یہ ربیع الاول کا مہینا ہے۔ اس مہینے میں وہ ہستی عالم وجود میں آئی جسے خود عالم کے پروردگار نے رحمۃ للعٰلمین قرار دیا۔ جس کی پوشاک اور جس کی ران پر ابن مریم نے دیکھا کہ اس کا ایک نام لکھا ہوا ہے: خداوندوں کا خداوند اور بادشاہوں کا بادشاہ؛ وہ جو قیامت تک کے لیے سرور عالم ہے؛ جس کا قلم رو زمین کے سارے کناروں تک پھیلا ہوا ہے؛ جسے جوامع الکلم عطا ہوئے؛ جس کے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی؛ جس کی ہیبت سے کفر لرزہ براندام ہوا؛ جسے میزان عطا ہوئی اور اس کے ساتھ لوہا بھی کہ وہ اس کے ذریعے سے لوگوں پر خدا کی حجت ہر لحاظ سے پوری کر دے ؛ جس پر نبوت ختم ہوئی ؛ قرآن نازل ہوا اور جس کے بارے میں یہ فیصلہ لوح گیتی پر ثبت کر دیا گیا کہ صبح نشور تک اب خدا کی غیر متبدل ہدایت اس کی لائی ہوئی کتاب کے سوا کسی اور جگہ سے نہیں مل سکتی۔
وہ ہستی اسی مہینے میں منصہ عالم پر جلوہ فرما ہوئی ۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی نسبت سے یہ مہینا رشک دہر ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس کا ایک ایک لمحہ جشن مسرت میں بسر ہو، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ صدیق و فاروق، عثمان و حیدر اور بلال و بوذر نے، جن کی اس ہستی سے محبت و عقیدت کا سرمایہ ہی ان کا اثاث البیت تھا، نہ اس ماہ کو ‘‘ماہ جشن’’ بنایا اور نہ اس دن کو ‘‘عید میلاد’’ قرار دیا جس کی صبح درخشاں میں یہ دعاے خلیل اور نوید مسیحا پہلوئے آمنہ سے ہویدا ہوئی۔ وہ اس دنیا میں تھے تو یہ دن بارہا طلوع ہوا اور یہ مہینا بارہا آیا، مگر ان کے شب و روز کا دریا اپنے راستے پر بہتا رہا۔ آسمان کی آنکھوں نے لمحہ بھر کے لیے بھی اس میں کوئی تموج نہیں دیکھا۔ یا للعجب، یہ ماجرا کیا ہے؟
‘یوم اقبال’، ‘یوم جناح’ اس ہستی کے مقابلے میں یہ لوگ ہی کیا تھے، لیکن ان کے مداح اگر ان کے یوم پیدایش پر یہ اہتمام کرسکتے ہیں تو اس داناے سبل، ختم الرسل، مولاے کل کے لیے کیوں نہیں، جس نے:غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا۔
میں برسوں اس خلجان میں مبتلا رہا، مگر للہ الحمد کہ بالآخر یہ عقدہ حل ہوا۔ حقیقت نمایاں ہوئی تو یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ ہمارے فکر کی ساری نارسائیاں درحقیقت ہمارے زاویۂ نگاہ ہی سے پیدا ہوتی ہیں:
بر چہرۂ حقیقت اگر ماند پردۂ
جرم نگاہ دیدۂ صورت پرست ماست
بات دراصل یہ ہوئی کہ ہم نے اسے سب سے بڑا تو مانا، مگر انھی شخصیتوں کے زمرے سے مانا جن سے ہم مانوس تھے اور وہ اس زمرے کا شخص ہی نہ تھا۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس زمین پر سارے دن اس کے تھے، مگر ہمارے لیے وہ ایک خاص دن میں پیدا ہوا؛ وہ ہر مہینے کا ماہ تاباں تھا، مگر ہم نے اسے جب دیکھا، ربیع الاول ہی کے مطلع پر دیکھا؛ تقویم خداوندی میں ہر سال اسی کے نام سے معنون تھا، مگر ہماری تقویم میں اس کا یوم ولادت ۵۷۰ بعد مسیح ہوا: جرم نگاہ دیدۂ صورت پرست ماست۔
ہم نے چاہا کہ ہم سمندر کو کنوئیں میں بند کریں، صحرا کو صحن میں اتاریں اور آسمان کو ردا بنائیں، لیکن وہ جو اس کے ساتھی تھے ــــــصدیق و فاروق، عثمان و حیدر،بلال و بوذر ـــــ انھوں نے سمندر کو سمندر ، صحرا کو صحرا اور آسمان کو آسمان دیکھا، تب ان پر واضح ہوا کہ وہ جس کی یاد کی شمعیں ہر دل میں فروزاں رہنی چاہییں اور جس کا نام جب دن پہلو بدلے ، ہر مسجد کے مناروں سے بلند ہونا چاہیے، یہ اس کی شان سے فروتر ہے کہ اسے ایک یوم میلاد اور ایک ماہ ربیع الاوّل کی شخصیت بنایا جائے۔ وہ عزیز ازجاں اور عزیزجہاں ایک دن اور ایک مہینے کی شخصیت نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہر دن، ہر مہینے اور ہر سال کی شخصیت ہے، اس لیے نہ ‘‘عید میلاد النبی’’ نہ ‘‘جشن ربیع الاوّل’’ ، بلکہ صبح دم، دن ڈھلے، لدلوک الشمس الی غسق اللیل، ایک ہی صدا اور ایک ہی نغمہ: اشہد ان لاالٰہ الّا اللّٰہ، اشہد ان محمدًا رسول اللّٰہ.
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لاالٰہ الا اللہ
(بشکریہ ،ماہنامہ اشراق لاہور، مئی، 2005ء)