عشرہ ذی الحج کے فضائل و اعمال

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : نومبر 2011

اللہ رب العزت ہر چیز کا تنہا خالق اور منفرد مالک ہے ، اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے دوسروں پر فضیلت عطا فرماتا ہے۔ بعض انسانوں کو دوسروں سے اعلیٰ ٹھہرایا، بعض مقامات کو دوسری جگہوں سے افضل قرار دیا اور بعض زمانوں اور اوقات کو دوسرے زمانوں اور اوقات پر فوقیت اور برتری عطا فرمائی۔اسی سنت الٰہیہ کا ایک مظہر ماہ ذی الحج کے دس دنوں کا افضل ہونا ہے۔

قرآن وسنت میں ان دس دنوں کی شان وعظمت کے متعدد دلائل وشواہد ہیں۔

۱۔ وَالفَجرِ۔ وَلَیَالٍ عَشرٍ- الفجر:الآیتان

‘‘ قسم ہے فجر اور دس راتوں کی۔’’

امام بغوی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وَلَیَالٍ عَشرٍسے مراد ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں اور یہی قول امام مجاہد ، قتادہ، ضحاک ، سدی اور کلبی رحمہم اللہ کا ہے۔ -ملاحظہ ہو : تفسیر البغوی ۱۸۴/۴-

اور بلاشک وشبہ اللہ تعالیٰ کا ان دنوں کی قسم کھانا ان کی شان وعظمت پر دلالت کرتا ہے۔

۲۔ ان دس دنوں کے ساتھ حج کے مہینوں کا اختتام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلحَجَّ اَشہْرمَعلْومَاتٍ-البقرہ:۷۹۱-

‘‘ حج کے مہینے معلوم ہیں۔’’

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے لکھا ہے :‘‘ ذوالحجہ کے دس دنوں کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ معلوم مہینوں کا آخری حصہ ہیں اور وہ مہینے حج کے ہیں ، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اَلحَجَّ اَشہْر مَعلْومَاتٍ-البقرہ:۷۹۱-

‘‘اور وہ شوال ، ذوالقعدہ اور ذو الحجہ کے دس دن ہیں۔’’ -لطائف المعارف ص:۱۷۴-

۳۔ اللہ تعالیٰ نے ان دس دنوں میں اپنے ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَیَذکْرْوا اسمَ اللَّہِ فِی ایَّامٍ مَعلْومَاتٍ -الحج :۸۲-

‘‘ اور معلوم دنوں میں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کریں۔’’

امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ، کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا ، کہ ان معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذو الحجہ کے دس دن ہیں۔ملاحظہ ہو : صحیح البخاری:۷۵۴/۲-

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرات ائمہ حسن ، عطاء، عکرمہ، مجاہد ، قتادہ اور شافعی رحمہم اللہ نے بھی اس آیت کریمہ کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔

ذکر الٰہی تو ہر روز بندوں پر لازم ہے ، لیکن مولائے کریم کا اپنی یاد کیلئے کچھ دنوں کا خصوصی طور پرذکر فرمانا، یقینا ان دنوں کی رفعت وعظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

۴۔ ان دس دنوں میں کیا جانے والا اچھا کام اللہ تعالیٰ کو سال کے باقی دنوں میں کیے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ پیارا ہے۔ حضرات ائمہ ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے ، کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :‘‘ما مِن اَیَّامٍ العَمَلْ الصَّالِحْ فِیہِنَّ َاحَبّْ اِلَی اللَّہِ مِن ہَذِہِ الاَیَّامِ العَشرِ فَقَالْوا یَا رَسْولَ اللَّہِ وَلَا الجِہَادْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَالَ رَسْولْ اللَّہِ صَلَّی اللَّہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَلَا الجِہَادْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ِالَّا رَجْل خَرَجَ بِنَفسِہِ وَمَالِہِ فَلَم یَرجِع مِنذَلِکَ بِشَی۔’’ملاحظہ ہو : صحیح سنن ابی داؤد۲۶۴/۲، وصحیح سنن الترمذی ۹۲۲/۱، وصحیح سنن ابن ماجہ ۹۸۲/۱-

‘‘کسی بھی دن میں [کیا ہوا] اچھا کام اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں میں [کیے جانے والے نیک] عمل سے زیادہ پیارا نہیں۔ انہوں نے [صحابہ] نے عرض کیا :‘‘ یا رسول اللہ ! دوسرے دنوں میں کیا ہوا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟’’

آپ نے فرمایا :‘‘ دوسرے دنوں میں کیا ہوا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں ، مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ[راہ جہاد میں ] نکلے اور کچھ واپس لیکر نہ آئے۔ یعنی اپنی جان ومال اسی راہ میں قربان کر دے ۔’’

حافظ ابن رجب نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے :‘‘ جب ان دس دنوں میں کیا ہوا اچھا کام، بارگاہ الٰہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کیے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے ، تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی، دوسرے دنوں کی بلند درجہ والی نیکی سے افضل ہو گی، اسی لئے جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا، کہ کیا سال کے بقیہ دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی دربار رب العالمین میں ان دنوں کے عمل سے زیادہ عظمت والا اور عزیز نہیں ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا :‘‘ نہیں ’’۔-لطائف المعارف :۸۵۴۔۹۵۴-

حافظ ابن حجر نے عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ‘‘ عشرہ ذوالحجہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات جو کہ نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج ہیں وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور وہ ان کے علاوہ کسی اور دنوں میں جمع نہیں ہوتیں۔ -فتح الباری ۰۶۴/۲-

۵۔ عشرہ ذوالحجہ کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے نواں دن یوم عرفہ ہے اور یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا :‘‘یَا اَمِیرَ المْؤمِنِینَ آیَفِی کِتَابِکْم تَقرَءْونَہَا لَو عَلَینَا مَعشَرَ الیَہْودِ نَزَلَت لَاتَّخَذنَا ذَلِکَ الیَومَ عِیدًا ’’ ‘‘اے امیر المؤمنین ! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑ ھتے ہو ، اگر ہم یہودیوں پر وہ نازل ہوتی ، تو ہم اس کے یوم نزول کو عید بنالیتے۔’’انہوں نے دریافت کیا :‘‘اَیّْ آیَ’’ کون سی آیت ؟’’اس نے کہا الیَومَ اکمَلتْ لَکْم دِینَکْم وَاَتمَمتْ عَلَیکْم نِعمَتِی وَرَضِیتْ لَکْم الاِسلَامَ دِینًا ۔المائدہ:۳-

‘‘آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔’’

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :‘‘قَد عَرَفنَا ذَلِکَ الیَومَ وَالمَکَانَ الَّذِی نَزَلَت فِیہِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَہْوَ قَائِم بِعَرَفََ یَومَ جْمْعَ’’ -صحیح البخاری ۵۰۱/۱-

‘‘ جس دن اور جس جگہ نبی کریم پر وہ [آیت] نازل ہوئی ، ہم اس سے آگاہ ہیں۔ جمعہ کا دن تھا اور آپ عرفات میں کھڑ ے تھے۔’’

اور یہ وہ عظیم دن ہے ، کہ اس میں اللہ تعالیٰ سال کے سارے دنوں میں سے ہر دن کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔

۶۔ عشرہ ذوالحجہ کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس کاآخری اور دسواں دن ‘‘یوم النحر’’ [قربانی کا دن] ہے جس کے بار ے میں رسول کریم نے فرمایا :‘‘افضل الایام عند اللہ یوم النحر ویوم القر’’ -المسند۰۵۳/۴، والاحسان لی تقریب صحیح ابن حبان ۱۵/۷ ، والمستدرک ۱۲۲/۴-

‘‘بارگاہ الٰہی میں سب سے فضیلت والا دن یوم النحر اور یوم القر ہے۔’’

گیارہ ذوالحجہ کو ‘‘یوم القر’’ کہتے ہیں کہ حجاج اس دن منیٰ میں ٹھہرتے ہیں۔ -ملاحظہ ہو : النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ۷۳/۴-

۲- عشرہ ذو الحجہ کے اعمال

رب رحمن ورحیم کی طرف سے عشرہ ذوالحجہ اہل ایمان کیلئے اجر وثواب حاصل کرنے کا عظیم الشان اور سنہری موقع ہے کہ ان دنوں کی معمولی درجہ کی نیکی بھی دوسرے دنوں کے اعلیٰ درجہ کی نیکیوں سے افضل ہے۔ اس لئے اللہ والے ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کے زاد آخرت جمع کرنے کی شدید جدوجہد کرتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل کیا ہے :جب عشرہ [ذوالحجہ] داخل ہوجاتا تو سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ تاحد استطاعت شدید عبادت کرتے۔سنن دارمی ۷۵۳/۱-

ان ایام میں درج ذیل اعمال کرنے کا احادیث شریفہ میں خصوصی طور پر ذکر آیا ہے۔

۱۔ کثرت سے تہلیل ، تکبیر اور تحمید کہنا

امام احمد رحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :‘‘مَا مِن اَیَّامٍ اَعظَمْ عِند اللَّہِ وَلَا اَحَبّْ لَیہِ مِن العَمَلِ فِیہِنَّ مِن ہَذِہِ الاَیَّامِ العَشرِ فَاَکثِرْوا فِیہِنَّ مِن التَّہلِیلِ وَالتَّکِیرِ وَالتَّحمِیدِ’’المسند ، حدیث نمبر :۶۴۴۵، ۴۲۲/۷ ط : دار المعارف مصر-

‘‘کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا [اچھا] عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے۔ پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے [ لا الہ لا اللہ ] ، [ اللہ اکبر] اور [الحمد للہ] کہو۔’’

سلف صالحین اس بات کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔

۲۔ نوذوالحجہ کا روزہ رکھنا

امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ‘‘وَسْئِلَ عَن صَومِ یَومِ عَرَفَ فَقَالَ یْکَفِّرْ السَّنََ المَاضِیََ وَالبَاقِیََ’’صحیح مسلم۹۱۸/۲-

‘‘رسول اللہ سے یوم عرفہ [نوذوالحجہ] کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا : گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہ دور کر دیتا ہے۔’’

رسول کریم خود بھی اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ امام ابوداؤد اور امام نسائی رحمہما اللہ نے نبی کریم کی ایک زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا:‘‘ کَانَ رَسْولْ اللَّہِ صَلَّی اللَّہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَصْومْ تِسعَ ذِی الحِجَِّ وَیَومَ عَاشْورَاء َ وَثَلَاثَ اَیَّامٍ مِن کْلِّ شَہرٍ’ ’ ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابی داؤد۲۶۴/۲، وصحیح سنن النسائی ۸۰۵/۲-

‘‘رسول اللہ نو ذوالحجہ ، یوم عاشورادس محرم اور ہر ماہ میں سے تین دن روزہ رکھتے تھے۔’’

نبی کریم نے حج الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں اس دن کا روزہ نہیں رکھا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدتنا ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ ‘‘ اَنَّ نَاسًا اختَلَفْوا عِنَا یَوعَرَفَ فِی صَوم النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَعضْہْم ہْوَ صَائِم وَقَالَ بَعضْہْم لَیَ بِصَائِمٍ فَارَلتِْلَیہِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَہْوَ وَاقِف عَلَی بَعِیرِہِ فَشَرِبَہْ’’صحیح البخاری ۳۱۵/۳-

‘‘یقینا کچھ لوگوں نے ان کے سامنے عرفہ کے دن نبی کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا :کچھ نے کہا کہ ‘‘وہ روزے سے ہیں ، اور کچھ نے کہا کہ ‘‘ ان کا روزہ نہیں ہے۔’’پس میں نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا اور تب آپ اونٹ پر تھے ، آپ نے اسے پی لیا۔

حضرات خلفائے ثلاثہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی حج کے موقع پر اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے۔

۳۔ دس ذوالحجہ کو قربانی کرنا

عشرہ ذوالحجہ کے آخری دن کانام [یوم النحر] قربانی کا دن ہے اور اس دن قربانی کرنا بہت بڑ ے اجر وثواب والاعمل ہے۔

۴- عشرہ ذو الحجہ میں اعمال حج

ان دس دنوں میں کچھ اعمال صرف حجاج کے کرنے کے ہیں۔

اللہ مالک العلام سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

٭٭٭