چاند دیکھا تری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شب غم سے تری دید اب کے
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے
٭٭٭
پھر کوئی آیا دل زار نہیں، کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراخ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
٭٭٭
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے رکھتے ہیں
دامن میں ہے مشت خاک جگر، ساغر میں ہے خون حسرت مہ
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں
٭٭٭