مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء- ۱۹۵۸ء) کی شخصیت متنوع اوصاف و کمالات سے متصف تھی۔ تفسیر، تہذیب، تحقیق و تنقید، تاریخ و تعلیم، شعروادب، خطابت و صحافت، سیاست، غرض علم و فن کا کون سا میدان اور گوشہ ایسا ہے جس میں ان کے فضل و کمال کے تابندہ نقوش ثبت نہیں۔ ان کا شمار عبقرہ اور ممتاز ترین اشخاص میں ہوتا ہے۔ لیکن اس جامعیت کے ساتھ ان کی انفرادیت بھی نمایاں ہے۔
ان کی انفرادیت کے متعدد اسباب و محرکات ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی سبب ان کی تاریخی بصیرت ہے، جس سے انھوں نے اپنی تمام مذہبی، تفسیری، علمی و ادبی، تعلیمی، سیاسی اور صحافتی کاوشوں میں کام لیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ان کی تحریروں سے ان کے تاریخی شعور اور تاریخی مباحث کو علاحدہ کردیا جائے تو غالباً وہ اپنی مخصوص انفرادی شان سے بھی جدا ہوکر رہ جائیں گے۔
مولانا آزاد عام معنوں میں مؤرخ نہ تھے، لیکن وہ تاریخ اس کے رموز و نکات اور اس کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف تھے۔ تاریخ کا انھوں نے بطور خاص مطالعہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ‘‘میں تاریخ اور فلسفے کا خاص طور سے مطالعہ کرتا رہا’’۔ اس مطالعے نے بالآخر ان میں ایسا رچا ہوا پختہ تاریخی شعور پیدا کر دیا جو ان کی تمام کاوشوں کا حصہ بن گیا۔
تاریخ کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ قیاس و ظن اور شخصی رایوں کے پریشان مجموعے کا نام ہے۔ مگر یہی اوراق پریشاں ان کے خیال میں بصیرت و دانائی کا ذریعہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘دنیا میں سب سے پہلے انسان کے آگے تاریخ یعنی دنیا کے گزرے ہوئے واقعات آتے ہیں اور ان ہی سے انسان تجربہ کی دانائی اور بصیرت حاصل کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہمیشہ ایک ہی طرح کے واقعات ظاہر ہوئے، ایک ہی طرح کے اعلانات کیے گئے، ایک ہی طرح کی حالتیں طاری ہوئیں اور ایک ہی طرح کے نتیجے نکلے، پس تجزیہ اور استقرا اسے بتلا دیتا ہے کہ اب بھی ہمیشہ جب کبھی ویسی حالتیں پیدا ہوں گی تو ویسے ہی نتائج نکلیں گے اور اگر آگ کے شعلوں نے ہمیشہ انسان کے جسم کو راکھ کیا ہے تو ایسا کبھی نہ ہوگا کہ آگ کے شعلوں میں کود کر کوئی ٹھنڈک پائے’’۔
تاریخ اسی وقت مصدر بصیرت و دانائی ہے جب وہ اپنی اصلی صورت میں باقی ہو، ورنہ وہ تخریب کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ مولانا کا خیال تھا کہ تاریخ میں غلط بیانی یا اس کی غلط ترجمانی سے اتحاد و اتفاق کے بجائے انتشار، تصادم اور منافرت پیدا ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
‘‘تاریخ کی غلط تعلیم نے انسان کو تقسیم کردیا ہے، ہماری موجودہ تاریخی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ انسان مختلف نسلوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر ان اقوام کی داستان میں باہمی تصادم پر زور دیا جاتا ہے اور مختلف گروہوں میں نفرت اور منافرت کو پیش کیا جاتا ہے، ناگزیر ہے کہ اس طرح جو تاریخ پڑھائی جائے گی اس سے ذہنی تنگی اور تصادم پیدا ہوگا، مطمح نظر محدود ہوجائے گا اور بچے کے ذہن میں علاحدگی کا احساس پرورش پانے لگے گا’’۔
وہ اس بات سے رنجیدہ تھے کہ انگریزوں نے منافرت پیدا کرنے کے لیے تاریخ میں دروغ بیانیوں اور غلط کاریوں کو روا رکھا، چنانچہ جب ایلیٹ کی مورخانہ تدلیسات کا جائزہ لیا گیا اور اس کے مضمرات کی نشاندہی کی گئی تو انھوں نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
مولانا آزاد کی شخصیت میں قومی یکجہتی، جذباتی ہم آہنگی اور انسان دوستی کے جو جذبات موجزن تھے وہ بھی ان کے بلند تاریخی شعور ہی کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ ضیاء الحسن فاروقی نے مولانا آزاد کے اسی طرزِفکر کو ہیمونزم (Humanism) سے تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘مذہب، فلسفہ، شعروادب، فکروفن اور تاریخِ عالم پر مولانا کی نظر گہری تھی۔ اسی نظر سے ان پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ اعلیٰ تہذیبی و انسانی قدریں کسی خاص قوم کی امانت نہیں۔ یہ سب کی ہیں اور ان کی خدمت دنیا کی تمام متمدن اقوام نے تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق کی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس طرح اس تاریخی نظر کی بدولت انسان دوستی سے متعلق ان کا جو فکر بنا اسے ہم ہیونزم سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
ابتدائی دور میں انھوں نے جو رسائل و جرائد نکالے ان کے ذریعہ وہ اور کاموں کے ساتھ خدمت تاریخ کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ ۱۹۱۱ء میں ‘‘المصباح’’ جاری کیا، علم و ادب کے ساتھ خدمت تاریخ بھی اس کے اجرا کے مقاصد تھے۔ چنانچہ جب تک یہ رسالہ نکلا اس کے چند صفحات تاریخ و سوانح کے لیے مختص رہے۔ اسی طرح لسان الصدق کے چار مقاصد میں ایک مقصد تاریخی مضامین کی اشاعت بھی تھا۔جناب عبدالقوی دسنوی کے بقول اس رسالے نے جن چار مقاصد کا ابتدا میں اعلان کیا تھا اس پر سختی سے کاربند رہا۔
ماہنامہ ‘‘الندوہ’’ لکھنؤ اور ‘‘وکیل’’ امرتسر کے بعد انھوں نے اپنا مشہور جریدہ ‘‘الہلال’’ جاری کیا، جو ان کی علمی و صحافتی زندگی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے خاص طور پر جدوجہد آزادی کو نیا رُخ اور مسلمانوں کو عزم و حوصلہ عطا کیا۔ ‘‘الہلال’’ کے ذریعہ بھی انھوں نے تاریخ وتہذیب کی بڑی خدمت کی۔ اس میں متعدد موضوعات تاریخ پر مضامین و مقالات شائع ہوئے۔ کچھ مولانا کے قلم سے اور کچھ دوسروں کی نگارشات کی شکل میں۔
‘‘الہلال’’ میں تاریخ کی بعض اہم کتابوں مثلاً مآثر الامراء، سروآزاد، تاریخ کبیر، علم الآثار مصر وغیرہ پر تنقید و تبصرے بھی مولانا آزاد کی تاریخ سے دلچسپی کے مظاہر ہیں۔ جدید اثری تحقیقات سے متعلق بھی متعدد مضامین ‘‘الہلال’’ میں شائع ہوئے ہیں۔ اصلاً مولانا آزاد کو جدید اثری تحقیقات سے ابتدا ہی سے بڑی دلچسپی تھی۔ خدنگ نظر میں بھی انھوں نے اس موضوع پر کئی مضامین لکھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آثارِ قدیمہ تاریخ و تہذیب کا سب سے اہم اور بنیادی مآخذ ہے اور اسی کے ذریعہ قدیم تاریخ و تہذیب مرتب شکل میں استناد کے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی انھیں موقع میسر آجاتا تو وہ آثارِقدیمہ کے مطالعے و مشاہدے سے بھی گریز نہ کرتے۔
مولانا آزاد نے نہ صرف تاریخِ اسلام کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا بلکہ وہ عالمی تاریخ پر بھی گہری اور ماہرانہ نظر رکھتے تھے۔ قدیم تہذیبوں کی تاریخ کا بھی انھوں نے بنظرغائر مطالعہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ہرتحریر و تقریر حتیٰ کہ خطوط سے بھی ان کی تاریخی بصیرت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ ‘‘غبارِخاطر’’ کے خطوط ادب و انشا کا شاہکار ہیں، لیکن ان خطوط میں بھی متعدد تاریخی مباحث آگئے ہیں۔ قلعہ احمدنگر کی تاریخ ہو یا جہانگیر، شاہ جہاں، داراشکوہ، اور عالم گیر کے عہد کے واقعات، غبار خاطر میں ان کا ذکر ایسے تایخی اندازو اسلوب میں ہے کہ بے ساختہ ان کی تاریخ دانی پر تحسین و آفرین کے کلمات نکل پڑتے ہیں، عالم گیر کے زین آبادی سے معاشقے کی داستان اس دلچسپ انداز میں قلم بند کی ہے کہ تاریخ کے طالب اسے نظرانداز نہیں کرسکتے، متعدد مؤرخین اور اہلِ قلم نے عالم گیر کے اس معاشقے کا انکار کیا ہے، مگر مولانا آزاد نے اس کی پوری تفصیل لکھ کر عالم گیر کی زبان سے خود اپنے احساس کی بھی غمازی کردی کہ
گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی
‘‘غبارخاطر’’ ہی کی طرح ‘‘کاروانِ خیال’’ اور بعض دوسرے مکاتیب کے مجموعوں کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ تاریخ کے مباحث سے لبریز ہیں، ان کے خطبات میں بھی تاریخ کے عناصر پوری طرح جلوہ گر ہیں، حتیٰ کہ مذہبی کتابوں اور مضامین میں بھی ان کا تاریخی شعور ان کا رفیق قلم ہوتا ہے، مثلاً جامع الشواہد فی دخول غیرالمسلم فی المساجد ان کا ایک مذہبی رسالہ ہے مگر اس مذہبی بحث میں بھی انھوں نے تاریخ ہی سے استدلال کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ مساجد میں غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع نہیں، انھوں نے تاریخ سے عہد نبویﷺ میں یہود و نصاریٰ کے ان وفود کا ذکر کیا ہے جنھیں آپؐ نے مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی کے الفاظ میں واقعہ یہ ہے کہ ‘‘مولانا آزاد کا تاریخی شعور خونِ زندگی کی طرح ان کی ہر تحریر و تقریر میں دوڑتا نظر آتا ہے’’ ۔ تاریخِ اسلام سے ان کی حددرجہ بڑھی ہوئی دلچسپی کے متعدد شواہد پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن یہاں صرف دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ علماء کو میدانِ عمل میں سرگرمِ عمل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘آپ حضرت سعید بن المسیب کو دیکھئے کہ حکام کے جور کے حکم سے ان کی پیٹھ پر درے لگائے جا رہے ہیں مگر ان کی زبان صدق بیان اعلانِ حق میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئی ہے۔ آپ مدینے کی گلیوں میں حضرت مالک بن انس کو دیکھئے ان کی مشکیں کس زور سے کَس دی گئی ہیں کہ بازو اکھڑ گئے ہیں اور اُوپر سے پیہم تازیانے کی ضربیں پڑرہی ہیں۔ آپ امام احمد بن حنبل کو دیکھئے کہ نوجلاد یکے بعد دیگرے تازیانے لگارہے ہیں، پیٹھ زخموں سے چور چور ہوگئی ہے۔ اس میں اگرچہ مولانا آزاد نے اپنے پردادا شاہ محمد افضل کے مادری سلسلے کے بزرگ شیخ جمال الدین دہلوی کے حالات و سوانح، ان کی علمی و دینی خدمات کی تاریخ قلم بند کی ہے، تاہم اس میں متعدد علماء و مشائخ کے حالات و سوانح، بعض دینی تحریکات اور معاشرتی واقعات کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ اس سے شیخ جمال الدین دہلوی کے عہد کی مذہبی اور تہذیبی تاریخ کا پورا مرقع سامنے آجاتا ہے۔ تذکرہ کو ہم مولانا آزاد کی تاریخی بصیرت کا ایک اعلیٰ نمونہ قرار دے سکتے ہیں، اس کے بارے میں شیخ محمد اکرام نے لکھا ہے کہ:
‘‘تذکرہ کئی لحاظ سے ان کی بہترین تصنیف ہے، اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص کی لکھی ہوئی ہے جو دنیائے اسلام کی ذہنی اور مذہبی تاریخ سے پوری طرح اوقف ہے اور ان تمام تحریکوں اور شخصیتوں سے باخبر ہے جنھوں نے مسلمانوں پر اچھا یا بُرا اثر ڈالا، مولانا کی اس خوبی کی وجہ سے نہ صرف ہمیں چند نہایت بلندپایہ تصانیف بہم پہنچی بلکہ ایک ایسی مثال قائم ہوگئی جس کی تھوڑی بہت پیروی دوسرے بزرگ بھی کرتے ہیں’’۔
مولانا آزاد چونکہ کئی زبانوں سے واقف تھے اس لیے دوسرے ملکوں اور زبانوں میں اسلامی تاریخ اور علوم سے متعلق جو تحقیقات شائع ہوتی تھیں یا ان زبانوں میں جو سرمایہ تھا ان پر بھی ان کی نظر تھی۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ‘‘یورپ کی زبانوں خصوصاً جرمن میں اسلامی تاریخ و علوم کے متعلق مفید چیزیں موجود ہیں’’۔
جیساکہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں کہ مولانا آزاد کو قدیم تاریخ و تہذیب سے خاص دلچسپی تھی اور اس کا انھوں نے بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا، ان کے امتیازات و خصوصیات اور ترقی و تنزل کے اسباب بھی ان کی نظر میں تھے اور ان کے بارے میں بہت واضح رائے رکھتے تھے، قدیم ایرانی تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘تاریخ عہد قدیم کی تاریکی ہمیں کچھ نہیں بتلاتی کہ وہ عظیم الشان ایرانی جنھوں نے اصطخر کی عظیم الاثر محرابیں بنائیں اور اپنی روایتوں کے اندر دیووں سے لڑے اور تمام بحروبر کو تخت ایران کے آگے سربسجود دیکھا، دنیا میں کیوں نمایاں ہوئے تھے اور دنیا نے ان سے کیا پایا، البتہ دریائے فرات کے کنارے کے وحشت ناک تودے اور کہیں کہیں سے اُبھر کر آجانے والی شکستہ دیواریں اپنے اندر ایک تاریخی عمل ضرور رکھتی ہیں اور ایران کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتلاتی ہیں کہ عہدقدیم عظیم الشان کشور تمدن یعنی بابل پر خوفناک درندوں کی طرح چڑھ آئے اور اس کی عجیب الصناعہ دیواروں کے نیچے بربادی اور تباہی نے ان کے مقصد ظہور پر نوحہ پڑھا’’۔
بابل کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘‘پھر وہ بابل (جو ایرانیوں کی خونخواری پر نوحہ خواں ہے) دنیا میں کس غرض سے آیا تھا اور کیا کر گیا۔ یہ سچ ہے کہ اس نے معلق باغ بنائے جو بڑے ہی عجیب تھے اور آج بھی عجیب سمجھے جاتے ہیں لیکن اس کے تمدن و انسانیت نے ان باغوں کے ساتھ کیا کیا جو گو عجیب نہ تھے لیکن باغبانی دنیا کے ہزارہا برسوں کی محنت کی کمائی تھی، ہولناک بخت نصر کا تاراج کن سیلاب جب شام میں پھیلا ہے، تو یروشلم (بیت المقدس) کی زمین کا چپہ چپہ شادابی و سرسبزی کا بہشت تھا لیکن بابل کے فرزند وہاں اس لیے آئے تھے کہ زندگی کی شادابی کی جگہ آگ کے حرفوں کے نقشوں میں اپنے ظہور کا مقصد لکھ جائیں۔
اسی طرح وہ رومیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
ہم نہیں جانتے کہ روم کے ہولناک فاتحوں کا جن کے سر پر تمدن قدیم کا سب سے زیادہ درخشاں چاند نظر آتا ہے کیا مقصد تھا؟ مگر ہم نے شمالی افریقہ میں کئی میلوں تک پھیلا ہوا ایک تودہ دیکھا ہے جس کے اندر کارتھج کی دیواروں کی ٹوٹی ہوئی اینٹیں نکلتی رہتی ہیں اور ایران و شام کی خاک کے ذرے کہتے ہیں کہ ہمیں سب سے زیادہ خون ان ہی رومی تلواروں کی لعنت سے نصیب ہوا’’۔
قدیم مصری تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘‘ہم کو نہیں معلوم کہ عظیم الشان مصری دنیا میں کیوں آئے تھے لیکن ہم نے ہبروغلیفی نقوش کے اندر پڑھا ہے کہ انھوں نے بڑی بڑی قوموں کو غلام بنا کر ذلیل و خوار کیا، ان کو عجیب عجیب طرح کے آلہ ہائے تعذیب کے شکنجوں میں کسا، جن کی تصویریں منی فس کے مندر میں دیکھ کر ہم اَشک آلود ہیں۔
ان اقتباسات تاریخ سے قدیم تہذیبوں کے بارے میں مولانا آزاد کے نقطۂ نظر کے ساتھ عالمی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کی امتیازی خصوصیات سامنے آجاتی ہیں۔ تاریخ عالم پر مولانا کی نظر کس قدر گہری تھی اور اس سے وہ کس طرح زندگی کے مختلف شعبوں اور مختلف موقعوں میں کام لیتے تھے۔ اس کی واضح مثال ان کا وہ بیان ہے جو انھوں نے عدالت کے کٹہرے میں دیا تھا اور جو قول فیصل کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔ عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔ ہم اس میں حضرت مسیحؑ جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کی طرح کھڑے کیے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیے زہرکا پیالہ پینا پرا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلارنس کے فداکار حقیقت گلیگلیو کا نام بھی ملتا ہے’’۔
قدیم تاریخ و تہذیب سے متعلق مولانا آزاد کا سب سے اہم تاریخی کارنامہ ترجمان القرآن میں اصحابِ کہف، رقیم اور ذوالقرنین سے متعلق تحقیقات ہیں، غالباً مولانا آزاد پہلے مفسر ہیں جنھوں نے ان تاریخی مباحث پر جدید اثری تحقیقات اور اکتشافات کی روشنی میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے۔
قرآن پاک میں اصحابِ کہف کے واقعہ کا ذکر ہے لیکن یہ تعیین نہیں کہ اصحابِ کہف کا واقعہ کہاں پیش آیا اور رقیم سے کیا مراد ہے؟ کہف کے سلسلے میں مفسرین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ بعض ایک پہاڑی کہہ کر گزر گئے ہیں اور بعض نے محض کسی پہاڑ کے نام پر اکتفا کر لیا ہے لیکن یہ سوال کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا، حل نہیں ہو سکا۔ مولانا آزاد نے ایک طویل مؤرخانہ بحث کی ہے اور جدید تحقیقات کی روشنی میں ثابت کیا کہ عمان کے قریب جو پہاڑیاں واقع ہیں ان میں بے شمار کہف یعنی غار ہیں، اس میں ایک ایسا کہف بھی ہے جو قرآن پاک کے بیانات کے مطابق ہے۔
اسی طرح الرقیم کی بھی بحث ہے، بعض ائمہ تابعین نے اسے ایک شہر بتایا تھا لیکن چونکہ عام طور سے اس نام کا کوئی شہر موجود نہ تھا اس لیے بعض مفسرین نے اس کی طرح طرح سے تاویل و توجیہ کی۔ بعض نے اس کا مطلب کتاب سے نکالا تو بعض نے اس سے کتبہ اور کتابت کا مفہوم متعین کیا مگر مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ:
‘‘اگر انھوں نے تورات کی طرف رجوع کیا ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ رقیم وہی لفظ ہے جسے تورات میں راقیم کہا گیا ہے اور یہ فی الحقیقت ایک شہر کا نام ہے جو آگے چل کر پٹرا (Petra) کے نام سے مشہور ہوا اور عرب اسے بطرا کہنے لگے۔
مولانا آزد نے یہاں بھی جدید اثری تحقیقات کا سہارا لیا ہے اور مفصل بحث و تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ رقیم سے مراد ایک شہر ہے جو پٹرا کے نام سے معروف ہے۔ اصحابِ کہف کا واقعی اسی شہر میں پیش آیا تھا اور قرآن پاک نے صاف صاف اسی شہر کا ذکر کیا ہے۔
دوسری اہم تاریخی بحث ذوالقرنین ہے۔ ذوالقرنین کون تھے یہ ایک اہم سوال ہے۔ قدیم مفسرین نے ذوالقرنین کا مطلب دو سینگوں والا لیا، لیکن تاریخ میں دو سینگوں والے کسی بادشاہ کا سراغ نہیں ملا، تو انھوں نے طرح طرح کے تکلفات برتے، فتوحات کی وسعت اور حکمرانی کے لحاظ سے ان کے معیار پر سکندر مقدونی پورا اُترا تو اسی کو ذوالقرنین قرار دے دیا حتیٰ کہ امام رازی نے بھی اس کو ذوالقرنین لکھا ہے مگر مولانا آزاد نے اس کے برعکس ایک طویل مؤرخانہ بحث و تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سکندر مقدونی ذوالقرنین ہو ہی نہیں سکتا ہے کیوں کہ قرآن نے جس ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے وہ ایک خدارسیدہ، نیک صفت اور خدا ترس بادشاہ تھا جب کہ سکندر مقدونی کی شخصیت ان صفات سے عاری بلکہ اس کے برعکس تھی۔ پھر مولانا آزاد نے قدیم تاریخ، کتب آسمانی، جدید اثری تحقیقات اور قرآن پاک سے دلائل و شواہد پیش کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اصلاً ذوالقرنین سے مراد ایران کا ایک نیک خصلت اور عظیم المرتبت بادشاہ سائرس (Syrus) کیخسرو تھا۔ مولانا آزاد نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سائرس ہی کا لقب ذوالقرنین تھا اور اس میں قرآن پاک کی بیان کردہ تمام خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔
اس طویل تاریخی بحث میں مولانا آزاد نے ایک مشاق مؤرخ کی طرح بحث کی ہے ،مستند دلائل دیئے ہیں اور مستند ماخذوں سے استناد کیا ہے۔ کتب آسمانی اور قدیم مؤرخین مثلاً ہیروڈوٹس وغیرہ کے بیانات اور ان کی صداقت کا بھی جائزہ لیا ہے۔ تاریخ نگاری کے اصولوں میں مآخذ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مولانا نے اس کا بڑا خیال رکھا ہے۔ اسی طرح واقعات کے تسلسل کو باقی رکھنے اور ان میں باہمی ربط پیدا کرنے کے لیے قیاس اور استنباط سے بھی مؤرخ کام لیتاہے۔ مولانا آزاد نے بھی اس اصول کی پوری طرح پاسداری کی ہے مثلاً یہ کہ اصحابِ کہف کے واقعہ کی عربوں میں بڑی شہرت تھی اور چونکہ ان کے ذرائع و وسائل معلومات محدود تھے اس لیے امکان ہے کہ یہ واقعہ کہیں قریب ہی میں پیش آیا ہوگا۔ مولانا نے اور بھی دلائل دیئے ہیں مثلاً وہ لکھتے ہیں:
‘‘اول تو خود یہ مقام (بطرا) عرب سے قریب تھا یعنی عرب کی سرحد سے ۶۰، ۷۰ میل کے فاصلے پر تھا۔ ثانیاً نبطیوں کی وہاں آبادی تھی اور نبطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے رہتے تھے۔ یقینا نبطیوں میں اس واقعہ کی شہرت ہوگی اور ان ہی سے عربوں نے سنا ہوگا۔
خود قریش مکہ کے تجارتی قافلے بھی ہرسال شام جایا کرتے تھے اور سفر کا ذریعہ وہی شاہراہ تھی جو رومیوں نے ساحل خلیج سے لے کر ساحل مارمورا تک تعمیر کردی تھی۔ پیٹرا (بطرا) اسی شاہراہ پر واقع تھا بلکہ یہ اس نواح کی سب سے پہلی تجارتی منڈی تھی اس لیے اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ واقعہ ان کے علم میں آگیا ہو’’۔
ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل یہ پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا نے جس طرح قدیم تہذیبوں کا مطالعہ و جائزہ پیش کیا ہے اور جس طرح دلائل و شواہد پیش کر کے نتائج اخذ کیے ہیں وہ ان کی بلندپایہ تاریخی بصیرت کی غمازی کرتے ہیں۔ مولانا سعیداحمد اکبرآبادی کے الفاظ میں: ‘‘مولانا نے اس بحث میں ایک بلندپایہ مؤرخ کا رول ادا کیا ہے’’۔
اس جائزے کے بعد جناب ابوسلمان شاہجہاں پوری کی یہ رائے یقینا مبالغہ نہیں معلوم ہوگی کہ تاریخِ عالم کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک پہلو پر مولانا کی نظر تھی۔
مولانا آزاد کی شخصیت تاریخ داں سے بڑھ کر تاریخ ساز کی تھی۔ اس بات کا خود ان کو بھی کسی قدر احساس تھا۔ اس کو بعض لوگوں نے گو اچھی تعبیر نہ دی لیکن یہ واقعہ ہے کہ وطن کی آزادی، سالمیت اور اس کی ترقی کے لیے انھوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے حرفوں میں لکھے جائیں گے۔ انھیں اپنے وطن کے ذرے ذرے سے پیار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اپنے وطن کی تاریخ بھی بے حد عزیز ہے اور وہ اس کی قدیم و جدید تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ اپنی بعض تحریروں میں انھوں نے ہندوستان کی قدیم تہذیب کا بعض دوسری قدیم تہذیبوں سے موازنہ و مقابلہ بھی کیا ہے اور اس میں بھی وطنی عظمت کا جذبہ ان پر حاوی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ موہن جداڑو تہذیب کا جنوبی ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کی تہذیب سے موازنہ ضروری ہے ۔ ان کو احساس تھا کہ اسلامی دنیا کو قدیم ہندوستان کی تاریخ و تہذیب، فلسفہ، ادب اور ادیان کی کچھ خبر نہیں بلکہ وہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ سے بھی ناواقف ہے۔
چنانچہ انہوں نے قدیم و جدید ہندوستان کی تاریخ سے اسلامی دنیا کو روشناس کرانے کے لیے ایک مجلس قائم کی اور اس کی طرف سے رسالہ‘ ‘ثقافۃ الھند’’ جاری کیا۔ اس نوعیت سے اس رسالے نے متعدد مضامین شائع کیے۔ ثقافۃ الھند میں عہد مغلیہ سے متعلق کئی نادر تصویریں شائع ہوئی ہیں جن پر مولانا آزاد کے قلم سے وضاحتی نوٹ ہیں۔ چونکہ ان سے مولانا آزاد کی تاریخی بصیرت کے ساتھ فن مصوری میں ان کی مہارت کا بھی پتا چلتا ہے اس لیے ان کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ ثقافۃ الھند میں جہاں گیر کی ایک تصویر شائع ہوئی ہے۔ اس کے وضاحتی نوٹ میں مولانا آزاد لکھتے ہیں:
‘‘مغل عہد کے فن مصوری کا یہ نہایت شاندار نمونہ ہے۔ اس میں جہانگیر کو حالت سفر میں دکھایا گیا ہے۔ سامنے اس کے والد شہنشاہ اکبر کا مقبرہ ہے اور وہ گھوڑے پر سوار اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہے۔ اس کے جلو میں اعیان و امرا ہیں اور عقب میں ایک فوجی دستہ، اس کے سامنے ایک نوجوان ننگے سر عجز وانکسار کی حالت میں کھڑا ہے اور نوجوان اس کے پیچھے ایک شخص ایسی ہیئت میں نمایاں ہے گویا وہ نوجوان کو بحیثیت مجرم اور قیدی کے پیش کر رہا ہو، مرقع میں جن جن آدمیوں کی صورتیں دکھائی گئیں ہیں سب حقیقی ہیں یعنی جو آدمی اس موقع پر جس وضع اور لباس میں موجود تھے۔ انھیں اسی طرح مصور نے نمایاں کیا ہے’’۔
یہ تصویر کس موقع کی ہے، یہ عقدہ ناحل شدہ تھا کیوں کہ ‘‘تزک جہانگیری’’ میں جہانگیر نے دو مرتبہ اپنے والد کی قبر کی زیارت کا ذکر کیا ہے۔ ان دونوں مواقع کی یہ تصویر نہیں ہے کیوں کہ ان دونوں سفروں میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جب کہ کسی مجرم کو اس کے سامنے پیش کیا گیا ہو۔ تصویر میں جہانگیر گھوڑے پر سوار ہے، پہلی بار جہانگیر گھوڑے پر گیا ہی نہیں تھا جب کہ دوسری بار گھوڑے پر ضرور گیا تھا مگر کسی مجرم کے پیش کرنے کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ مولانا آزاد نے اس تصویر پر ایک مضمون لکھ کر تصویر کا ناحل شدہ معمہ حل کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس تصویر کا مطلب حل کرنے میں دقت اس لیے پیش آئی کہ فرض کر لیا گیا کہ جہانگیر جب اکبر کے مقبرے کی زیارت کے لیے گیا اسی وقت کا منظر اس تصویر میں دکھایا گیا ہے اور چونکہ وہ زیارت کے لیے صرف دو مرتبہ گیا اور دونوں موقعوں پر گرفتاری کا واقعہ پیش نہیں آیا اس لیے یہ تصویر معمہ بن کر رہ گئی ہے اور اس کا مطلب حل نہیں ہوا، دراصل اس تصویر کا تعلق اس موقع سے ہے جب جہانگیر کی تخت نشینی کے پہلے سال اس کا بیٹا خسرو بقصد بغاوت قلعہ آگرہ سے نکل کر پنجاب کی طرف بھاگا ہے اور جہانگیر اس کے تعاقب میں نکلا ہے۔ مولانا آزاد نے اپنے دعوے کے ثبوت میں تزک جہانگیری سے یہ اقتباس بھی پیش کیا ہے۔
‘‘آٹھ ذی الحجہ یک شنبہ کی رات خسرو قلعہ سے نکلا اور تین سو پچاس سواروں کے ساتھ جنھیں اس نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ کسی جانب روانہ ہوگیا، پہلے میں نے شیخ فرید بخشی بیگی کو اس کے تعاقب میں روانہ کیا۔ پھر صبح کے وقت متوکلاً علی اللہ بغیر کسی خاص سروسامان کے خود بھی روانہ ہوگیا جب میں سکندرا پہنچا تو میں نے چاہا کہ والد بزرگوار کی روحانیت سے استمداد چاہوں، چنانچہ ان کے روضۃ منورہ پر حاضر ہوا۔ اسی اثناء میں کچھ لوگ مرزا حسن پسر مرزا شاہ رُخ کو پکڑے ہوئے قریہ سکندرا سے لائے اور عرض کیا کہ یہ بھی خسرو کی ہمراہی کا فیصلہ کرچکا تھا اور اس کے پیچھے روانہ ہونے والا تھا، جب یہ بات ہمیں معلوم ہوئی تو ہم نے اسے روک لیا، میں نے مرزا حسن سے پرسش کی تو وہ انکار کی جرأت نہ کرسکا۔ میں نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ باندھ کر اسے ہاتھی پر سوار کیا جائے’’۔
پھر مولانا آزاد لکھتے ہیں:
‘‘جہانگیر کی اس تصریح نے اس تصویر کا پورا مطلب حل کر دیا، مصور نے اس موقع کی تصویر کھینچی ہے جب جہانگیر اپنے والد اکبر کے مقبرے کے سامنے پہنچا ہے اور کچھ لوگ مرزا حسن کو پکڑے ہوئے لائے، جہانگیر نے گھوڑے کی لگام روک لی اور صورت حال دریافت کی، مرزا حسن سر جھکائے کھڑا ہے اور اس کو گرفتار کرنے والا اس کے پیچھے ہے، مرزا حسن کی حالت بتلا رہی ہے کہ اسے بے خبری کی حالت میں اچانک گرفتار کیا گیا ہے، سر برہنہ ہے گویا اس کی بھی اسے مہلت نہ ملی کہ سر پر پگڑی رکھ لیتا۔
اس بحث کے علاوہ مولانا آزاد کے متعدد مضامین بھی ان کی تاریخی بصیرت کا نمونہ ہیں، سرمد پر انھوں نے جو مضمون لکھا وہ نہ صرف تاریخ کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے بلکہ انھیں ایک دیدہ ور مؤرخ کی حیثیت بھی عطا کرتا ہے، سرمد کی شہادت ایک بڑا تاریخی واقعہ ہے۔ مولانا آزاد نے اس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر ان کے حالات و واقعات تاریخ و تذکرہ کی قدیم کتابوں سے ڈھونڈ کر قلم بند کیے، سرمد پر قلم اُٹھانا اس لحاظ سے بڑا دشوار تھا کہ ان کا تذکرہ عام طور سے مؤرخین نے نہیں کیا ہے۔ مولانا آزاد نے عہد عالم گیری کی تمام تاریخوں کو کھنگال ڈالا اور ریزہ ریزہ جمع کر کے مقالے کی صورت دی۔ اس کی تفصیل پیش کرتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں:
‘‘عہد عالمگیری اور اس کے بعد جس قدر فارسی تذکرے لکھے گئے۔ ان میں بالعموم سرمد کے عنوان سے چند سطریں ملتی ہیں، لیکن اول تو قدیم تذکروں کے حالات اس قدر مختصر اور ناکافی ہوتے ہیں کہ اگر زندگی میں ان کے نام خطوط لکھتے جاتے تو لفافے کے لیے پورا پتہ بھی میسر نہ آتا اور پھر جو کچھ ہوں دقت یہ ہے کہ اس وقت سامنے نہیں۔ میں نے عہد عالمگیری کی تاریخوں کو دیکھا کہ شاید حوادث و واقعات کے ضمن میں کچھ حالات مل جائیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پولٹیکل عاقبت اندیشوں نے قلم کو روک لیا تھا، مرزا محمد کاظم نے عالم گیر کے حکم سے تمام سوانح و حالات بقید سنین قلم بند کرنے شروع کیے لیکن صرف دس سال ہی کے حالات لکھے تھے کہ حکماً یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد شاہ عالم کے عہد میں نواب عنایت اللہ کا خیال تکمیل ہوا، اس کے اشارہ سے مستعد خاں نے بقیہ چالیس کے سوانح قلم بند کیے اور ابتدائی دہ سالہ مجموعہ کا انتخاب شامل کر کے مآثر عالم گیری نام رکھا، میں نے ۱۰۱۷ھ کے حالات کے ورق گردانی کی کہ یہی سرمد کی شہادت کا سنہ ہے مگر حالات کا ملنا ایک طرف معلوم ہوتا ہے کہ پوری مستعدی کے ساتھ تاریخ کے صفحوں کو بچایا گیا ہے کہ اس شہید عشق کے جامۂ خوچکاں کی قطرہ افشانی سے حاشیہ پر کہیں دھبے نہ پڑ جائیں۔ لطف یہ ہے کہ اسی سال شاہ عباس ثانی اور حسین پاشا رومی کے سفرا آئے تھے۔ ان کے حالات کی سطریں صفحے کی انتہا تک پہنچ کر بھی آگے بڑھنے سے نہیں رُکتیں، خیر یہ حالات بھی کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتے تھے۔ طرہ بریں یہ کہ اس سال نواح دہلی میں کہیں چند لڑکے شاہ و وزیر کی نقل کھیل رہے تھے۔ ان میں ایک کوتوال اور ایک مجرم بھی تھا، مصنوعی کوتوال نے غیظ و غضہ میں آکر مصنوعی مجرم کو اصلی سزا دے دی۔ نصف صفحے کے قریب اس حادثۂ عظیم اور داستان اہم کی نذر ہوگیا۔ مؤرخ کی نظر کا جب یہ حال ہو تو ظاہر ہے کہ ایسے قصوں کے ہجوم میں سرمد بے چارے کی نعش کیوں کر نظر آتی۔
خافی خان کے منتخب اللباب عہدمغلیہ کی مشہور ترین تاریخ ہے جس نے اورنگ زیب کے حالات اس تفصیل سے لکھے ہیں کہ گویا صرفی ہی زمانہ موضوع کتاب ہے۔ قیاس کہتا تھا کہ اس نے یہ واقعہ نظرانداز کردیا ہوگا کیوں کہ عالم گیری عہد کا قلم اس کے ہاتھ میں نہ تھا جس کو ہرقدم پر روک دیئے جانے کا اندیشہ ہو، مگر جب اسے کھولا تو ہزار صفحے کے سوانح میں ایک لفظ بھی سرمد کی نسبت نہ تھا۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا راز مؤرخ کا قلم ہے۔ آج کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی باگ میں کتنی گرہیں ڈال دی گئیں تھیں۔(۳۰)
اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا آزاد نے عہدوسطیٰ کی تاریخ اور مؤرخین کا کس قدر باریکی سے جائزہ لیا تھا۔ تاریخِ ہند کے مآخذ کے سلسلے میں ان کی یہ رائے قابلِ ذکر ہے کہ محض فارسی تاریخوں سے استفادہ غوروفکر اور زاویۂ نظر کو محدود کردے گا، اس لیے عربی مآخذ سے بھی استفادہ لازمی ہے۔
عہد وسطیٰ کی تاریخ داراشکوہ اور عالم گیر کی باہمی معرکہ آرائیوں کی وجہ سے مؤرخین کی خاص دلچسپی اور توجہ کا مرکز رہی ہے۔ کسی نے داراشکوہ کو حق بجانب اور کسی نے عالم گیر کو سراپا عادل و منصف ثابت کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اصول تاریخ نویسی کی رُو سے یہ جانب داریاں صحیح طرزِعمل نہیں قرار دی جاسکتیں۔ مولانا آزاد اس معاملہ میں داراشکوہ کے طرفدار نظر آتے ہیں جب کہ مشہور مؤرخ علامہ شبلی عالمگیر پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ غالباً یہ ان چند پہلوؤں میں سے ایک ہے جہاں شبلی و ابوالکلام کے افکار و خیالات میں تفاوت نظر آتا ہے۔
مولانا آزاد نے کچھ ایسی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن پر ان کے قلم سے حواشی اور فٹ نوٹ ہیں۔ جناب سید مسیح الحسن صاحب نے ان کو حواشی ابوالکلام کے نام سے کتابی صورت میں مرتب کردیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے زیرمطالعہ مختلف زبانوں اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں رہا کرتی تھیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد تاریخ و تذکرہ کی کتابوں کی بھی ہے، چند کے نام یہ ہیں:
خزانۂ عامرہ، مآثر الکرام، (دو جلدیں) مرأۃ الخیال، مضامین عالمگیر، منتخب التواریخ، تزک جہانگیری، تاریخ پنجاب، تحفۃ الاحباب، مآثر الامرا، سیرالمتاخیرین، رقعاتِ عالم گیر، سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان، تجارب الامم، سخن دان فارس، تذکرۃ الشعرا وغیرہ۔
یہ ان کتابوں کی سرسری فہرست ہے جن پر مولانا آزاد کے حواشی یا نوٹ ہیں۔ اس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ انھوں نے تاریخی کتابوں سے کس قدر شغف و انہماک رکھا۔ البتہ ان سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ تاریخ کی ہر طرح کی کتابیں ان کے زیرمطالعہ ہیں۔
مولانا آزاد نے جو حواشی لکھے ہیں وہ اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ ان میں بعض غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بعض میں نقطۂ نظر کا اختلاف ہے۔ واقعات تاریخ کے سلسلے میں بعض مفید مشورے ہیں۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے ان کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں۔ یہاں علامہ شبلی کی کتاب مضامین عالمگیر کے حواشی کا اس پس منظر میں ذکر کیا جاتا ہے کہ اس سے مولانا آزاد کی تاریخی بصیرت اور تاریخ ہند، اور عالم گیر کے سلسلے میں ان کے مؤقف کی وضاحت ہوتی ہے۔
عالم گیر اور شیوا جی کی معرکہ آرائی میں بالآخر شیواجی مغلوب ہوا اور دربار میں آیا۔ عالمگیر نے اس کے استقبال کے لیے اپنے دو عہدے داروں کو بھیجا، پنج ہزاری منصب دیا جس سے وہ مطمئن نہیں ہوا۔ بعض یورپین مؤرخین عالمگیر پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے شیواجی کا شایانِ شان استقبال نہیں کیا۔ علامہ شبلی نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ:
‘‘شیواجی کی اطاعت کا سلطنت پر کیا احسان تھا؟ شاہی فوجوں نے اس کے تمام علاقے فتح کرلیے تھے۔ وہ قلعہ میں چاروں طرف سے گھر چکا تھا۔ اس کے خاص صدر نشیں قلعے کے برجوں پر شاہی فوج کا پھریرا اڑ چکا تھا۔ ان مجبوریوں سے وہ ہتھیار رکھ کر غلاموں کی طرح آیا اور دربار میں روانہ کیا گیا، تاہم اس کے استقبال کے لیے عالمگیر نے دربار میں سب سے زیادہ جو شخص موزوں ہوسکتا تھا اس کو بھیجا۔ پنج ہزاری امرا کی صف میں جو خود راجہ جے سنگھ کا منصب تھا اس کو جگہ دی۔ اس سے زیادہ وہ اور کیا چاہتا تھا؟ کیا شہنشاہ ہند ایک مفتوح رہزن کے لیے تخت سے اُتر آتا؟ بے شبہ یورپ اس قسم کی جھوٹی اور مکارانہ خوشامدوں کی مثالیں پیش کرسکتا ہے لیکن اسلام سے اس کی توقع نہیں رکھنی چاہیے’’۔
یہاں عالمگیر اور شیواجی کی بحث میں اسلام کو لانا یقینا قابلِ اعتراض ہے۔ چنانچہ مولانا آزاد نے یہ لکھ کر کہ ‘‘گویا اعمالِ عالم گیر اعمالِ نفس اسلام تھے’’، انتہائی لطیف پیرائے میں شبلی پر تنقید کی ہے۔
شیواجی کے بیٹے سنبھاجی کی باغی کارروائیوں کے خلاف کارروائی ہوئی اور وہ گرفتار کیا گیا اور چونکہ جب وہ دربار میں لایا گیا تو اس نے عالم گیر کو رو در رو سخت گالیاں دیں اس لیے عالم گیر نے اس کی زبان کاٹنے کا حکم دیا اور پھر آنکھیں نکلوا کر قتل کرا دیا۔ علامہ شبلی نے عالم گیر کی پچاس سالہ حکومت میں اسے ایک مستثنیٰ واقعہ قرار دیا ہے۔ مولانا آزاد اس سے اتفاق نہیں کرتے اور طنزاً لکھتے ہیں:
‘‘اگرچہ عرق پوست پلا پلا کر زندانیان گوالیار کو ہلاک کرتا رہا، اسلام نے تو ہرحال میں مثلہ کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ مقدس ولی مغلوب و محکوم دشمن کی زبان کٹواتا ہے اور آنکھیں نکلواتا ہے’’۔
سنبھا کے ساتھ اس کی ماں اور بیٹا ساہو بھی گرفتار ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ عالمگیر نے بڑا حسنِ سلوک کیا۔ ہفت ہزاری منصب اور راجہ کا خطاب دیا۔ اس کی سرکار بھی قائم کی، اس کا خیمہ شاہی خیمے کے ساتھ ایستادہ کرایا۔ مولانا آزاد کا خیال ہے کہ ‘‘کیا اس سے الفنسٹن کے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوتی کہ عالمگیر نے مرہٹوں کے ساتھ بالآخر وہ کیا جو ان کی توقع سے زیادہ تھا۔ اگر سخت مجبوری نہ ہوتی تو اس درجہ تالیف قلب ممکن نہ تھی۔
راجہ جسونت سنگھ نے کئی بار وفاداریاں تبدیل کیں اور ہر بار عفو و درگزر کی درخواست دربارِ عالم گیر میں منظور ہوئی۔ اس کی موت کے بعد راجپوتوں نے اس کے یک ماہہ بچے کو راجہ بنانے کی مانگ کی اور دربار کے جواب سے پہلے ہی اس کو لے کر فرار ہوگئے۔ شبلی نے اس پوری بحث میں عالم گیر کو حق بجانب ٹھہرایا ہے مگر مولانا آزاد نے یہ سوال کیا ہے کہ ‘‘اگر کوئی مخالفانہ عزم و عمل عالم گیر نہ تھا تو کارپردازانِ جسونت سنگھ نے بچوں کو کیوں حوالہ نہیں کیا اور ابتدا سے مخالفانہ رویہ کیوں دکھلایا؟
داراشکوہ کے بارے میں علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ وہ علانیہ ہندوپن کا اظہار کرتا تھا۔ اپنشد کے ترجمہ میں اس نے لکھا ہے کہ قرآنِ مجید میں اپنشد ہے۔ اس عبارت میں علامہ شبلی کو الحاد نظر آتا ہے۔ مولانا آزاد کو اس سے اتفاق نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس میں کیا الحاد ہے۔ اگر اپنشد سرچشمۂ بحرتوحید بقول داراشکوہ ہے اور مطالب قرآن سے متحد تو یقینا وما اُنزل من قبلک میں داخل ہے اور قرآن مثل تورات و انجیل اس کا مصداق ۔
یہاں تعجب ہوگا کہ جس بات میں شبلی کو الحاد نظر آتا ہے اس میں انھی کے تربیت یافتہ مولانا آزاد کو کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔
عالم گیر نے اپنے عہد میں میلوں ٹھیلوں کو حفاظتی نقطۂ نظر سے بندکرا دیا تھا، تابوت نکالنے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ مولانا آزاد نے شرعی نقطۂ نظر سے یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ ‘‘ہندوؤں کے مذہبی میلوں کو بند کرنے کا شرعاً و قانوناً اس کو کوئی حق نہ تھا۔ مذہبی و اخلاقی اصلاح صرف مسلمانوں کے لیے تھی نہ کہ ذمیوں کے لیے۔
علامہ شبلی نے مآثر عالمگیری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے استناد انھی مقامات پر کیا جائے گا جہاں دوسرے مؤرخین اس کے ہم زبان ہیں ۔ مگر انھوں نے ہندوؤں کی ملازمت سے برطرفی کے معاملہ میں مآثر عالمگیری سے استناد کیا ہے۔ مولانا آزاد کی نظر یہاں کیسے چوک سکتی تھی چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ ‘‘اب انکار واقعہ سے پہلے تصدیق و عدمِ توثیق صاحب مآثر کا مسئلہ طے کرنا چاہیے۔
علامہ شبلی نے عالم گیر کی بت شکنی اور ہندوؤں سے تعلقات پر طویل بحث و تحقیق کی ہے۔ اس سلسلہ میں الفنسٹن کی تردید بھی کی ہے اور واضح کیا ہے کہ عالمگیر کی تخت نشینی سے پہلے ہندوؤں نے بہت زور پکڑ لیا تھا۔ عالم گیر نے ان کو روکنا چاہا تو شورش برپا ہوئی۔ علامہ شبلی کے اس موقف کے بارے میں مولانا آزد نے لکھا ہے کہ ‘‘کیا لطف کی بات ہے کہ ایک طرف الفنسٹن کا رد کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو عالمگیر سے کوئی پرخاش نہ ہوئی۔ دوسری طرف شورش و مخالفت عامہ کا اقرار بھی اور یہ بھی کہ تقرر جزیہ سے ہندو بگڑ اُٹھے تھے۔
عالم گیر کی بت شکنی کے علامہ شبلی نے متعدد اسباب بیان کیے ہیں۔ مثلاً ہندوؤں نے بعض مسجدوں پر قبضہ کرلیا اور مسلمان عورتوں کو جبراً اپنے گھروں میں دخل کرلیا۔ اپنے مذہبی علوم کی مسلمانوں کو جبری تعلیم دینے لگے تھے۔ عالم گیر نے ان دست درازیوں کو روکنا چاہا تو شورش برپا ہوئی۔ مجبوراً عالم گیر کو فوج کشی کرنی پڑی، مگر مولانا آزاد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں: گویا یہ بھی جرم تھا اور اس کا انسداد ایک منصف گورنمنٹ کے لیے ضروری تھا؟ مصنف اس سے بالکل بحث نہیں کرتا کہ ہندوؤں کی شورش کے اصل اسباب کیا تھے۔
علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ جب ہندوستان میں امن و امان قائم ہوگیا تو کوئی ایک بھی بت خانہ منہدم نہیں کیا گیا۔ مولانا آزاد نے اس موقف پر چوٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘‘اس لیے کہ عالم گیر نے نتائج دیکھ لیے اور مرہٹوں کی شورش نے مزید مہلت نہ دی’’۔
شاہجہاں کے بیمار ہونے کے بعد داراشکوہ نے حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے، مراد اور عالم گیر کے وکلا کو نظربند اور ان کا مال ضبط کرلیا تھا۔ یہ واقعات شبلی نے مآثر عالمگیری سے نقل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا آزاد کا خیال ہے کہ ‘‘اس کی تصدیق اور کسی ذریعہ سے نہیں ہوتی اور پہلے دعویٰ کیا گیا ہے کہ عالم گیر نامہ اور مآثر عالم گیری سے استشہاد نہ کیا جائے گا، الاتبعاً۔
مولانا آزاد نے ایک دو جگہ واضح طور پر علامہ شبلی کی تاریخ نگاری پر تنقید کی ہے مثلاً علامہ نے لکھا ہے کہ دارشکوہ نے یہ مشق بہم پہنچائی تھی کہ شاہجہاں کے خط سے اپنا خط ملا دیتا تھا اور فرامین پر شاہجہاں کے دستخط اپنے ہاتھ سے بناتا تھا ۔ اس اقتباس کے حاشیہ میں مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ کیا منصفانہ تاریخ نویسی ہے کہ مراد جو خود ایک فریق ہے اور داراشکوہ کا دشمن اس کے قول کی سند لائی جاتی ہے ۔ اسی طرح مراد اور عالم گیر کے تعلقات اور پھر مراد کے خاتمہ پر علامہ شبلی نے جو بحث کی ہے مولانا آزاد اس پر بھی نکتہ چیں ہیں وہ لکھتے ہیں:
‘‘مصنف نے اس ٹکڑے کو بالکل نظرانداز کر دیا کہ شجاع و مراد کی یہ حالت اورنگ زیب کے تخلف عہد کے بعد ہوئی یا پہلے، برنیئر اور عاقل خاں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ورود آگرہ کے بعد اورنگ زیب نے بالکل رنگ بدل دیا، مراد کو بیرونِ شہر چھوڑا۔ خود شاہانہ طمطراق سے آگرہ میں داخل ہوا تو اس وقت مراد سے بے دلی کے آثار ظاہر ہوئے’’۔
علامہ شبلی کا خیال ہے کہ اورنگ زیب نے مراد کے معاملہ میں شمشیر کے بجائے تدبیر سے کام لیا اگر وہ تدبیر کے بجائے شمشیر سے کام لیتا تو ہم اس کی زیادہ تعریف کرتے۔ انھوں نے منصور عباسی کی مثال بھی پیش کی ہے۔ مولانا آزاد نے اس موقف پر بڑی سخت چوٹ کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
‘‘جس شخص کی زبان پر ہمیشہ قال اللہ اور قال الرسول ہو اور شریعت اور حفظ دین کے دعوؤں سے تمام فرامین و مراسلات مملو ہوں۔ اس کا دعویٰ منصور عباسی کے ہمتا ہونے کا یقین نہیں ہوگا بلکہ خلفائے راشدین کا’’۔
علامہ شبلی نے مراد کے خطوط کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ داراشکوہ کے خلاف جنگ میں مراد نے پہل کی تھی عالم گیر نے اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ بضد رہا۔ مولانا آزاد اس سے بھی متفق نہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ‘‘عالم گیر مراد کو روک رہا تھا تو اس سے مصنف کو کوئی فائدہ نہیں، اس روک سے مقصد یہ تھا کہ مراد عالم گیر سے بازی نہ لے جائے۔
علامہ شبلی نے اپنی کتاب میں عالم گیر کی ذاتی خوبیوں کو بھی بیان کیا ہے مگر مولانا آزاد اسے سرکاری احکام کی نقل اور بے سود بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ‘‘شخصی حکمرانوں کے اوصاف و مناقب میں ان کی سرکاری تاریخوں سے محض احکام نقل کر دینا بے سود ہے۔ اصل چیز واقعات میں عملاً و فعلاً انصاف ہے۔
ان حواشی سے اگرچہ داراشکوہ کی طرفداری صاف ظاہر ہوتی ہے، تاہم خود اورنگ زیب کی کردار کشی میں انگریز مؤرخوں اور سیاحوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی مولانا آزاد کی نظر سے پوشیدہ نہ تھا، چنانچہ انھوں نے لکھا ہے:
‘‘مغربی سیاحوں اور مؤرخوں کے ملمع کار اور پُراز تاثر قلم نے جن عجیب چالاکیوں سے اورنگ زیب کی فرضی تصویر کھینچی ہے کہ وہ دنیا کے اس متمدن ترین خطے کے قلمی فریبوں کی فہرست میں ہمیشہ نمایاں رہے گی’’۔
مولانا آزاد کے متعدد خطوط میں بھی تاریخی مباحث موجود ہیں، ظاہر ہے خطوط میں وہ مباحث ہی ہوں گے جو بلاکسی تدقیق کے مطالعہ و حافظہ کے رہینِ منت ہوتے ہیں۔ یہاں اسے اس غرض سے نقل کیا جاتا ہے کہ اسے پورے طور پر ان کے مؤرخانہ شعور کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ٹیپوسلطان شہید اور ان کے عہد کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں ان سے کس قدر واقف تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ غلام رسول مہرؔ نے ٹیپو سلطان کی تاریخ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس سے متعلق مولانا آزاد سے تفصیل دریافت کی۔ اس کے جواب میں مولانا آزاد نے جو خط لکھا ہے اس سے حیدرعلی اور ٹیپوشہید کی تاریخ کے بارے میں چند اہم اور بنیادی تاریخی مآخذ کا پتہ چلتا ہے، ان سے فارسی کے علاوہ انگریزی اور فرنچ کتابوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے، مولانا آزاد لکھتے ہیں:
‘‘ٹیپو سلطان کی جس کتاب کا ذکر کیا تھا تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ وہی کتاب ہے جس میں فرنچ قواعد جنگ کو فارسی میں منتقل کیا گیا ہے، حیدر اور ٹیپو کے لیے جن انگریزی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے غالباً وہ آپ نے جمع کر لی ہوں گی، چارلس اسٹیورٹ کی ‘‘میموئرس آف حیدر علی اینڈ ہنرسن’’ کرنل بیٹسن کی ‘‘اے ریویو آف دی اوریجن اینڈ کنڈکٹ آف دی واؤتھ ٹیپو’’ اور ‘‘این آفیسر ان دی ایسٹ انڈیا کمپنیز سروس’’ کی اتھینٹک میموئرس آف ٹیپو، دوسری اور آخری جنگ کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور کتب خانوں میں مل سکتی ہیں۔ ایک فرنچ افسر ایم ایم ڈی ایل ٹی نے حیدرعلی کے حالات ۱۷۸۱ء میں لکھے تھے اور لندن میں شائع کیے تھے۔ پرنس غلام محمد نے اس کی نقل کلکتہ میں چھپوا کر غدر سے پہلے شائع کی تھی۔ حیدرعلی کے لیے یہ سب سے بہتر کتاب ہے۔ ان کے علاوہ اس عہد کے سرکاری ڈسپیچوں کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو شائع ہوچکے ہیں خصوصاً لارڈ کارنوالس اور ویلزلی، کے والٹر ہیملٹن کے ایسٹ انڈیا گزٹ کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔ لیفٹیننٹ کرنل مارکس ویلکس کی ہسٹری آف میسور میں بھی حیدر اور ٹیپو کی جنگوں کی تفصیلات مل سکتی ہیں۔
فارسی کتابوں میں صرف تین کتابیں قابلِ اعتنا ہیں۔ لالہ کھیم نرائن کی فتوحاتِ حیدری، حسین علی کرمانی کی نشانِ حیدری اور مولوی عبدالرحیم کی کارنامہ حیدری۔ پہلی دو کتابیں شائع نہیں ہوئی، لیکن مولوی عبدالرحیم کے پیش نظر تھیں، ان کا تمام ضروری حصہ انھوں نے اپنی کتاب میں لے لیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نقل کرلیا ہے۔ اس میں حیدرعلی کے خاندان کو عربی اور شاہی خاندان بنادینے کے لیے جو کہانی لکھی گئی ہے وہ یقینا فرضی ہے، لیکن عام حالات ضرور مستند سمجھے جائیں۔
ٹیپو سلطان کے خاندان کے قبضے میں چند کتابیں اور بھی تھیں۔ یہ لوگ چونکہ والد مرحوم کے مرید تھے اس لیے اکثر گھر میں آتے رہتے اور بچپنے کی بات یاد ہے کہ کئی قلمی کتابوں کا ذکر کرتے تھے، لیکن بعد کو جب مجھے خیال ہوا اور ان کتابوں اور یادداشتوں کو دیکھنا چاہا تو انقلاب حال نے سارا کارخانہ برہم کردیا تھا، کوئی چیز بھی کسی کے قبضے میں باقی نہیں رہی تھی۔ ملا فیروز نے جارج نامہ میں لڑائیوں کا حال نظم کیا ہے اور وہ میرے کتب خانے میں موجود ہے لیکن وہ تمام تر انگریزی بیانات کی نقل ہے۔ تاریخی حیثیت سے لائق اعتنا نہیں، البتہ اس سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ حیدر علی کی عظمت اور ٹیپو کی شجاعت کا عام طور پر اعتراف کیا جاتا تھا’’۔
ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں:
‘‘حیدر علی اور ٹیپوسلطان کے حالات لکھتے ہوئے وہ کتابیں بھی سامنے رکھنی چاہییں جو بعض انگریز قیدیوں نے رہائی کے بعد لکھی تھیں۔ اس سلسلے میں تین تحریروں کا حوالہ دیا جاتا ہے، جیمس برسٹوکی ‘‘سرگذشت’’ کرنل بیلی کے ‘‘ایک آفیسر کا جرنل’’ اور جیمس سکری کی ‘‘لائف’’ حال میں ٹریولرس کی لائبریری نے ان تینوں رسالوں کا ایک مجموعہ کیپٹوز آف ٹیپو کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ اگر آپ نے یہ کتاب ابھی نہ لی ہو تو بہتر ہے کہ منگوا لیجیے۔ ان لوگوں نے قیدوبند کے جو شدائد بیان کیے ہیں انھیں احتیاط کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ خصوصاً سکری (scurry) کے بیانات، فرنچ میں کئی کتابیں حیدر علی اور ٹیپو کے حالات میں لکھی گئی ہیں جن کا انگریزی ترجمہ نہیں ہوا ہے، یہ ضروری ہے کہ کسی ماہر سے اس کے بارے میں خط و کتابت کرلی جائے’’۔
مولانا آزاد کے تاریخی مطالعے، وسعت نظر اور حیرت انگیز معلومات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب ابوسلمان شاہجہاں پوری نے لکھا ہے کہ:
‘‘جعفری خاندان کی تاریخ ہو یا پٹھانوں کی تاریخ، ان کے خصائص و کمالات کا بیان وہ اس طرح کرتے تھے کہ خود صاحب علم و مطالعہ جعفری اور پٹھان بھی حیرت زدہ رہ جاتے تھے، حتیٰ کہ حقہ کی تاریخ اس کی تدریجی ترقی عہد بہ عہد اس کی شکل میں تبدیلی، اس کی مختلف شکلوں اور ان کی لمبائی موٹائی کے اختلاف سے اس کی آواز پر معمولی اثر، پتنگ کی تاریخ، اس کی مختلف شکلیں، اس کے اڑانے اور لڑانے کے طریقے، چائے کی تاریخ، کاشت، اس کی اقسام اور اس کے ذائقے کا تذکرہ، بلبلوں اور اس کی نسلوں کا بیان، پھول پودے اور ان کی اقسام زیربحث ہوں یا پرندوں اور جانوروں کی نفسیات پر قلم اُٹھائیں۔ وہ ہرچیز کا بیان اس تفصیل سے کرتے ہیں کہ پڑھنے والے نہ صرف ان کے بیان کی ندرت پر عش عش کر اُٹھتے ہیں بلکہ ان کے علم و مطالعہ کی وسعت، حیرت انگیز کمالِ حافظہ اور بے نظیر قوتِ استحضار کا اعتراف کرتے ہی بن پڑتا ہے۔
ان چند مباحث اور اجمالی جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا آزاد تاریخِ اسلام، تاریخِ عالم اور خاص طور سے ہندوستان کی تاریخ سے پوری طرح باخبر تھے اور اس کی ایک ایک جزئی اور فروعی بات پر ان کی نظر تھی۔ وہ علومِ فنون کی تاریخ سے بھی کماحقہ واقف تھے اور ان کے اسی تاریخی شعور اور بصیرت سے ان کے کارناموں کو بلاشبہ بقائے دوام کی دولت نصیب ہوئی۔