مفلس زندگی اب نہ سمجھے کوئی مجھ کو عشق نبی اس قدر مل گیا
جگمگائے نہ کیوں میرا عکس دروں ، ایک پتھر کو آئینہ گر مل گیا
جس کی رحمت سے تقدیر انساں کھلے ، اس کی جانب ہی دروازہ ء جاں کھلے
جانے عمر رواں لے کے جاتی کہاں ، خیر سے مجھ کو خیرالبشر مل گیا
محور دو جہاں ذات سرکار کی ، اور میری حیثیت ایک پرکار کی
اس کی اک رہ گزر طے نہ ہو عمر بھر ، قبلہ آرزو تو مگر مل گیا
اس کا دیوانہ ہوں اس کا مجذوب ہوں ، کیا یہ کم ہے کہ میں اس سے منسوب ہوں
سرحد حشر تک جاؤں گا بے دھڑک ، مجھ کو اتنا تو زاد سفر مل گیا
جس طرف سے بھی گزریں میری خواہشیں ، مجھ سے بچ کر نکلتی رہیں لغزشیں
جب جھکائی نظر جھک گیا میرا سر ، نقش پا اس کا ہر موڑ پر مل گیا
ذہن بے رنگ تھا سانس بے روپ تھی ، روح پر معصیت کی کڑی دھوپ تھی
اس کی چشم غنی رونق جاں بنی ، چھاؤں جس کی گھنی وہ شجر مل گیا
جب سے مجھ پر ہوا مصطفے کا کرم ، بن گیا دل مظفر چراغ حرم
زندگی پھر رہی تھی بھٹکتی ہوئی ، میری خانہ بدوشی کو گھر مل گیا