رب کائنات نے دین حنیف کی تکمیل کے لیے اولاد ابراہیم میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ آپ ؐ بارہ ربیع الاول پیر کے دن صبح کے وقت دنیا میں تشریف لائے۔(بعض محققین کے مطابق یہ تاریخ ۹ ربیع الاول ہے) اس روز ابرہہ کی ذلت و رسوائی کو پچاس دن پورے ہوئے تھے، اسی لیے عرب اس کو پہلا ‘عام الفیل’ کہتے تھے۔ یہ ماہِ اپریل کی ۲۰ یا ۲۲ تاریخ تھی اور سال ۵۷۱ء تھا۔ آپؐ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہؓ اس رات اپنے میکے میں تھیں۔ جب آپ ؐ کے دادا حضرت عبد المطلب کو آپ ؐ کی پیدایش کا پیغام ملا تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے، پوتے کو سینے سے لگایا، پیشانی چومی اور اسی وقت حرم کعبہ لے گئے، طواف کیا، بیت اللہ کا دروازہ کھلوایا، اندر جا کر اس عنایت کے لیے اللہ کا شکریہ ادا کیا اور آپؐ کی درازئ عمر اور سرفرازی کی دعائیں مانگیں۔ جناب عبد المطلب بیت اللہ میں اس روز یہ دعائیہ اشعار پڑھ رہے تھے: ‘‘تعریف اللہ ہی کے لیے جس نے مجھے سرخی مائل گورے رنگ کا یہ پاکیزہ بیٹا عطا فرمایا، یہ بچپن ہی میں لڑکوں کا سردار ہے، میں اسے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں جو اس مضبوط کناروں والے گھر کا مالک ہے، یہاں تک کہ یہ بھر پور جوانی کو پہنچ جائے اور میں دیکھوں کہ اس کا جسم مضبوط ہو گیا ہے۔ میں اسے دشمن سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور ٹھوکریں کھانے والے اندھے اور بوڑھے حاسد کے حسد سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں یہاں تک کہ میں اسے خطیب اور زبان آور دیکھوں’’۔
آپؐ کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے آپؐ کے والد حضرت عبد اللہ یثرب میں وفات پا چکے تھے۔ آپؐ حضرت عبد اللہ اور آمنہ کی پہلی اور اکلوتی اولاد تھے۔ سیدہ آمنہ وہب کی بیٹی تھیں جو قبیلہ بنو زہرہ کے سردار تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب فہر الملقب بہ قریش کے ساتھ جا ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ ددھیال اور ننھیال میں عرب کے بہترین قبیلے ، بہترین قوم اور شاخ میں تھے۔
آپؐ کی تاریخ ولادت پر مؤرخین کا اختلاف ہے۔ طبری اور ابن خلدون نے ۱۲ ربیع الاول اور ابو الفدا نے ۱۰ ربیع الاول لکھی ہے۔ مگر سب کا اتفاق ہے کہ آپؐ کی ولادت دو شنبہ یعنی پیر کے روز کو ہی ہوئی تھی۔ رحمۃ للعالمین جلد اول میں قاضی سلیمان سلمان منصور پوری نے اسے ۹ تاریخ مانا ہے۔ یہ اختلاف اس لیے بھی ہے کہ اس زمانے میں پیدایش کے اندراج کے رجسٹر اور خاندانی روزنامچے نہیں ہوتے تھے۔ پیر کے دن کے بارے میں آپؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔ آپؐ کی پیدایش کے ساتویں دن جناب عبدالمطلب نے اونٹ ذبح کر کے آپ کے عقیقے کی دعوت کی۔ قریش میں یہ ابراہیمی روایت زندہ تھی۔ جناب عبد المطلب نے آپ کا نام محمد رکھا۔ یہ نام قریش کے نام رکھنے کی روایت سے ہٹ کر تھا، اس لیے انھوں نے جناب عبدالمطلب سے یہ نام رکھنے کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے جواب دیا: ‘‘میں چاہتا ہوں کہ آسمان میں اللہ اور زمین میں خلق میرے اس بیٹے کی تعریف کریں۔’’ محمد کا مطلب ہے ایسی ہستی جس کی ذات و صفات کی وجہ سے بہت زیادہ تعریف کی جائے۔ سیدہ آمنہ نے بتایا کہ انھیں خواب میں نومولود کا نام ‘‘احمد’’ ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ بشارت آپ کو ایسے ہی فرشتے کی معرفت ملی تھی، جیسے فرشتے کی بشارت سے بی بی ہاجرہ نے اسماعیل کا نام اور مریم نے یسوع کا نام رکھا تھا۔ لفظ محمد‘حمد’ سے اسم مفعول ہے، یعنی مضاعف سے مبالغہ کے لیے ہے اور احمد بھی حمد سے واقع علی المفعول ہے، اسی طرح اسم محمد سے حمد کی کثرت اور کمیت اور اسم احمد سے حمد کی صفت و کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی دونوں کا مطلب ایک جیسا ہی ہے۔ پھر آپؐ نے بھی فرمایا: ‘‘آسمانوں پر میرا نام احمد اور زمین پر محمد ہے۔’’
سیدہ آمنہ نے سات روز حضورؐ کو دودھ پلایا۔ شرفائے مکہ پیدایش کے سات دن کے بعد بچوں کو دودھ پلانے والیوں کے حوالے کر دیا کرتے تھے۔ آپؐ کے تایا ابو لہب کی ایک لونڈی تھی، اس کا نام ثویبہ تھا، اب حضورؐ کو ثویبہ دودھ پلانے اور آپؐ کی دیکھ بھال کرنے لگی۔
مکہ ایک تجارتی شہر تھا، وہاں حبشیوں کا محلہ بھی تھا، غلاموں کی آبادی بھی تھی، دوسرے ممالک اورعلاقوں سے تجارت پیشہ لوگ وہاں آتے رہتے تھے اور شہر میں عربی کے علاوہ اور زبانیں بھی بولی جاتی تھیں، یعنی مکہ ایک میٹرو پولیٹن سٹی سے کم نہ تھا، مگر اس میں ایک بات اور ہوئی وہ یہ کہ دیگر زبانوں کے الفاظ کی ملاوٹ بھی مکہ کی عربی میں شامل ہو گئی تھی۔ کسی عرب کے لیے یہ سب سے بڑا فخر ہوتا تھا کہ اس کی زبان خالص عربی ہے۔ عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا، اسی لیے وہ ساری دنیا کے لوگوں کوجو غیر عرب تھے، عجمی کہتے تھے، جس کے معنی گونگے کے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کولسان اور زبان آور بنانے کے لیے پوری کوشش کرتے تھے۔ جناب عبد المطلب نے آپ کی پیدایش پر آپؐ کو لے جا کر حرم پاک میں جو دعا کی تھی ‘‘یہاں تک میں اسے خطیب آور دیکھوں’’، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے زبان دانی کی کتنی اہمیت تھی۔ اس زمانے میں مکہ میں کوئی اسکول تھا اور نہ کوئی مرکز تعلیم ، اسی لیے امرائے مکہ کے بچے بدوی قبائل کے یہاں پرورش پاتے تھے، جن کی زبان ملاوٹ سے پاک اور فطرت کی رنگینیوں سے آراستہ تھی۔ بدوی عورتیں قریش کے شیر خوار بچوں کو اپنے یہاں لے جاتی تھیں۔ چھ سات سال کی عمر تک یہ بچے ان کے پاس رہتے تھے اور ان کے بچوں کے ساتھ ان کے گھروں میں پرورش پاتے تھے۔ جب وہ ان کی زبان سیکھ جاتے تو وہ انھیں مکہ میں ان کے والدین کے پاس چھوڑ جاتی تھیں۔ اس درمیان میں وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد بچوں کو ان کے والدین سے ملانے مکہ لاتی تھیں اور ان سے انعام و اکرام پا کر بچے کے ساتھ واپس جاتی تھیں۔ صحراؤں اور جنگلوں میں رہنے والے بدوؤں کی خیمہ بستیاں شرفا کے بیٹوں کے لیے نرسری اور ابتدائی مدرسہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ جہاں وہ خالص عربی زبان اور صحرائی زندگی کے آداب خالص ماحول میں سیکھتے تھے۔ بعض بدوی قبائل بچوں کی تربیت کے لیے خاص شہرت رکھتے تھے۔ ان میں مکہ کے جنوب مشرق میں رہنے والا قبیلہ بنی سعد بن بکر اتنا مشہور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فخر سے فرماتے تھے کہ ‘‘میں تم میں سب سے زیادہ عربی داں ہوں، میں قریشی ہوں اور بنی سعد بن بکر میں میری رضاعت کا زمانہ گزرا ہے۔’’
جس معاشرے میں کسی کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت اس کی زبان دانی اور اس کے زور خطابت سے متعین کی جائے وہاں ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے بچے کی تعلیم و تربیت سب سے اعلیٰ نرسری اور مدرسے ہی میں ہو، اس لیے قریش کے امیر کبیر خاندانوں کے بچے بنی سعد بن بکر کے یہاں پرورش پاتے تھے۔ چھوٹے بچوں کو ان بدوی نرسری مدرسوں میں بھیجنے کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔ شہروں میں اکثر وبائی امراض پھوٹ پڑتے تھے، جیسے ابرہہ کے حملے کے بعد چیچک اور خسرہ کا پھیل جانا۔ شہروں کی نسبت صحراؤں کی فضا اور ہوا صاف ہوتی تھی، وہاں ایسے امراض نہیں ہوتے تھے، کھلی فضا میں بچوں کی جسمانی نشوو نما بہتر ہوتی تھی۔ قریش کے اجداد صحراؤں میں رہا کرتے تھے، کھلے آسمان کے نیچے دور تک پھیلے صحراؤں میں جہاں کوئی حاکم، نہ کوئی ماتحت، آزادی کی ایسی زندگی کی ان کے یہاں بڑی قدر ہوتی تھی اور بچے بھی آزاد بدوی قبائل میں پرورش پا کر آزاد معاشرے کے طور طریقے سیکھ جاتے تھے۔ خیمے کی زندگی، راتوں کو قافلے کا سفر کرنا، ستاروں سے راستوں کا تعین، ریوڑوں کی رکھوالی اور اونٹوں کی سواری سیکھنے کے علاوہ بچوں کے اپنے اجداد کے صحراؤں سے تعلق کی بھی تجدید ہو جاتی تھی۔ بدوی عورتیں ان بچوں کو دودھ پلانے اور ان کی پرورش کرنے کا نقد معاوضہ نہیں طے کرتی تھیں اور نہ کوئی شرح مقرر ہوتی تھی۔ ایسا کرنا وہ اپنی توہین سمجھتی تھیں۔ کسی بچے کو دودھ پلانے اور اس کی پرورش کرنے سے اس بچے اور اس کے خاندان سے دودھ پلانے والی خاتون اور اس کی اولاد کا ایک قسم کا رشتہ قائم ہو جاتا تھا جو زندگی بھر قائم رہتا تھا۔ عربوں میں خون کے ساتھ ساتھ دودھ کے رشتے کی بھی بہت اہمیت تھی۔ بدوی خواتین امرا کے جن بچوں کو دودھ پلاتی تھیں اور تربیت کرتی تھیں ان بچوں کے والدین دودھ کے اس تعلق کی وجہ سے خواتین کے خاندان والوں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ ضروریات زندگی کی جو چیزیں صحراؤں میں نہیں ملتی تھیں، وہ انھیں فراہم کرتے رہتے تھے۔ جس کسی بچے نے کسی خاتون کا دودھ پیا ہوتا تھا، وہ جوان ہو کر اس کا اوراس کے بچوں کاخیال رکھتا تھا۔ اس طرح سے ایک قسم کی دودھ کی رشتہ داری قائم ہو جاتی تھی۔ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے چند ہفتے حضورؐ کو دودھ پلایا تھا،مگر جب تک وہ زندہ رہی حضورؐ اس سے حسن سلوک فرماتے رہے۔ جب آپ ؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی تو وہ بھی ثویبہ کی عزت اور خدمت کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ وہ ثویبہ کو آزاد کرانے کے لیے ابولہب کو منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہو گئیں، مگر وہ تیار نہ ہوا۔ جب آپؐ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں سے بھی ثویبہ کے لیے کپڑے، ضروریات کی چیزیں اور زرنقد ارسال فرماتے رہے۔ ۷ ہجری میں جب آپؐ کو ثویبہ کی وفات کا علم ہوا تو آپؐ نے اس کے بیٹے مسروح کے حالات معلوم کیے تاکہ ضرورت ہو تو اس کی مدد کی جائے، مگر معلوم ہوا کہ وہ بھی فوت ہو چکا ہے۔ حضورؐ کے چچا حضرت حمزہؓ ، ام المؤمنین حضرت زینبؓ کے بھائی حضرت عبد اللہ اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہؓ نے بھی اسی ثویبہ کا دودھ پیا تھا۔
بنی سعد بن بکر کی جس خاتون نے حضورؐ کودودھ پلایا اس کانام حضرت حلیمہؓ تھا۔ ان کے شوہر کا نام حارث تھا۔ حلیمہؓ بنی سعد بن بکر کی دیگر خواتین کے ساتھ مکہ آئیں اور حضورؐ کو دودھ پلانے اور پرورش کرنے کے لیے ساتھ لے گئیں۔ آپؐ کے ایک اور چچیرے بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب نے بھی حلیمہ کا دودھ پیا تھا اوران کے خیمے میں پرورش پائی تھی۔ حضرت حلیمہؓ ہر چھٹے مہینے آپ کو مکہ لا کر آپؐ کی والدہ اور دیگر اقربا کو دکھا جاتی تھیں۔ دوسال تک دودھ پلانے کی مدت پوری ہو گئی تو حضرت حلیمہ آپؐ کو لائیں، سیدہ آمنہ سے عرض کیا کہ مکہ میں طاعون کا خطرہ ہے، اس لیے وہ حضورؐ کو چھوڑنا نہیں چاہتیں، سیدہ آمنہ راضی ہو گئیں اور حضرت حلیمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لے گئیں۔ اس طرح آپؐ پانچ سال کی عمر تک بنو سعد بن بکر کے قبیلے میں رہے۔ حضرت حلیمہ کی ایک بیٹی جذامہ تھیں جو شیما کے نام سے مشہور ہیں، وہ حضورؐ کو گود میں کھلایا کرتی تھیں، ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات پر مچل کر شیما کو اس زور سے کاٹا کہ اس کے کندھے پر ساری عمر اس کا نشان رہا جو کہ آگے چل کر شیما اور اس کے خاندان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔
غزوۂ حنین میں جب اللہ نے مسلمانوں کو بنو ہوازن کے خلاف کامیابی عطا فرمائی تو جنگی قیدیوں میں بنو سعد کے مرد اور خواتین بھی تھے۔ بنو سعد بھی بنو ہوازن کے قبیلے کی ایک شاخ تھے۔ خواتین میں شیما بھی تھی، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں کھلایا کرتی تھی اور لوریاں سنایا کرتی تھی۔ اس نے جب مسلمانوں کو بتایا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن ہے تو آپ کو اس کی اطلاع دی گئی۔ آپؐ نے حکم دیا کہ دیکھو کہ اس کے کندھے پر دانت کے کاٹنے کا نشان ہے؟ نشان کی موجودگی کی خبر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلب فرمایا، اس سے بڑی شفقت فرمائی اور عزت کے ساتھ اس کے خاندان میں پہنچانے کا حکم فرمایا۔ شیما سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک دیکھ کر بنو سعد کا ایک وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا اور عرض کیا، حضور ؐ جنگی قیدیوں میں وہ خواتین بھی ہیں جو آپ کوکھلایا کرتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں حضرت حلیمہؓ کے تعلق سے آپ کی بہت سی خالائیں بھی قید ہو کر آئی ہیں، آپ کی پھوپھیاں بھی ہیں جو آپ کی خدمت کیا کرتی تھیں، ان کے عزیز و اقارب بھی قیدیوں میں شامل ہیں، آپؐ ان پر کرم فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘میں نے اپنا اور عبد المطلب کا حصہ چھوڑ دیا۔’’ انصار نے کہا: ‘‘ہم نے اپنا حصہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے لیے چھوڑ دیا۔’’ پھر جس کسی نے سنا اس نے اپنے حصے کے قیدی رہا کر دیے۔ اس طرح چھ ہزار جنگی قیدی تاوان جنگ کے بغیر چھوڑ دیے گئے اور ان کا مال و اسباب بھی واپس کر دیا گیا، جس کی مالیت کروڑوں درہم تھی۔ امرائے مکہ کے سارے بیٹوں نے مل کر بھی اپنی رضاعی ماؤں اور اس کے خاندان پر اتنا احسان نہ کیا ہو گا، جتنا آمنہ کے اس در یتیم نے اکیلے کیا، جس کے بارے میں زیب داستان کے لیے کہا گیا کہ بنی سعد کی دودھ پلانے والیاں اس کی یتیمی اور ماں کی غربت اور داد کے بڑھاپے کی وجہ سے اسے ساتھ لے جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ حلیمہ کا بیٹا عبد اللہ اور بیٹی شیما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مسلمان ہو گئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور عمر فاروقؓ بھی ساری زندگی اس خاندان سے حسن سلوک اور تکریم سے پیش آتے رہے۔ حضرت حلیمہؓ بہت پیار کرنے والی خاتون تھیں، وہ آپؐ سے بہت پیار کرتی تھیں، آپ بھی عمر بھر حضرت حلیمہ کا احترام کرتے رہے۔ ایک بار وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئیں تو انھیں دیکھتے ہیں ‘‘میری ماں، میری ماں’’ کہتے ہوئے آپ کھڑے ہو گئے، اپنی چادر بچھا دی اور اس پر حضرت حلیمہ کو بٹھا دیا۔ ایک اوردفعہ حضرت حلیمہ مکہ تشریف لائیں تو بتایا کہ ان کے علاقے میں سخت خشک سالی ہے، مویشی بھوک سے مر گئے ہیں۔ آپؐ نے انھیں چالیس بکریاں اور سامان سے لدا ہو ایک اونٹ عنایت فرمایا۔ فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور حلیمہ کی وفات کے بارے میں بتایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، وہ واپس جانے کو ہوئیں تو آپؐ نے انھیں دو سو درہم، نئے کپڑے اور سواری کے لیے کجاوے سمیت اونٹ عطا فرمایا۔
بنو سعد کی بستی میں قیام کے دوران ایک اور واقعے کا بھی ذکر ملتا ہے، جسے ‘‘شق صدر’’ کہا جاتا ہے۔ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن آپؐ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرئیل آئے، آپ کو زمین پر لٹا کر آپ کا سینہ چاک کیا اور آپؐ کے دل سے ایک لوتھڑا نکال کر پھینک دیا، پھر دل ٹھنڈے پانی سے دھو کر سینہ سی دیا اور اس لوتھڑے کے بارے میں فرمایا: ‘‘یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے۔’’ لیکن بہت سے سیرت نگاروں نے شق صدر کے واقعے کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ وہ کہتے ہیں : (۱) کیا خالق کائنات اس پر قادر نہ تھا کہ اس لوتھڑے کو آپ کا سینہ چاک کیے بغیر نابود کر دے۔ (۲) جب اللہ نے آپ کو رسالت ہی کے لیے خلق فرمایا تھا تو شق صدر کی کیا ضروت تھی۔ (۳) پھر آپ کی ابتاع نہ کرنے والوں کے لیے یہ حجت ہے کہ ان کا شق صدر نہیں ہوا ہے۔ (۴) نبوت چالیس سال ہی میں ملتی تھی جس کا علم اللہ کو تھا تو پھر اتنا پہلے شق صدر کیوں؟
پھر ابن اسحاق کی لکھی ہوئی وہ کہانیاں بھی ہیں جو انھوں نے حلیمہ کی زبان سے بیان کی ہیں کہ ‘‘جب میں بنی سعد کی دیگر خواتین کے ہمراہ مکہ آ رہی تھی تو میری چھاتی میں دودھ اتنا کم تھا کہ میرا بچہ بھی سیر نہیں ہوتاتھا اور رات کو سوتا نہیں تھا اور یہ بھی کہ جب حلیمہ مکہ آرہی تھیں تو ان کی گدھی اتنی کمزور تھی کہ وہ سب سے پیچھے تھی، مگر واپسی کے سفر میں جب وہ حضور کو لے کر اسی گدھی پر سوار ہوئی تھیں توان سب سے آگے تھیں، اور یہ کہ جب وہ حضورؐ کو اپنے گھر لے کر گئیں تو ان کی بکریاں بہت زیادہ دودھ دینے لگیں، خشک سالی میں بھی بکریاں جدھر جاتیں پیٹ بھر کر آتیں اور یہ بھی کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد فوت ہو چکے تھے اور سیدہ آمنہ غریب تھیں، اس لیے حلیمہ سمیت کوئی دودھ پلانے والی حضورؐ کو لے جانے پر تیار نہ تھی، مگر جب حلیمہ کو کوئی بچہ نہ ملا تو اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے خالی جاتے شرم آتی ہے، اس لیے یتیم کو لے آتے ہیں اور ان کے خاوند نے اجازت دے دی اور وہ آپؐ کو دودھ پلانے کے لیے لے گئیں۔’’
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حلیمہ کا اپنا بچہ بھوکا رہتا تھا اور بھوک کی وجہ سے رات کو سوتا نہیں تھا تو کیا وہ قریش کے کسی بچے کو بھوکا مارنے کے لیے مکہ لینے آئی تھیں؟ اگر اس کی اپنی چھاتیوں میں دودھ نہیں تھا، بکریاں قحط زدہ تھیں، گدھی اسے اٹھا کر چل نہیں سکتی تھی، تویہ کس بوتے پر کسی بہت امیر قریشی کا بچہ حاصل کرنے کی امید رکھتی تھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اگر حضرت حلیمہ کی غربت عسرت اور فراوانی میں بدل گئی تو آپؐ کی والدہ آمنہ کی غربت کیوں دور نہ ہو سکی۔ کیونکہ کسی بدوی عورت کے حضورؐ کو دودھ پلانے کو تیار نہ ہونے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی غربت بتاتے ہیں، باپ کی وفات اوردادا عبد المطلب کا بڑھاپا قرار دیتے ہیں کہ وہ ایسے بچے کو لے گئیں تو انھیں کچھ نہ ملے گا۔ مگر جناب عبد المطلب کے فرزند حضرت حمزہؓ آپ سے دو سال پہلے ہی پیدا ہوئے تھے اور بنی سعد ہی کی ایک خاتون کے گھر پرورش پا رہے تھے پھر اس عورت نے کیوں نہ سوچا کہ اس کا بوڑھا باپ تومرنے والا ہے وہ حضرت حمزہ کو کیوں لے گئی۔ جبکہ تمام سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جناب عبدالمطلب اپنے یتیم پوتے کے لیے دودھ پلانے والی کا انتظام کرنے کے لیے اپنے حقیقی بیٹے کی نسبت سے بھی زیادہ فکر مند تھے، کیونکہ انھوں نے آپؐ کے والد حضرت عبد اللہ کے بدلے میں اونٹوں کی نذر کی قبولیت کے لیے حرم میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگی تھیں۔ نذر کی قبولیت پر ان کے خاندان اور قریش نے خوشیاں منائی تھیں، ان کے لیے عبد اللہ کی اس نشانی سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ جب تک دادا زندہ رہے ، وہ آپؐ کو اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے، اگر وہ سردار قریش تھے اور اپنے یتیم پوتے کو اتنا ہی عزیز رکھتے تھے جتنا کہ سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی بدوی عورت سردار قریش کے پیارے پوتے کو دودھ پلانے کو تیار نہ ہو جبکہ بنو سعد اورقریش ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہ تھے۔ آپؐ کا اسوۂ مبارک دنیا کے ان تمام معجزات میں، جن کو انسان نے دیکھا، سب سے بڑا معجزہ تھا اور بقول حضرت عائشہؓ کے قرآن مجید کا عملی نمونہ تھا تو پھر کیا اتنے بڑے معجزات کا حامل ایسے معجزات کا محتاج ہو سکتا ہے ، جوسیرت نگاروں نے ایجاد کر ڈالے۔ آپؐ نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی معجزوں کو اہمیت نہیں دی، دین کی تکمیل کے مشن میں جو مشکل ترین مراحل آئے، آپؐ نے وہاں بھی معجزوں کاسہارا نہیں لیا،گو کہ آپؐ کے معجزوں سے انکار آپؐ کی رسالت سے انکار ہے، مگر ایسی کہانیاں آپ کی ذات اقدس سے وابستہ کرنا حقائق اور واقعات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، نا مناسب ہیں۔
غزوۂ حنین ۸ ہجری میں پیش آیا۔ اس غزوے کے قیدیوں میں حضرت حلیمہ کی بیٹی شیما اور ان کے عزیزو اقارب اور قبیلے والے تھے، جن معجزات کا سیرت نگار اپنی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں، شیما اور ان کے عزیز و اقارب چشم دید گواہ تھے تو پھر وہ اس سے پہلے ہی آپؐ پر ایمان کیوں نہ لے آئے۔
آپؐ جب بنو سعد کی بستی سے واپس آئے تو کافی صحت مند تھے، دوڑنے بھاگنے لگے تھے، سیدہ آمنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتیں تودل مسرت سے بے قابو ہو جاتا۔ جب آپؐ ساتویں سال میں داخل ہوئے تو جناب عبد المطلب آپؐ کومدینہ لے گئے، جس کا نام اس وقت یثرب تھا۔ وہاں جناب عبدالمطلبکی ننھالی تھی۔ انھوں نے اپنا بچپن وہیں گزارا تھا۔ حضورؐ کے والد جناب عبداللہ نے بھی وہیں وفات پائی تھی، ان کی قبر یثرب میں ہی تھی۔ اب آپؐ سمجھ دار ہو چکے تھے۔ دادا چاہتے ہوں گے کہ اپنے ننھالی رشتے داروں سے آپؐ کوملا لائیں۔ وہ اپنے پوتے کو اس کے والد کی اور بہو کو اس کے خاوند کی آخری آرام گاہ دکھانا چاہتے ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سیدہ آمنہ اور ان کی لونڈی ام ایمن بھی اسی سفر میں ان کے ہمراہ تھیں، مدینہ میں آپؐ نے اپنے دادا اور والدہ اور ام ایمن کے ساتھ بنو عدی بن نجار کے یہاں قیام فرمایا۔ سیدہ آمنہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد پہلی بار ان کی قبر پر آئی تھیں۔
مکہ کی نسبت مدینہ ایک سر سبز علاقہ تھا، وہاں باغات تھے، ہری بھری کھیتیاں تھیں۔ پانی بھرے تالاب تھے، ننھے حضورؐ کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا، آپؐ نے پہلی بار پانی کے تالاب دیکھے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے نہاتے تھے اور تیر کر دور تک پانی میں جاتے تھے۔ بنی نجار کے بچے اپنے مہمان کو بھی لے جاتے تھے، آپ بھی ان کے ساتھ مل کر تالاب میں نہاتے تھے، تیرنے کی کوشش کرتے تھے۔ تالاب کے پاس درختوں سے بچے پرندوں کو اڑایا کرتے تھے، آپ بھی ان کے اس کھیل میں شامل ہو جاتے تھے ۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے جب آپؐ وہاں آئے توبچپن کے قیام مدینہ کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ مدینہ میں ایک ماہ قیام کے بعد جناب عبد المطلب پوتے، بہو اور خادمہ کو لے کر واپس مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ منزل منزل چلتا ہوا جب یہ قافلہ ابوا کی وادی میں پہنچا توسیدہ آمنہ کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ جناب عبد اللہ کئی بار اس راستے سے گزرے تھے، راستے میں آنے والی آبادیاں اور خیمہ بستیاں اور ان کے سردار قریش کے سردار جناب عبد المطلب سے واقف تھے۔ عبد المطلب وہیں ٹھہر گئے اور سیدہ آمنہ کے صحت یاب ہونے کا انتظار کرنے لگے، لیکن ان کا سفر مکمل ہو چکا تھا۔ والد محترم کے بعد آپ کی والدہ محترمہ کو بھی اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ ابوا کے باسیوں نے پہاڑی کے دامن میں سیدہ آمنہ کے لیے قبر کھودی، اور سیدہ آمنہ کو اس کے سپرد کر دیا۔ مدینہ میں آپؐ اپنے والد کی قبر دیکھ کر آئے تھے اور ابوا میں اپنی والدہ کو قبر میں اترتے دیکھا تھا۔ اس وقت آپ کے غم اوردکھ کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ جب لوگ قبر پر مٹی ڈال کر واپس ہوئے تو ننھے حضورؐ قبر کے پاس افسردہ بیٹھے تھے، ‘‘اماں اماں آپ بولتیں کیوں نہیں؟’’ آپؐ پوچھ رہے تھے۔ جناب عبد المطلب کو اللہ نے مال اور اولاد کی نعمتوں سے بہت نوازا تھا۔ بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں سب تھے، مگر عبد اللہ نہیں تھے، عبد اللہ کے اکلوتے بیٹے کے ماں باپ نہیں تھے۔ اس لیے وہ ننھے محمدؐ کو ہر وقت خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ گھر سے کہیں جاتے تو آپ کو ساتھ لے جاتے۔ جناب عبد المطلب قریش کے سردار تھے، امارت مکہ کے حکمران تھے۔ جب ان کے لیے حرم کی دیوار کے سایے میں فرش بچھایا جاتا تو لوگ ان کے سامنے زمین پر بیٹھتے تھے۔ ان کی اولاد میں بھی کوئی ان کی نشست پر نہیں بیٹھ سکتا تھا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ فرش پر اپنے پاس بٹھاتے اورپیار سے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ جب دادا آرام کرتے تو گھر کا کوئی فرد انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا تھا، مگر حضورؐ اس وقت بھی ان کے پاس چلے جاتے۔ دار الندوہ کے اجلاس میں چالیس سال سے کم عمر کا کوئی شخص شامل نہیں ہوسکتا تھا، مگر حضورؐ آٹھ سال سے کم عمر میں ہی دار الندوہ جانے لگے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو آپؐ اس بزرگ کی شفقت سے بھی محروم ہو گئے۔ جناب عبد المطلب اسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اب حضورؐ اس دنیاوی سہارے سے بھی محروم ہو گئے۔ جب آپؐ کے دادا کا جنازہ اٹھایا گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے کیونکہ اب آپؐ محبت اور شفقت سے محرومی کا زیادہ شعور رکھتے تھے۔
٭٭٭