چاند دیکھا تری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق

مصنف : فیض احمد فیضؔ

سلسلہ : نظم

شمارہ : جنوری 2010

چاند دیکھا تری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شب غم سے تری دید اب کے


پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے

٭٭٭
پھر کوئی آیا دل زار نہیں، کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا


ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراخ


اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

٭٭٭
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے رکھتے ہیں


دامن میں ہے مشت خاک جگر، ساغر میں ہے خون حسرت مہ
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں
٭٭٭