لاہور کے علاقے گلبرگ میں کتابوں کی ایک دکان پر آج کل سائنس کے طالب علموں اور پروفیسروں کی غیر معمولی بھیڑ ہے کیونکہ یہاں آئین سٹائین کے مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کا اصل مسودہ تصویری شکل میں موجود ہے۔ بڑی تقطیع کی یہ رجسٹر نما کتاب اتنی مہنگی ہے کہ کوئی طالب علم یا استاد ذاتی طور پر اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لائبریریوں کے منتظمین شاید اس کتاب کی اہمیت و افادیت ہی سے واقف نہیں ہیں اس لئے توقع ہے کہ عرصہ دراز تک یہ کتاب شائقین کی زیارت کیلئے اس دکان میں موجود رہے گی۔
۱۹۰۵ کی تھیوری کا یہ مسودہ آئن سٹائین کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور جرمن زبان میں ہے، لیکن ہر صفحے کے مقابل اسکا انگریزی ترجمہ بھی پرنٹ کر دیا گیا ہے۔ آئین سٹائین نے عبارت کے جِن حِصوں پر بعد میں قلم پھیر دیا تھا اْن پر خطِ تنسیخ اس طرح سے پھیرا گیا ہے کہ اصل عبارت صاف پڑھی جاسکے اور محققین اندازہ کر سکیں کہ عظیم ماہرِ طبیعات نے اپنے کِن بیانات کو بعد میں مسترد کر دیا تھا یا اْن میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی تھی۔
ایک سو تین برس کے بعد اچانک اِس تھیوری میں لوگوں کی دلچسپی پھر سے کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ یہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ آئین سٹائین نے ایک صدی پہلے اپنا اضافیت کا نظریہ محض ایک الہام کے طور پیش کیا تھا جس کے درست ہونے کا اسے سو فیصد یقین تھا۔ تاہم حسابی طور پر اس نظریے کو ثابت کرنا پوری ایک صدی تک ماہرینِ طبیعات و ریاضی کیلئے ایک چیلنج بنا رہا۔ اب فرانس، جرمنی اور ہنگری کے ماہرینِ طبیعات نے انتہائی عرق ریزی سے دنیا کے بہترین سْپر کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ایٹم کے تابع ذرّات یعنی نیوٹرون اور پروٹون کی کمیت دریافت کی ہے۔ یہ تابع ذرات خود بھی چھوٹے چھوٹے ذرات کا مجموعہ ہوتے ہیں جو کہ کوارک کہلاتے ہیں اور جو شے اِن ذرات کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے اْسے گْلواون کا نام دیا گیا ہے۔آزمائش کے جدید آلات کے ذریعے پہلی بار ممکن ہوا ہے کہ ان تابع ذرات کی کمیت معلوم کی جاسکے اور ایسا کرنے پر یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایٹم میں کوارک ذرات کی کمیت محض پانچ فیصد ہوتی ہے جب کہ انھیں باندھ کے رکھنے والے گْلو اون کی کمیت صفر ہوتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ پچانوے فیصد کمیت کہاں گئی؟
فرانس ، جرمنی اور ہنگری کے ماہرین طبیعات نے جمعرات ۲۰ نومبر ۲۰۰۸ کو جو بیا ن جاری کیا ہے اس کی رو سے تابع ذرات کا۹۵ فیصد مادہ اس توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے جو ان ذرات کی باہمی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح آئین سٹائین کا وہ اندازہ پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے جو اس نے ۱۹۰۵ میں لگایا تھااور جس کی روسے مادہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کی دو صورتیں ہیں جو کہ ایک دوسری میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ آئین سٹائین کی معروف مساوات
E=mc2
کا مفہوم سادہ لفظوں میں یہی ہے کہ مادہ تبدیل ہو کر توانائی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور توانائی اپنا روپ بدل کر مادہ بن سکتی ہے۔ایٹم بم کی ساخت کے پیچھے یہی نظریہ کافرما تھا کہ مادے میں قید توانائی کو کسی طرح آزاد کردیا جائے تو وہ تباہی مچا دیگی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اولین ایٹمی دھماکے سے بہت پہلے علامہ اقبال نے بھی الہام کے زور پہ کہہ دیا تھا کہ:
حقیقت ایک ہے ہرشے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا نکلے، اگر ذرّے کا دِل چیریں !
فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق نے
جو بیان جاری کیا ہے اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماہرینِ طبیعات نہ صرف ذرّے کا دِل چیرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ نئے آلاتِ پیمائش کی مدد سے انھوں نے آئین سٹائین کے سو برس پرانے اس مفروضے پر بھی مہرِ توثیق ثبت کردی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں ڈھل سکتے ہیں اور زمان و مکان بھی ایک ہی حقیقت کے دو رْخ ہیں۔