نبی کریمؐ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے، جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے۔ اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے، اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔ اس دین کو ہمارے نبی کریمؐ نے لوگوں کو بتلایا اور سکھایا بھی اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کر دیا۔ اس وجہ سے حضورؐ کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکئ نفوس اور ایک معلم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اس طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبر کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔ میں آج حضورؐ کی زندگی کے اس پہلو سے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اس امر واقعی سے آپ میں سے ہر شخص واقف ہے کہ نبیؐ کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون نے تو ان کو، ان کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ اہل عرب، اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ان پر انارکی کا تسلط رہا۔ پوری قوم جنگجو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہو رہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج، انارکی کے لیے اتنا پختہ ہو چکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امر محال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو ‘قوما لدا’ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا ہے کہ ‘لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الّفت بین قلوبہم’۔
‘‘اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کر لیتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے۔’’
لیکن نبی کریمؐ نے ۲۳ سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیان مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہو گئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسباب نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کر کے دور ہو گئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہو گئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی بالکل ہم آہنگ ہو گئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہو گئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ابھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں، بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلا استثناء دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔
اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیداکرنے میں حضورؐ نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دنیوی مفادات کا کوئی لالچ دیا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضورؐ بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے تو یہ بات آپ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی۔ لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان میں سے ہر چیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہر فتنہ کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔ آپ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، اعلائے کلمۃ اللہ اور خوف آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپ کی مساعی سے دنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا، بلکہ آپ کی کوشش سے ایک بہترین امت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے : ‘کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر’ (تم دنیا کی بہترین امت ہو جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہو)۔
حضورؐ کی سیاست اور حضورؐ کے تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپ جن اصولوں کے داعی بن کر اٹھے اگرچہ وہ، جیسا کہ میں نے عرض کیا، فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے او رانفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ ان کے احاطہ میں آتا تھا، لیکن آپ نے اپنے کسی اصول کے معاملہ میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں فرمائی۔ نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دولت کے مقابل میں۔ آپ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں موم پڑ جاتا، لیکن آپ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملہ میں کبھی کوئی سمجھوتہ کرنا گوارا نہیں فرمایا۔ اس طرح آپ کے سامنے پیشکشیں بھی کی گئیں اور آپ کو مختلف قسم کی دینی اور دنیوی مصلحتیں بھی سوجھانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپ کو آپ کے کسی موقف سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آپ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبروں او رسیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبر اور سیاست دان کا نشان آپ نہیں دے سکتے جو اپنے دو چار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہو سکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملہ میں کمزوری نہیں دکھائی۔ یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی۔ لیکن حضورؐ نے ایک پورا نظام زندگی کھڑا کر دیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانہ اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرین سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے، لیکن حضورؐ نے اس نظام زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کر کے ثابت کر دیا کہ جو لوگ حضورؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔
صرف یہی نہیں کہ حضورؐ نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی، بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی، اپنے اصولوں کی قربانی کبھی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جان اور مال دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے۔ لیکن اصولوں کی ہر حال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، وہ اپنی مدت پوری کر چکنے کے بعد ختم ہو گئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی، لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہر حال میں اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت بھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی، فلاں اصول کی۔ لیکن اب حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاں بات بالکل اس کے خلاف اختیار کر لی جائے۔
حضورؐ کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دے دی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چالبازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے، تو اگرچہ اس زمانہ میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں کہ اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھہراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ ایک سیاست دان اور ایک مدبر ہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں بھی اس کے اس طرح کے کارناموں پر اس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے انھی کمالات کی بنا پر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے ، اس کا نتیجہ یہ تھا جو لوگ ان باتوں میں شامل ہوتے تھے وہی لوگ ابھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔
لیکن حضور نبی کریمؐ نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمانداری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اس طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے۔ بلکہ آپ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابلہ میں ایک صاحب اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو ، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، کہیں زیادہ سنگین قرار دیا۔ آپ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپ کو پیش آئے جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جا سکتی ہے۔ آپ نے ایک عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا، اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپ کو حریفوں اور حلیفوں، دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں۔ اور عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوؤں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے۔ بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپ نے انجام دیے۔ لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اس بات کا عتراف ہے کہ آپ نے کبھی کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدہ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی، حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دنیا کے مدبرین اور اہل سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھڑا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی اس دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضورؐ کو اپنی سیاست میں کبھی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبر سے تعبیر کیجیے یا حکمت نبوی سے۔
حضورؐ کی سیاست اور حضورؐ کے تدبر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشہ میں امن و عدل کی حکومت قائم کر دی، کفار و مشرکین کا زور آپ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے۔ یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپ نے خاتمہ کر دیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپ نے کر ڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔ نبیؐ سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے۔ اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن نبی ؐ کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شائد ان نفوس کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہو گی، جو اس ساری جد و جہد کے دوران میں حضورؐ کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہوں کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔
پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں، لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس تہذیب و تمدن کے زمانہ میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ فاتح ملک کی فوجوں نے مفتوح ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھر دی ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ارباب سیاست اس صورت حال پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے اس کو ہر انقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔
اہل سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اٹھتے ہیں، وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بیگانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اور اپنی اہمیت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں تو سیاست کے جو تقاضے ہیں، وہ ان کو پورے کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس طرح کے مقاصد کے پیش نظر جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں۔ اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کر جاتے ہیں تو ان کے لیے قصر و ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بری و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں، جب کبھی وہ کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔ اس زمانہ میں ان چیزوں کے بغیر کسی صاحب سیاست کا تصور نہ دوسرے لوگ ہی کر تے ہیں اور نہ کوئی صاحب سیاست ان لوازم سے خود کو الگ تصور کرتا ہے۔ لیکن ہمارے نبی کریمؐ اس اعتبار سے بھی دنیا کے تمام اہل سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمد رسول اللہ کون ہیں، کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دو زانو ہو کر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے۔ اس طرح میں بھی کھانا کھاتا ہوں۔
ایک مرتبہ ایک بدو اپنے تصور کی بنا پر، حضورؐ کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں ! میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔ یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہو گا۔ اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا میں بھی ہوں۔ نہ آپ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپ جو لباس دن میں پہنتے اسی میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی وفود اور سفراء سے مسجد نبوی کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے فرماتے۔
یہ خیال نہ فرمائیے کہ اس زمانہ کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور اس ٹھاٹھ باٹھ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹھ باٹھ کی وہ اب عادی ہو گئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہل سیاست کی نانا شاہی ہمیشہ سے یہی رہی۔ فرق اگر ہوا ہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریمؐ نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا جس میں دنیوی کرّو فر کے بجائے خلافت الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا۔ لیکن اس سادگی اور فقر و درویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔
نبیؐ کی سیاست اور آپ کے تدبر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ نے اپنی حیات مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کر کے تیار کر دی، جو آپ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تما م مقتضیات کو بروئے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ اس تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ حضورؐ کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرۂ ارض کے تین بر اعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جما لیں۔ لیکن اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے۔ بلکہ وقت کی نہایت ترقی یافتہ جبار و قہار شہنشاہتیں تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی موجوں نے جزیرۂ عرب سے اٹھ کر ان کو جڑوں سے اس طرح اکھاڑ پھینکا گویا زمین میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔ اور ان کے ظلم و جور کی جگہ ہر گوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔
دنیا کے تمام مدبرین اور اہل سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دو چار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو جو اس کے فکر و فلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے طریقہ کے عالم و عامل ہزاروں صحابہ تھے۔
آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبیؐ کا اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپ نبی ٔ خاتم اور پیغمبر عالم ہیں، سیاست اور تدبر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویہ سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے۔ اس سے زیادہ ناموزوں بات شائد یہ ہے کہ ہم سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہر سیاست یا ایک مدبر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔ نبوت اور رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے، جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے۔ جو اس دنیا میں بخشا جا سکتا ہے۔ پھر حضورؐ تو صرف نبی نہیں تھے، بلکہ خاتم الانبیاء تھے، صرف رسول ہی نہیں تھے، بلکہ سید المرسل تھے۔ صرف اہل عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ حضورؐ کسی دین ِ رہبانیت کے داعی بن کر نہیں آئے تھے بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہو گیا تھا، بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورت حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضورؐ سے بڑا سیاست دان اور مدبر کون ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ چیز آپ کا اصلی کمال نہیں بلکہ، جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، آپ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘المنبر’’ فیصل آباد، مارچ 2010ء)