دین اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔ پیغمبر اسلام کا لایا ہوا انقلاب ایک ہمہ جہتی اور ہمہ گیر انقلا تھا۔ توحید الٰہی کے اقرار سے لے کر راستے سے رکاوٹ دور کرنے تک اور شاہانہ فرامین کے اجرا سے لے کر والدین کو اف نہ کہنے تک، سبھی باتیں اس کے دائرۂ کار میں آئیں۔ آئندہ سطور میں سہولت کی خاطر اس انقلاب کی ہیئت اور صورت کو چند عنوانات کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔
مذہبی انقلاب
سارا عرب شرک و بت پرستی کی لعنت میں گرفتار تھا۔ ہر شخص اور ہر قبیلے کا گویا ایک الگ معبود تھا۔ یہاں تک کہ خانہ خدا میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ اور یہ توحید پر ستی کی بجائے صنم پرستوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس انقلاب سے نہ صرف بت پرستوں کی دینی پیشوائیت ختم ہو گئی، بلکہ بیت اللہ صحیح معنوں میں خدائے واحد کا گھر بن گیا۔ اور پورا عرب خدائے واحد لاشریک کا پرستار ہو گیا۔ رسولؐ نے انھی سابق بت پرستوں کے ہاتھوں بڑے بڑے بت اور ان کے معبد منہدم کرائے اور اپنی رحلت سے پہلے دین توحید کے علاوہ کسی دوسرے دین کے عرب میں نہ رہنے کی وصیت فرما گئے۔
نئے دین کے پیرو یعنی مومنین اپنے قبیلے اور اس کی کارگزاریوں پر فخر نہیں کرتے تھے۔ بلکہ وہ اخوت کی ایک ہی لڑی میں پرو دیے گئے۔ ان میں آقا و غلام، اعلیٰ و ادنیٰ کی تفریق ختم ہو گئی۔ ان میں فضیلت و کرامت کا معیار خاندانیت یا دنیاوی جاہ و حشمت نہیں بلکہ سبقت فی الاسلام اور اعمال صالح ٹھہرے۔ عربی و عجمی یا اسود احمر کی بجائے تقویٰ ہی وجہ اعزاز رکھا گیا۔ قریش کی پیشوائیت ختم ہو گئی۔ خمس کی انفرادیت معدوم ہو گئی۔ اب تو سب یکساں حقوق و فرائض لے کر اللہ واحد کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔ دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھا گیا۔ اور زندگی کا دائرہ موت سے پرے اور قیامت اور پھر جنت و جہنم کی جزا و سزا تک وسیع ہو گیا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر امت مسلمہ کا شعار بن گیا۔ یہ امت وسطی ٹھہری جو لوگوں پر شاہد بنا دی گئی۔ ہر مسلمان مبلغ بن گیا۔ اور رسولؐ کے اس فرمان پر عمل کرنا اس کا فرض تھا کہ ‘بلغوا عن ولو ایۃ’ میری طرف سے دوسروں تک پہنچاؤ خواہ ایک ہی جملہ ہو۔
یہودی و نصاریٰ جو پہلے عربوں کی نظر میں صاحب علم تھے۔ اب جہالت و گمراہی اور کج روی و بے راہ روی کے علم بردار نظر آنے لگے۔ ان کی تاریخ ماضی بھی اب مسلمانوں پر آشکارا ہو گئی۔ اور ان کے اصل دین اور ان کی ایجاد کردہ باتوں میں بھی امتیاز ہو گیا۔ آتش پرستی اور ستارہ پرستی کی قلعی کھل گئی۔ ان مظاہر قدرت کی بے بسی اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا تصور ابھرا۔ اس طرح جو صدیوں سے معبود بنے ہوئے تھے، وہ بے بس و ناچیز ثابت ہوئے۔ جو مخدوم تھے، اب خدمت کرنے لگے۔ لوٹ مار اور غارت گری کا پیشہ ختم ہو گیا۔ اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے یہی ضائع ہونے والی قوت استعمال ہونے لگی۔ جہاد فرض ہوا۔ اور اس کا ترک کرنا ذلت کا موجب ٹھہرا۔ منافقین سے برتاؤ کے ضابطے تیار ہو گئے۔ پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی۔ اور دائمی انقلاب نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ مال کا ایک مخصوص حصہ ادا کرنا اس کی پاکیزگی کا موجب بنا۔ لوٹ مار کر کے دوسروں کے مال ہتھیانے کی بجائے اللہ کی راہ میں لڑ کر حاصل کیا ہوا مال تقسیم کرنے کے لیے بھی قواعد بنائے گئے۔ اور کسی شخص کے لیے تقسیم سے پہلے بلا اجازت ایک سوئی لینا بھی جرم و گناہ ٹھہرا۔ الغرض پورا عرب دین الٰہی کا داعی اور باقی دنیا مدعو بن گئی۔ بڑی طاقتوں کی مرعوبیت ختم ہو گئی۔ اور اللہ تعالیٰ کی امداد و نصرت پر بھروسا کر کے اور خشیت الٰہی کا اسلحہ لے کر ان کے مقابلے میں بڑھنے لگے۔
سیاسی انقلاب
انقلاب محمدی میدان سیاست میں بھی ہمہ جہتی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ قبائل میں بٹا ہوا ملک ایک متحد قوم کی صورت میں سامنے آیا۔ افراد قوم کے دلوں کو اللہ نے جوڑ دیا۔ اور وہ ایک رشتہ اخوت میں بندھ گئے۔ قبائلی فخر و مباہات اور خانہ جنگیاں قصۂ پارینہ ہوئیں۔ شیرازہ عرب کے اجزاء جو عمان، بحرین، حضرت موت، یمن، ایلہ، دومہ، اور حجاز کی صورت میں چاروں طرف بکھرے ہوئے نظر آتے تھے، ایک ہی مسلک میں پرو دیے گئے۔
اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولو الامر کی اطاعت کا تصور ابھرا اور جماعت سے الگ ہونے والا جاہلیت کا شکار سمجھا جاتا تھا۔ اسلام قبول کرنے والوں کو برابر کے حقوق ملتے۔ جزیہ دینے والے اسلامی ریاست کے ذمی بن جاتے جو انھیں معمولی ٹیکس کے عوض جان و مال کی حفاظت کی ضمانت پر مہیا کرتی۔ ان دونوں شرائط کو قبول نہ کرنے والے سے اعلان جنگ کیا جاتا۔ اطاعت گزاروں کو ان کی دل پسند شرائط پر مبنی معاہدات لکھ کر دیے جاتے اور ان کی بڑی شدت سے پابندی کی جاتی۔ غداروں اور باغیوں کے لیے موت سے کم کوئی سزا نہ تھی۔ بیرونی ممالک کے حکمرانوں اور رعایا کو بھی دینی دعوت دی گئی۔ اس ضمن میں حکمرانوں کو دین اللہ قبول نہ کرنے کی صورت میں رعایا کے وبال کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا۔ فتوحات کا آغاز ہوا اور مفتوحہ علاقوں کے انتظامات کا ڈول ڈالا گیا۔
جہاد فرض ہوا، اعلائے کلمۃ الحق کے لیے نکلنا ہر جواں سال مسلمان کے لیے ضروری ہو گیا۔ مسلمانوں کے دو گروہوں کی باہمی لڑائی کی صورت میں صلح کرانا کار خیر بنا اور باغی کی مخالفت کا حکم ہوا۔ جنگی قانون بنائے گئے۔ میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا گناہ تھا۔ مال غنیمت کی تقسیم کے اصول و ضوابط بنے۔ بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے منع کر دیا گیا۔ فوج کشی کے دوران غارت گری و جانوروں و درختوں اور بے قصور انسانوں کا ضیاع ممنوع قرار پایا۔ اسیران جنگ سے حسن سلوک کا درس دیا گیا۔ انھیں فدیہ لے کر یا مناسب ہو تو احسان کر کے چھوڑ دیا جاتا۔ اسلامی ریاست کے زیر نگیں علاقوں کا مناسب انتظام کیا گیا۔ ہر علاقے میں تبلیغ و دعوت، زکوٰۃ و صدقات اور اقامت صلوٰۃ کے لیے الگ الگ افسران مقرر تھے۔ جو اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر کام کرتے۔
معاشی انقلاب
جاہلی عرب میں لوٹ مار کو ایک پیشہ اور سود خوری کو تجارت کے ہم معنی خیال کیا جاتا تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو حرام قرار دیا۔ چوری کے لیے ہاتھ کاٹنے کی حد مقرر کر دی گئی۔ اور لٹیروں اور مفسدوں کے لیے سنگین ترین سزا یعنی مخالف ہاتھ پاؤں کاٹ کر بالآخر جان سے مار ڈالنا مقرر ہوا۔ تجارت کو حلال قرار دیا گیا۔ ماضی کے سود ختم کر دیے گئے۔ اور اس سلسلے میں سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کا سود ختم کیا۔ تجارت میں شراکت کے قواعد و ضوابط وضع کیے گئے۔ خرید و فروخت کے آداب مقرر ہوئے۔ زراعت و باغبانی کو بھی پابند قواعد بنایا گیا۔ بٹائی کے قوانین جاری ہوئے۔ عشری اور خراجی زمینوں کے الگ الگ ضابطے مقرر کیے گئے۔ اور اس سلسلے میں کسانوں سے نرمی کا برتاؤ ملحوظ رکھا جاتا۔ کم تولنا اور ناپنا گناہ کبیرہ ٹھہرے۔ راشی و مرتشی دونوں کا ٹھکانا جہنم ہوا۔ غلط بیانی اور چرب زبانی سے عدالت سے ناحق کوئی چیز لے لے وہ اخروی سزا کا مستوجب ٹھہرا۔
ہاتھ کی کمائی کو اعمال صالحہ میں بڑا مرتبہ دیا گیا۔ محنت کرنے والے کو اللہ کا دوست کہا گیا۔ یہ ارشاد ہوا کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے۔ زکوٰۃطہارت مال کا ذریعہ بنی۔ مال و دولت کو اللہ کی ملکیت قرار دیا گیا جسے وہ مختلف ہاتھوں میں دیے رکھتا ہے۔ اسے اغنیاء تک محدود رکھنا اور جمع کر کے گنتے رہنا گناہ شمار ہوا۔ محتاجوں، مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کے کام آنا کار ثواب اور حصول جنت کا ذریعہ بن گیا۔ غلام آزاد ہونے لگے، مسلمان اب ان کی شادیوں کا اہتمام کرنے لگے۔ کئی گناہوں کے کفارے میں انھیں حریت سے نوازا جاتا۔ ہدیہ و صدقہ کے اصول بنے۔ قتل عمد، قتل خطا اور ضربات کے لیے قصاص و دیت مقرر کر دیے گئے۔ وراثت کے قانون بنائے، وصیت کا دائرۂ کار متعین کیا گیا اور اس سلسلے میں جاہلی تضادات کو ختم کر دیا گیا۔
معاشرتی انقلاب
اس انقلاب نے قبائلی معاشرت کے تصور کو گہنا دیا۔ اب قبیلہ فخر و مباہات کا ذریعہ ہونے کی بجائے محض پہچان کا ذریعہ تھا۔ چوری، شراب نوشی اور بہتان طرازی کی سزائیں مقرر کر دی گئیں۔ جھوٹ کو ام الخبائث کہا گیا۔ غیر ضروری گفتگو کرنے والا جھوٹ کی ملاوٹ کرنے والا قرار پایا۔ ارشاد ہوا کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے بیان کر دے۔ صدق کو امانت اور کذب کو خیانت کا نام ملا۔ اب احتیاط کیے بغیر زبان کھولنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ شادی شدہ زانی کو رجم کی سزا ملتی اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جاتے۔ زنا کو فحش اور بری راہ کہا گیا۔ نکاح کے لا تعداد طریقوں کو ختم کر دیا گیا۔ اولاد کے سلسلے میں اس شخص کو حق دار بنایا گیا جس کے بستر پر پیدا ہوئی ہو۔ ستر و حجاب کی حدود مقرر کر دی گئیں۔ آزاد عورت اور لونڈی کی مدد مختلف قرار پائیں تاکہ معاشرتی نظام ابتری کا شکار نہ ہو۔ عورتوں کو مردوں پر اور مردوں کو عورتوں پر حقوق حاصل ہوئے۔ مردوں کو ان پر قوام ٹھہرایا گیا اور عورتوں پر ان کی ذمہ داریوں کی بہتات کی وجہ سے فضیلت دی گئی۔ لیکن وہ ان پر کسی قسم کی زیادتی یا ظلم نہ کر سکتے تھے۔ انھیں خواہ مخواہ معلق نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اپنے حقوق عدالت سے رجوع کر کے بھی حاصل کر سکتی تھیں۔ عورت کو مخصوص حالات میں خلع کی بھی اجازت تھی۔ مردوں کو بیویوں کے مابین عدل و مساوات اختیار کرنے کا حکم ہوا۔ انھیں مرد کے گھر کی حکمران بنایا گیا۔ جرم و سزا کے قوانین مرتب ہوئے۔ دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص قتل کرتا تو اس کی سزا تمام قبیلے میں کسی کو بھی دی جا سکتی تھی۔ دیگر جرائم کی نوعیت بھی کم و بیش یہی تھی۔ اب اندھیر نگری کے طریقے ختم ہو گئے۔ یہاں تک کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ جاہلیت کے تمام قتل اور ان کے بدلے ختم کر دیے۔ اس سلسلے میں بھی اپنے خاندان کے مقتول سے آغاز فرمایا۔ پہلے بے گناہ قتل کے بعد صرف متقول ہوتا تھا۔ اب وہ مظلوم بھی ہو گیا۔ اور ریاست کا فرض تھا کہ اس کے قصاص کا انتظام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مقتول کے ولی کو اپنی سلطان سے نوازا۔ اب پانی پینے پلانے اور گھوڑا بڑھانے پر جھگڑوں کا خاتمہ ہو گیا۔ حلال و حرام میں تمیز پیدا کر دی گئی۔ نجس و پاکیزہ میں فرق کر دیا گیا۔ اکل و شرب کے آداب مقرر ہوئے اور سیر و شکار کے ضابطے وجود میں آئے۔ دختر کشی کی رسم موقوف ہوئی۔ اب تین بیٹیوں کی پرورش کرنے والے باپ کو جنت کا مستحق بنایا گیا۔ تنگ دستی کی وجہ سے قتل اولاد ممنوع ٹھہرا۔ جھوٹ بولنے والا لعنتی گردانا گیا۔ جھوٹ کو منافقت بتایا گیا۔ عیب جوئی اور تجسس سے منع فرمایا گیا۔ حسد کے بارے میں کہا گیا کہ یہ نیکیوں کو کھا جاتا ہے، جیسے آگ خشک لکڑی کو۔ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرنے اور لوگوں سے اچھے انداز میں گفتگو کرنے کا حکم دیا۔ جس مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں، اس کا ایمان نامکمل ٹھہرا۔ مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا گیا۔
مؤدت فی القربی اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی۔ صلہ رحمی حسن معاشرت کی بنیاد ٹھہری۔ ہمسایہ کو بہت سے حقوق دیے گئے۔ ان کی باہمی ذمہ داریاں مقرر ہوئیں۔ اہل خانہ سے نیک سلوک کرنا سکھایا گیا۔ اور اس شخص کو سب سے اچھا انسان کہا گیا جو اپنے اہل خانہ سے اچھا ہو۔ بچوں کی تعلیم و تربیت والدین پر فرض قرار دی گئی۔ والدین سے حسن سلوک کا حکم ہوا۔ انھیں ڈانٹنے اور اف تک کہنے سے منع کر دیا گیا۔ ان کی پرورش اس طرح واجب ہوئی جس طرح انھوں نے اولاد کو بچپن میں پالا تھا۔ غلاموں کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو۔ اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ گویا آقا کے گھر میں اپنی ذات کی حد تک غلام کو اس کے برابر حقوق تھے۔ سوائے اس کہ وہ اس کے ترکہ کا وارث نہ ہوتا تھا۔ شاعری کو جاہلیت میں بڑا مرتبہ حاصل تھا۔ اب شاعری کے وہ تمام انداز جو نئے اور مہذب دین کے شعائر کے خلاف تھے، ممنوع قرار پائے۔ انھیں ہر وادی میں بھٹکنے والے قرار دیا گیا۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے شاعری میں نام پیدا کیا تھا۔ لیکن انھوں نے قبول اسلام کے بعد اسے ترک کر دیا۔ جب ان سے پوچھا جاتا تو کہتے کہ کیا قرآن کے بعد بھی اس کی کوئی گنجائش ہے۔ البتہ مخلص مومنین اور اعمال صالحہ کے مالک لوگ اس میدان میں اتر سکتے تھے۔ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شعروں میں حکمت کا اقرار فرمایا۔ اس طرح انقلاب محمدی نے تمام رذائل اخلاق کی مذمت کی اور مکارم اخلاق کی ترغیب دی۔ معاشرے میں اس شخص کو سب سے اچھا قرار دیا جس کا اخلاق اچھا تھا۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات پر مبنی معاشرہ قائم فرما دیا۔ جرائم ختم ہو گئے۔ جھگڑے اور تنازعے نہ ہونے کے برابر تھے۔ ملک میں لوٹ مار اور غارت گری اور شراب نوشی معدوم ہو کر رہ گئی۔ محفلیں پاکیزہ ہو گئیں۔ لغویات و خواہش مفقود ہو گئے۔ جن کی راتیں بادہ نوشی اور مدہوشی میں بسر ہوتی تھیں، وہ تعلیمات محمدیہ کی بدولت تہجد گزار اور شب زندہ دار بن گئے۔ سردارس و خواجگی کے زعم میں مبتلا عجز و انکسار کے پیکر ہو گئے۔ مفسدین و غارت گر قیام امن کے ضامن بن گئے ۔جل و فریب کے عادی صدق و صفا میں نام پیدا کرنے لگے۔ سود خوران، خون آشام انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ جو کبھی ظالم آقا تھے، وہ نادم و شرمسار بندگان خدا بن گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات کی وجہ سے انسانیت نے اقدار عالیہ کے اوج کمال کو پا لیا۔
محمد زمان چیمہ (لیکچرار گورنمنٹ اسلامیہ کالج، گوجرانوالہ)
٭٭٭