قسط -۷
حضرت عبدالمطلب نبی اکرم ﷺ کے دادا تھے اور اُن سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ اہل قریش کے سردار اوراُن کے حکم تھے ۔اِن کا شمار عربوں کے صاحبِ دانش افراد میں کیا جاتا تھا ۔چونکہ لوگ اُن کی کثرت سے تعریف کرتے تھے اس لیے انھیں شیبۃ الحمد کہا جانے لگا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مصائب کے وقت قریش کے فریاد رس تھے اور مشکل معاملات میں اُن کی پناہ گاہ تھے۔ اپنے کمال اور نیک افعال کی وجہ سے وہ بالاتفاق قریش کے سردار مانے جاتے تھے۔ اُن کی دعا مقبول ہوتی تھی اور بے پناہ سخاوت کی وجہ سے اِن کی تکریم کی جاتی تھی۔ چونکہ جب وہ اپنے دسترخوان پہ بیٹھتے تب وہ کوہ فاران میں رہنے والے پرندوں اور دیگر جانوروں کے لیے بھی کچھ خوراک الگ کر دیتے تھے اس لیے لوگ انھیں ‘‘ مطعیم طَیر السماء ’’ بھی کہتے تھے۔ حضرت عبدالمطلب کا شمار حلیم الطبع اور دانا انسانوں میں کیا جاتا تھا وہ اِن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی خود پہ شراب حرام کر لی تھی۔ حضرت عبدالمطلب اپنی اولاد کو ظلم اور سرکشی سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ وہ انھیں مکارم اخلاق کی ترغیب دیتے اور کمینے کاموں سے دور رہنے کی نصیحت کرتے وہ فرمایا کرتے کہ دنیا سے نکل جانے سے پہلے ہی ظالم سے بدلہ لے لیا جاتا ہے اور اسے اس کے کئے کی سزا مل جاتی ہے پھر شام کا ایک ظالم شخص اُن کے سامنے اس حالت میں مر گیا کہ اسے اس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا تھا تب آپ نے فرمایا، اﷲ کی قسم اس گھر کے بعد یقینا ایک گھر ہے جس میں نیکوکاروں کو اِن کی نیکی اور بدکاروں کو اِن کی بدی کا بدلہ دیا جائے گا۔ اپنی آخری عمر میں وہ بت پرستی سے بے زار ہو گئے تھے اور وہ اﷲ واحد کی پرستش کرنے لگے تھے اس لیے اُن کی فہم و دانش نے اِن کو بہت سی ایسی باتوں سے آگاہ کر دیا تھا جن کو بعد میں قرآن و سنت کی تائید حاصل ہوئی جیسا کہ نذر کا پورا کرنا ، محرم عورتوں سے نکاح سے منع کرنا ، چور کے ہاتھ کاٹنا ، لڑکیوں کو قتل کرنے سے منع کرنا شراب اور زنا کو حرام قرار دینا اور اس بات کا حکم دینا کہ کوئی شخص برہنہ بیت اﷲ کا طواف نہ کرے عبداﷲ بن عباس ؓ نے اپنے گھر والوں سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عبدالمطلب ؓ کی وفات ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ آٹھ سال کے تھے۔ حضرت عبدالمطلب نے ۵۷۹ ء میں ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اُن کی بیٹیوں کا نوحہ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔
صفیہ بنت عبدالمطلب نے اپنے باپ کا ماتم کرتے ہوئے کہا !
اگر کوئی شخص اپنی دیرینہ عزت اور شان کے سبب زندہ رہ سکتا تو ہمار ا باپ کبھی نہ مرتا ۔ وہ اپنی فضیلت و شان اور دیرینہ خاندانی وقار کے سبب زمانے کی انتہا تک رہتا لیکن بقاء کی طرف تو کوئی راستہ نہیں جاتا ۔
برہ بنت عبدالمطلب نے کہا
اے میری آنکھو! خوب جم کر رو لو اور ایسے شخص پہ آ نسو بہاؤ جونہ پیچھے رہنے والا تھا نہ کمزور ۔
امیمہ بنت عبدالمطلب نے کہا
جوخو بیاں ایک جواں مرد حاصل کرتا ہے اے قابل ستائش شیبہ وہ تو تُو نے کم سنی ہی میں حاصل کر لی تھیں اور ان میں ہمیشہ ترقی کی ۔
حضرت عبداﷲ اپنے باپ عبدالمطلب کے سب سے محبوب بیٹے تھے وہ اِن تمام اعلیٰ صفات سے مزین تھے جو اُن کے آبا کا طرۂ امتیاز رہیں ہے۔ حضرت عبداﷲ وجیہ تھے ،شجاع تھے، سخی تھے، ملنسار تھے، نرم خو تھے، با حیا تھے، محبت کرنے والے تھے لوگوں کے دکھ بانٹنے والے تھے ۔وہ اندھیری رات میں چمکنے والے ستارے کی مانند تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن کویہ سعادت عطا فرمائی کہ وہ کائنات کی سب سے عظیم شخصیت کے والد بنے اُن کے گھر رونق کائنات سید المرسلین محمد رسول اﷲ ﷺ نے جنم لیا ۔
جب حضرت عبدالمطلب زم زم کے کنویں کی کھدائی کر رہے تھے تب قریش کی جانب سے اُن کو شدید مخالفت کا سا منا کرنا پڑا تھا اور اُن کے اکیلے بیٹے حضرت حارث اُن کو روکتے تھے۔تب حضرت عبدالمطلب نے اﷲ تعالیٰ سے اپنی اس کمزروی کو دور کرنے کی استدعا کی تھی اورکہا تھا !اے اﷲ مجھے بیٹے عطا فرما جو میری مدافعت کریں ۔انھوں نے نذ ر مانی تھی کہ اگر اﷲ تعالیٰ اُن کو دس بیٹے عطا فرمائیں اور وہ اُن کے سامنے جوان ہو جائیں تو اِن میں سے ایک کو وہ اﷲ کی راہ میں قربان کریں گے ۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرمائی اور اُن کو بارہ بیٹے عطا فرمائے جو اُن کی نظروں کے سامنے جوان ہوئے ۔حضرت عبداﷲ اُن کے سب سے محبوب بیٹے تھے وہ بہت حسین و جمیل تھے اورلوگ اُن سے محبت کرتے تھے ۔جب حضرت عبدالمطلب نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرما لی ہے اور اُن کے بیٹے اُن کے سامنے جوان ہو گئے ہیں ۔تو انھوں نے اپنی نذر پوری کرنے کے متعلق سوچا !انھوں نے اپنے بیٹوں کو اکٹھا کیا اور اُن کو اپنی نذر سے آ گاہ کیا ۔بیٹوں نے اُن سے کہا !آپ شوق سے اپنی نذر پوریں کریں ہم میں سے کوئی نہیں جو آپ کے حکم کے خلاف جائے ۔حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹوں کے اس جواب سے بہت خوش ہو ئے ۔
وہ انھیں لے کر بیت اﷲ شریف آئے اور ہبل کے پجاری سے کہا !تیر نکالو اور قرعہ ڈالو !اس موقع پر حضرت عبدالمطلب نے یہ اشعار کہے ’’
میں نے اﷲ سے عہد کیا تھا اور میں اس عہد کو پورا کروں گا اﷲ کی قسم حمد جیسی قابل تعریف اور کوئی شئے نہیں ۔کیونکہ وہ میرا آقا ہے اور میں اس کا غلام ہوں میں نے ایک نذر مانی تھی جسے بھولنا میں پسند نہیں کرتا ۔اور اس کے بعد شاید میں زندہ بھی نہیں رہنا چاہتا۔
اس دوران بہت سے عرب حضرت عبدالمطلب کے گرد اکٹھے ہو چکے تھے ۔ جب حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں کے ناموں پہ مشتمل تیر ہبل کے امین کے ہاتھ میں دئیے تو لوگوں میں شور مچ گیا کہ حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے والے ہیں۔
حضرت عبدالمطلب اس کو قرب ِخداوندی کا ایک ذریعہ جانتے تھے کیونکہ اُن کے سامنے حضرت ابراہیم کی مثال موجود تھی جنھوں نے اﷲ رب العزت کا قرب حاصل کرنے کے لیے اُن کے حضور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو قربان کرنا چاہا تھا ۔حضرت عبدالمطلب نے تیر قرعہ اندازی کرنے والے کے حوالے کئے اور اس سے کہا جلدی نہ کر اور اِن کو آپس میں خوب ملا لے ۔دراصل حضرت عبدالمطلب کے دل میں کہیں خوف تھا کہ تیر حضرت عبداﷲ کے نام نکلے گا اور حضرت عبداﷲ اُن کو اپنے سارے بیٹوں سے زیادہ محبوب تھے۔پھر قرعہ ڈالا گیا ۔اور قرعہ حضرت عبداﷲ کے نام نکلا ۔ حضرت عبدالمطلب نے تیر انداز سے کہا ،پھر ڈالو اور اپنی تسلی کر لو ۔قرعہ پھر ڈالا گیا مگر اب کے بھی قرعہ حضرت عبداﷲ ہی کے نام کا نکلا ۔
حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبداﷲ کا ہاتھ پکڑا اور اُن کے دوسرے ہاتھ میں چھری تھی وہ انھیں ساتھ لے کر اس جگہ آئے جہاں اساف اور نائلہ کے بت رکھے تھے ۔
انھوں نے حضرت عبداﷲ کو لٹا لیااور وہ انھیں اﷲ کی راہ میں قربان کرنا چاہتے تھے ’’۔
جب حضرت عبدالمطلب حضرت عبداﷲ کو قربان گاہ کی طرف لے جارہے تھے جو اساف اور نائلہ کے درمیان تھی تو حضرت ابو طالب آگے بڑھے کہ حضرت عبداﷲ اِن کے سگے بھائی تھے اور دونوں کی ماں فاطمہ بنت عمرو مخزومیہ تھی حضرت ابو طالب نے اپنے باپ کے ہاتھ سے حضرت عبداﷲ کا ہاتھ چھڑا لیا اور اپنے ماموؤں کو آ واز دی ۔ حضرت ابو طالب کے ماموں جو بنو مخزوم سے تھے اپنے بھانجے کی پکار پہ آ پہنچے !اور انھوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا !اے ابو الحرث !ہم اپنے بھانجے عبداﷲ کو اپنی آ نکھوں کے سامنے ذبح نہ ہو نے دیں گے ۔ اگر آپ نے اﷲ کی راہ میں اپنے بیٹے کی قربانی ہی کرنی ہے تو اپنے کسی اور بیٹے کو قربان کر لیں ۔حضرت عبدالمطلب نے اُن سے کہا مگر عبداﷲ کا نام تو قرعہ میں نکلا ہے
انھوں نے کہا !جب تک ہم میں سے ایک ذی روح بھی زندہ ہے خدا کی قسم ہم یہ ظلم نہ ہونے دیں گے ۔اور اگر آپ اس کا فدیہ لینا چاہیں تو ہمارا سارا مال حاضر ہے ۔اس کے بعداہل قریش کے سردار جو بیت اﷲکے گرد اپنی مجالس سجائے بیٹھے تھے آگے بڑھے اور حضرت عبدالمطلب کو اس امر سے باز رکھنا چاہا
انھوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا !اے ابو الحرث !تو نے جس کام کا عزم کیا ہے وہ تو بہت ہی ہیبت ناک ہے ۔کیونکہ اگر تجھ جیسے درجے کے شخص سے یہ رسم چل پڑی تو پھر رکنے میں نہ آئے گی اور لوگ اپنے بیٹوں کو قربان کرنا شروع کر دیں گے ۔اور نہ تو خود اس امر کے بعد آ رام کی زندگی بسر کر سکے گا ۔ اس لیے تو جلدی نہ کر اور اس معاملے میں ہمیں بنی اسد کی کاہنہ کی رائے لے لینی چاہیے ۔ حضرت عبدالمطلب قریش کے بے پناہ دباؤ اور بنو مخزوم کی ضد کی وجہ سے
خاموش ہورہے ۔ اس کے بعد وہ سب لوگ اس کاہنہ کی تلاش میں نکلے ۔عرب کہانت کو حق جانتے تھے اور اس پہ اُن کو گہرا اعتماد تھا۔
بنی اسد کی اس کاہنہ کا ٹھکانہ بہت دور شام کے رستے میں کہیں خیبر کی پہاڑیوں میں تھا ۔ چنانچہ بنو مخزوم اہل قریش اور حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر نکلے ۔ پھروہ نبی اسد کی کاہنہ کے پاس پہنچے اور اسے اپنے مقصد سے آگاہ کیا ۔
بنی اسد کی کاہنہ نے اُن سے کہا !آج میرا موکل حاضر نہیں اس لیے تم لوگ کل آنا میں تمہارے مسئلے کا حل اس سے پوچھ لوں گی ۔ دوسرے دن جب وہ لوگ بنو اسد کی اس کاہنہ کے پاس پہنچے تو اس نے کہا میں نے اپنے موکل سے تمہارے بارے میں بات کر لی ہے تم ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے ہاں مقتول کی دیت کیا ہے ۔اہل عرب نے کاہنہ کو بتایا کہ اُن کے ہاں مقتول کی دیت دس اونٹ ہے ۔چنانچہ کاہنہ نے کہا اپنے بیٹے کو لے جاؤ اور ایک طرف دس اونٹ رکھو اور دوسری طرف اپنے بیٹے کو بٹھاؤ اور پھر قرعہ ڈالو!جب قرعہ اونٹوں پہ نکل آئے تب اِن اونٹوں کو اﷲ کی راہ میں قربان کر دو ۔اہل قریش کاہنہ کی اس بات سے بہت خوش ہوئے تھے اس لیے کہ اُن کی نگاہ میں وہ ایک بہت بڑے نقصان سے بچ گئے تھے اور اہل قریش کی نگاہوں کا چین اب ذبح نہیں ہو گا حضرت عبداﷲ کی جگہ اب انھیں اونٹ قربان کرنے تھے ۔راستے میں عربوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا اے ابو الحرث تیرے سامنے حضرت ابراہیم کی مثال موجود ہے کہ انھوں نے اﷲ کی راہ میں اس کی قربت کے حصول کے لیے اپنا بیٹا قربان کرنا چاہا تھا مگر اﷲ نے اُن کے بیٹے کے بدلے میں مال کی قربانی قبول فرمائی تھی اور تُو تو اولادِ اسماعیل کا سردار ہے اس لیے اٹھ اور پنے بیٹے کے بدلے اپنا مال پیش کر تیرا اﷲ یقینا تجھ سے راضی ہو جائے گا ۔ چنانچہ یہ سارا قافلہ بیت اﷲ میں پہنچا !بنی مخزوم اور قریش کے بہت سے لوگ اس موقع پر بیت اﷲ میں جمع تھے ۔انھوں نے ایک طرف دس اونٹ کھڑے کئے اور دوسری طرف حضرت عبداﷲ تھے ۔پھر قرعہ ڈالا گیا ۔قرعہ حضرت عبداﷲ کے نام نکلا ! اونٹوں کی تعداد بیس کر دی گئی اور پھر سے قرعہ ڈالا گیا ۔قرعہ اب بھی حضرت عبداﷲ کے نام نکلا اونٹوں کی تعداد تیس کر دی گئی اور پھر سے قرعہ ڈالا گیا ۔قرعہ ایک بار پھر حضرت عبداﷲ ہی کے نام نکلا ۔اونٹوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے سو ہوگئی تب قرعہ اونٹوں کے نام نکلا ۔لوگوں نے تکبیر کہی جس سے اﷲ کا گھر کا گونج اٹھا ۔ لوگوں کی خوشی دیدنی تھی ۔حضرت عبداﷲ نے امین سے کہا ،ایک بار اور قرعہ ڈالوتاکہ میری تسلی ہو جائے ۔دوسری بار قرعہ ڈالا گیا تو وہ اونٹوں ہی کے نام نکلا تیسری بار پھر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ پھر اونٹوں کے نام نکلا اور حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں کو اشارہ کیا ۔اور وہ اِن اونٹوں کی کونچیں کاٹنے لگے ۔اِن اونٹوں کا گوشت ہر کسی کے لیے تھاکسی پہ کوئی پابندی نہ تھی حتیٰ کہ گدھ اور گوشت خور جانور بھی کئی روز تک اس ضیافت سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔اونٹوں کو قربان کرنے کے بعد حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر چلے گئے خود انھوں نے اِن قربان کئے گئے اونٹوں کے گوشت سے فائدہ نہ اٹھایا تھا ۔
لوگوں نے حضرت عبدالمطلب کو مبارک دی کہ انھیں اﷲ کی رضا حاصل ہوگئی ہے ۔
حضرت عبدالمطلب اپنے آنگن کے چاند کو اپنے ہمراہ لے کر لوٹے کہ انھیں کون ذبح کر سکتا تھا جب کہ اُن کی صلب میں نبی اکرم ﷺ کا نطفہ موجود تھا اور وہ اس مانت کو کسی کے سپرد کیے بغیر اس دنیا سے کس طرح رخصت ہو سکتے تھے۔
حضرت عبدالمطلب بے انتہا خوش تھے اور اسی خوشی میں اِن کی زبان یہ اشعار جاری ہوئے ۔
میں نے اپنے رب کو اخلاص سے اور بلند آواز سے پکارا کہ اے میرے رب میرے بیٹے کو ذبح نہ ہونے دینا۔مال کی صورت میں فدیہ قبول کر لے کہ میرے پاس بہت سا مال ہے میں ہر چرنے والے ریوڑ میں دس جانور قربان کروں گا۔میں اپنا مال خوشی سے دوں گا اور میرے دشمنوں کو میرے بیٹے کے ذبح ہونے پہ خوش نہ کرنا۔میں شکر کے طور پہ خدائے بزرگ و برتر کی تعریف کرتا ہوں قسم ہے اﷲ کے گھر کی جس پہ پردے پڑے ہوئے ہیں ۔
میں اپنے رب کی نعمت کو ناشکری میں نہیں بدلوں گا جب تک کہ میں زندہ رہوں حتیٰ کہ اپنی قبر میں جا اتروں۔
حضرت آمنہ اور حضرت عبداﷲ کی شادی کو کچھ ہی ماہ ہو ئے تھے کہ حضرت عبداﷲ عربوں کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہو ئے جب وہ وہاں کی تجارتی سر گرمیوں سے فارغ ہوئے تب وہ علیل ہوچکے تھے جب وہ غزہ تک پہنچے تو شدید بیمار تھے اگرچہ اس دوران اُن کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے قافلے کو مکہ جانا تھا اورحضرت عبداﷲ کی صحت اس قابل نہ تھی کہ وہ صحرا کا یہ دشوار گذار سفر کر سکیں اس لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا !میں اپنے ننھال بنی نجار کے ہاں رک جاتا ہوں ۔اس طرح قافلہ حضرت عبداﷲ کے بغیر مکہ پہنچا !حضرت عبدالمطلب نے جب اس قافلے میں حضرت عبداﷲ کو نہ پایا تو وہ سخت پریشان ہو ئے ۔
قافلے والوں نے جو خبر حضرت عبدالمطلب تک پہنچائی وہ بھی کوئی اچھی خبر نہ تھی ۔انھوں نے حضرت عبدالمطلب کو بتایا تھا کہ حضرت عبداﷲ کی طبیعت سخت خراب تھی جس کی وجہ انھیں اُن کو بنی عدی بن نجار کے ہاں چھوڑنا پڑا حضرت عبدالمطلب کے دن کا چین اور رات کی نیند اچاٹ ہو گئی تھی ۔چند دِنوں بعد انھوں نے اپنے بڑے بیٹے حارث بن عبدالمطلب سے کہا !مجھے اس وقت تک سکون سے سانس نہ آئے گا جب تک کہ میں اپنے بیٹے کے متعلق اصل بات نہ جان لوں ۔تم مدینہ جا کر اپنے بھائی کو لے کیوں نہیں آ تے ۔حارث بن عبدالمطلب مدینہ کو روانہ ہوئے مگر حضرت عبداﷲ سے اُن کی ملاقات نہ ہو سکی اس لیے وہ اُن کے پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے ۔
انھیں نابغہ کے گھر دفن کیا گیا تھا ۔حضرت حارث جب اکیلے واپس پہنچے تو اُن کے والد نے اُن سے کچھ نہ پوچھا نہ کوئی سوال کیا نہ واویلا کیا کہ وہ سب جان گئے تھے وہ سوچتے تھے کہ وہ تو شاید اس دکھ کو جھیل جائیں مگر اُن کی نوجوان بہو پہ کیا گذرے گی جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی ابھی تازہ تھی ۔مگر اس طرح کی خبر چھپائے بھلا کب چھپتی ہے ۔حضرت آمنہ کو جو دکھ ہوا ہو گا اس کا احاطہ الفاظ میں کرنا ممکن ہی نہیں اس لیے کہ احساسات اور جذبات کو بیان نہیں کیا جاتااُن کو صرف محسوس کیا جاتا ہے۔
جوان بیٹے کے دکھ نے جہاں حضرت عبدالمطلب کی کمر توڑ دی تھی وہیں حضرت آمنہ بھی کسی بجھے ہوئے چراخ کی راکھ بن کے رہ گئیں تھیں۔دکھ اگرچہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے مگر اس کا حقیقی ادراک انھیں کو حاصل ہوتا ہے جو دکھ کی اندھی کی غار میں جا گرتے ہیں ۔اور حضرت آمنہ کا دکھ تو ایسا تھا کہ جسے بیان کرنا بھی دشوار ہے کہ اُن کی زندگی کے تمام سپنے اور تخیلات جس ذات سے وابستہ تھے وہ اِن سے روٹھ کر اتنی دور جا چکی تھی جہاں سے کوئی واپس نہیں آ تا ۔ صرف سانس چلنے کا نام اگر زندگی ہے تو حضرت آمنہ زندہ تھیں مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت عبداﷲ کے بعد اُن کو اس زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اگر اُن کا سانس چل رہا تھا تو وہ بھی شاید اس لیے کہ انھیں حضرت عبداﷲ کے بیٹے محمد ﷺ کی ماں بننا تھا اور اس عظیم منصب پہ فائز ہونا تھا جس کی مثل اس دنیا میں کوئی اور نہ ہوسکتا تھا کہ فیصلے بھی ﷲ کے ہیں اور انتخاب بھی اسی کا ہوتا ہے اس لیے انھیں بہرحال سانس کی اس ڈوری کو بحال رکھنا تھا تاکہ دنیا کی گمراہی کا سد باب ہوسکے دنیا سے جہالت کے اندھیرے دور ہو سکیں ، اور دنیا کو فلاح کی ابدی منزل کا ادراک صرف اسی صورت حاصل ہو سکتا تھا جب نبی اکرم ﷺ حضرت آمنہ کے گھر جنم لیں چنانچہ انھوں نے زندگی کی اِن گزرتی ساعتوں کو اپنے بیٹے کے لیے وقف کر دیا جن کا وجود سراپا رحمت تھا اور جن کے تشریف لائے بغیر دنیا کی تکمیل نہ ہوسکتی تھی ۔
حضرت آمنہؓ نے اپنے محبوب شوہر کی اس ناگہاں موت پہ ایک عمدہ مرثیہ کہا تھاجس کے کچھ اشعار یہاں درج کئے جا رہے ہیں ۔
موت نے اسے دعوت دی اور اُس نے وہ دعوت قبول کر لی اور انسانوں میں کسی ایک کو بھی موت نے ایسا نہ چھوڑا جو فرزند ہاشم جیسا ہوتا۔ اُس رات وہ اس کا تابوت لے کے چلے تو اس کے ساتھیوں نے اس تابوت کو دست بدست لیااگر وہ مر گیا تو کیا ہوا اس کے آثارِ خیر تو نہیں مرے کیونکہ وہ نہایت درجہ فیاض اور بہت ہی رحم دل تھا۔