کہہ کر حرام قرار دے دیا گیا۔ نجی ملکیت جڑ سے اکھاڑ دی گئی۔ طبقاتی اونچ نیچ کے خاتمے کے لیے شہروں کو خالی کرا کر ان کے لاکھوں باسیوں کو دیہاتوں کی جانب اجتماعی کھیتوں میں خوراک پیدا کرنے کے لیے دھکیل دیا گیا۔ ٹیلی فون اور پوسٹل سروس ختم کردی گئی تاکہ لوگ ایک دوسرے سے رابطہ نہ کرسکیں۔ پانچ برس میں کمپوچیا میں لگ بھگ پندرہ لاکھ لوگ تشدد اور بھوک سے مرگئے۔ لاکھوں سرحد پار تھائی لینڈ اور ویتنام چلے گئے۔ انیس سو اناسی میں ویتنامی افواج نے ان کھیم روجوں سے کمپوچیا کی جان چھڑوائی اور ان کی جگہ ایک اعتدال پسند کیمونسٹ حکومت قائم کردی۔
جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں انیس سو ساٹھ کے اواخر میں فلسفے کے ایک پروفیسر ابی میل گزمان نے پیرو کی کیمونسٹ پارٹی سمیت دنیا کی تمام سوشلسٹ تحریکوں کو بدعتی قرار دیتے ہوئے شائیننگ پاتھ نامی دھڑا قائم کیا۔ اعلان ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت کی جگہ صرف شائننگ پاتھ ہی خالص عالمی کیمونسٹ انقلاب لا سکتی ہے۔ ابتدا میں پروفیسر گزمان نے پیرو کے بدعنوان حکومتی ڈھانچے سے تنگ آئے ہوئے کسانوں اور طلبا کی جانب توجہ کی۔ دیہی علاقوں میں فوری انصاف کی عدالتیں قائم کرتے ہوئے بدعنوان افسروں اور منافع خور تاجروں کو سزائیں سنانا شروع کیں جن میں ملزموں کے گلے کاٹنا، گلا گھونٹ کر مارنا ، سنگسار کرنا اور زندہ جلا دینا شامل تھا۔ مجرموں کو کھمبوں سے لٹکا کر یہ حکم بھی دیا جاتا کہ لوگ ان لاشوں کو بلا اجازت نہ دفنائیں۔ مخلوط پارٹیوں اور شراب نوشی پر پابندی لگا دی گئی۔ حکومت نے شروع میں اس تحریک کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور یہ سمجھا کہ ان عناصر پر پولیس کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن جب شائیننگ پاتھ نے دارالحکومت لیما میں بجلی گھروں، کارخانوں، سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز اور فوجی بارکوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو حکومت کو احساس ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ حکومت نواز کسانوں کو مسلح کرکے ان کے لشکر بنائے گئے۔ فوج نے قاتل دستوں کی مدد سے گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کردیے۔ شائیننگ پاتھ نے جواباً کسانوں اور اپنے مخالف بائیں بازو والوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔انیس سو اکیانوے تک بیشتر دیہی علاقہ شائننگ پاتھ کی گرفت میں آچکا تھا کہ انیس سو بانوے میں حکومت پروفیسر ابی میل گزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد شائیننگ پاتھ کا زور ٹوٹتا چلا گیا اور وہ متعدد دھڑوں میں بکھر گئی لیکن بکھرنے سے پہلے بیس برس کے دوران ستر ہزار افراد شائیننگ پاتھ اور سرکاری دستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے تھے۔
انیس سو انہتر میں اسرائیل میں ایک امریکی ربی مائیر کہان نے کش کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد تمام فلسطینیوں کو اسرائیل، غربِ اردن اور غزہ سے باہر دھکیل کر عظیم تر اسرائیل قائم کرنا تھا۔ مائیر کہان نے ان اسرائیلی سیاستدانوں اور لوگوں کو بھی یہود دشمن قرار دے دیا جو عظیم تر اسرائیل کے مقصد پر عربوں سے کوئی سودے بازی کریں۔ انیس سو نوے میں مائر کہان کو نیویارک میں قتل کردیا گیا لیکن اس تحریک کے بطن سے مقبوضہ علاقوں کے آباد کاروں میں کہان چائے، گدود ہیوری اور ریواوا جیسے شدت پسند دھڑے پیدا ہوگئے جنہوں نے عربوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنایا۔ انیس سو چورانوے میں ہیبرون کی مسجدِ ابراہیم میں انتیس فلسطینوں کو قتل کرنے والا بروش گولڈ شٹین اور انیس سو پچانوے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کو قتل کرنے والا طالبِ علم ایگال عامر اسی طرح کے گروہوں کی پیداوار تھے جبکہ حالیہ انتخابات میں پندرہ پارلیمانی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت یسرائیل بیتنو کے نظریاتی ڈانڈے بھی اسی انتہا پسندی سے جا کر ملتے ہیں۔
بھارتی ریاست کرناٹک میں بجرنگ دل کے جوشیلوں نے ایک پندرہ سالہ ہندو لڑکی کو بس میں ایک مسلمان لڑکے کے برابر بیٹھنے پر اتنا رسوا کیا کہ اس نے چند روز پہلے خودکشی کرلی۔ رام سینا، بجرنگ دل اور شیو سینا کے رضاکار ان دنوں پونا، کانپور اور منگلور وغیرہ میں جینز پوش لڑکیوں کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کسی مخصوص علاقے میں کسی خاص مذہبی تحریک کا نہیں بلکہ ایک ذہنیت کا نام ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں کبھی بھی کسی نام سے بھی سر اٹھا سکتی ہے۔طالبان کوختم کرنا ہوتو تشدد نہیں بلکہ اس ذہن کاحل تعلیم سے کرنا ہوگا۔