حکیم محمد سعید دو سال چھ ماہ کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا بڑے بھائی 13سال کے تھے۔والدہ محترمہ رابعہ بیگم ‘‘ہمدرد’’ کے لیے کام کرتی تھیں ادویات کی تیاری میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے بچوں کو سنبھالا اور ہمدرد دواخانہ کو عبدالحمید کے ذریعہ احسن طریقہ سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ رابعہ بیگم ایک سچی اور دین دار خاتون تھیں۔ بقول حکیم سعید جب رات سونے کے لے جاتے تو والدہ کو عبادت کرتے ہوئے دیکھتے اور جب بہت سویرے اْٹھتے تو بھی وہ قرآن شریف پڑھ رہی ہوتی تھیں۔ حکیم سعید صاحب کی تربیت میں رابعہ بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے بعد حکیم عبدالحمید صاحب کی تمام زندگی والدہ محترمہ کی آخری نصیحت کے تحت گزری۔
حکیم صاحب کہتے ہیں‘‘ان کو پریشانی یہ تھی کہ میں نے ہندستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میری والدہ کو اس رائے سے اِتفاق نہ تھا۔ مَیں والدہ ماجدہ سے گزارش کرتا تھا کہ فکری طور پر میں ہندو قیادت میں زندگی نہیں گزار سکتا۔ پاکستان جا کر اسلام کے لیے کام کروں گا۔والدہ کی شدید بیماری کی اطلاع مجھے اٹلی میں مِلی فوراً دہلی پہنچنے پر آخری باتیں کیں۔
٭ اپنی صحت کا خیال رکھنا تاکہ خدمت کی راہ میں کوئی رخنہ نہ آئے۔
٭ زندگی بھر کسی سے انتقام نہ لینا۔ انتقام کے جذبات صحت اور عقل دونوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔
٭ لوگوں کو برائی کرنے دینا۔ تم برائی کرنے والوں سے اچھائی کرنا۔
٭ خدمت کر کے غرور نہ کرنا۔ اظہار نہ کرنا۔
٭ غربت راز میں رہے تو اچھا ہے۔ شکایت نہ کرنا نہ کرنے دینا۔
٭ علم کی باگ ڈور ہمیشہ سنبھالے رکھنا۔ عالم کو بزرگ مانتے رہنا۔
٭ تم دونوں بھائی عظیم ہو، عظیم رہنا۔
حکیم صاحب کی تمام زندگی ان ہی انمول نصیحتوں کے ساتھ گزری۔ اس کے بعد ان کی شخصیت کو نکھارنے اور بڑا انسان بنانے میں ان کے بڑے بھائی عبدالحمید صاحب کا بڑا کردار ہے۔انہوں نے ۱۹۳۵میں حکیم محمد سعید صاحب کو آمادہ کیا کہ وہ خاندان کی روایت کے مطابق ‘‘طب’’ کی مکمل تعلیم حاصل کریں۔ ‘‘طب’’ ہی ان کی زندگی ہے حکیم صاحب جو صحافی بننا چاہتے تھے۔ ‘‘طب’’ کی دْنیا سے وابستہ ہو گئے۔ 1940ء-04 میں ‘‘طب’’ میں ڈگری حاصل کی۔ دِن کو وہ ہمدرددواخانہ میں دوا سازی کے علاوہ مختلف شعبوں میں کام کرتے اور شام کو ‘‘مطب’’ کرتے۔
1940میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ وہ قیامِ پاکستان کی تحریک سے منسلک ہو گئے۔ یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ پاکستان بنتے ہی ہندستان چھوڑ دیں گے ۔ وہ اس یقین سے آئے کہ پاکستان میں ان کی ضرورت ہے۔حکیم صاحب کے پاکستان جانے کے فیصلہ سے نہ بھائی خوش تھا نہ ماں راضی تھیں۔ تمام زندگی بڑے بھائی اور ماں کو نہ ،نہ کی تھی۔ لیکن اب ہر طرف آنسو تھے نہ آنسو تھمتے نہ ارادہ بدلا۔ ایک موقع پر جب بڑے حکیم صاحب استاد کے ساتھ پاکستان جانے سے منع کر رہے تھے اور حکیم صاحب صرف چپ تھے تو استادنے کہا سعید اس وقت ضدی ہو گیا ہے آپ کی بات نہیں سمجھ رہا اِسے جانے دو۔ تین چار ماہ بعد جب یہ برباد ہو کر آئے گا اس کے بعد آپ کی بات توجہ سے سنے گا اور سمجھے گا۔ بس جانے دو۔۔۔میں جب والدہ سے جدا ہو کر پاکستان جانے لگا تو فرمایا:‘‘سعید! میں تم کواپنی نشانی کیا دوں۔ لو یہ میری چادر! اور لو یہ میرا تکیہ۔ بس تم ان دونوں کو اپنے پاس رکھنا۔ہاں سعید بیٹے! تم مجھ سے جدا ہو رہے ہو۔ مگر دہلی آتے جاتے رہنا میرا دِل تم کو ڈھونڈتا رہے گا۔ اِتنا کہہ کر وہ خوب روئیں! میں بھی خوب رویا۔’’(‘‘سچی کہانی’’ فروری، حکیم محمدسعیدشہید)
9جنوری 1948ء کو حکیم محمد سعید پاکستان آ گئے اس لیے آ گئے کہ وہ پاکستان کو دْنیا کی سب سے بڑی مسلم طاقت بنا دینا چاہتے تھے۔وہ پاکستانی خالی ہاتھ آئے تھے جائیداد اور دولت سب کا سب بھائی کو دے آئے تھے۔ان کی زندگی اْجاڑ تھی۔ یہ بھی ہوا کہ ‘‘مطب’’ کے لیے کوئی جگہ نہ ملی اور نہ محنت کے لیے میدان۔ دو وقت کے لیے پیسے نہ تھے۔ بڑی سخت زندگی تھی۔ بڑی کشمکش تھی۔ وہ صبح اپنے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں سوچا کرتے کہ کیا کروں۔ کسی ذریعے سے ایک 10 x 10کا کمرہ مِل گیا تھا۔ اسے دفتر بنا لیا۔کاغذ پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے ہمدرد دواخانہ لکھ کر ہمدرد کا بورڈ بنایا۔ ساڑھے بارہ روپے کا فرنیچر کرایہ پر لے آئے۔ ان کے پاس ڈھائی لاکھ روپے کا ڈرافٹ تھا۔جو ان کے بھائی نے انہیں دیا تھا۔ نیشنل بنک دہلی میں ان کا ذاتی اکاؤنٹ تھا لیکن اس میں کیا تھا یہ انھیں معلوم نہ تھا۔ وہ ڈھائی لاکھ کے اس ڈرافٹ سے صنعت دواسازی شروع کرنے کا اِرادہ رکھتے تھے لیکن دہلی سے یہ خبر آئی کہ وہاں بڑے بھائی صاحب کو انکم ٹیکس کے محکمہ نے بہت پریشان کیا ہواہے۔حکیم صاحب نے وہ ڈھائی لاکھ کا ڈرافٹ بڑے بھائی کو واپس بھجوا دیا۔ حکیم صاحب ڈھائی لاکھ بھیجنے کے بعد یہ پتہ کرنے کے لیے بنک گئے کہ رقم بھجوا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا وہ چلی گئی لیکن ساتھ میں یہ پوچھا کہ آپ کا نام H. M. Saeedہے۔ آپ کے نام نیشنل بنک آف انڈیا سے رقم اس ہدایت کے ساتھ آئی ہے کہ یہ رقم اگر پاکستان میں نہیں چاہیے تو دہلی واپس کر دو۔ میں نے کہا یہ جتنی رقم ہے اسی وقت مجھے دے دو۔ یہ 72ہزار تھے۔ سبحان اللہ اِن کاکام بن گیا۔ ایک چادر اور ایک تکیہ حکیم شہید کی والدہ نے انھیں دی تھی۔ حکیم صاحب کی اہلیہ محترمہ نعمت بیگم کو ایک دِن خیال آیا کہ ذرا تکیہ ٹھیک کر دیں۔( حکیم صاحب بیگم کو محترمہ کہتے تھے۔) محترمہ نے تکیہ اْدھیڑا تاکہ خلاف کو دھو لیں، پھر روئی کو ہاتھ سے دھنکا۔ اس دھنکنے میں ان کو محسوس ہوا کہ اندر کچھ ہے۔ تکیہ کھولا تو اندر نوٹ رکھے تھے۔ روپے گنے گئے تو پورے 25ہزار تھے۔ یہ والدہ نے مجھے تحفہ دیا تھا۔ حکیم صاحب کا دِل باغ باغ ہو گیا اور ہمدرد کا کام باقاعدہ شروع ہو گیا۔
1953ء میں وہ اس جگہ پہنچ گئے، جہاں انہوں نے ہمدرد کو وقف کر دیا۔ اْن کاایک کمال اور خوبی انسان کی پرکھ تھی وہ اپنے کام کرنے والوں کو ‘‘کارکن’’ کہا کرتے تھے۔ جب بنیادی بات طے کر دیتے تھے تو پھرکسی کے کام میں مداخلت نہ کرتے تھے۔ وہ نہ خود تھکتے تھے، نہ ان کے رفقاء ۔کام چلتا رہا۔ حکیم صاحب اپنے کارکنوں سے بہت محبت کرتے تھے سب سے ملتے تھے اور چھوٹے اور ضرورت مندوں پر ان کی زیادہ نظر تھی وہ ان کی تعلیم کی طرف بہت متوجہ تھے۔ بہت کارکنوں کے تعلیمی اخراجات انہوں نے اپنی ذات سے اْٹھائے اور ان کی قابلیت کا سبب بننے۔ وہ لوگوں کی ضروری حاجتوں کی طرف بھی دھیان رکھتے تھے اور مدد کرتے رہتے تھے۔ ادارہ ابھی بعض سہولتوں کا متحمل نہیں تھا پھر بھی سب کے کمروں میں پنکھے ضرور تھے۔ گیلری میں پنکھا نہ تھا قاصد سخت گرمی اور حبس کی وجہ سے پاگل ہو رہا تھا۔ اس کو یہ سمجھ آئی کہ بالٹی میں ٹھنڈا پانی ڈال کر کپڑوں سمیت بدن کو تر کر لے ۔اتفاق سے حکیم صاحب کا گزر ہوا پوچھا میاں یہ کیا حالت تم نے بنائی ہے۔ اس نے کہا خود تو ٹھنڈی جگہ جا کر بیٹھ جاؤ گے۔ ذرا میرے ساتھ بیٹھو تو اندازہ ہو۔ حکیم صاحب نے سب سے پہلا کام یہ کیا تمام ایسی جگہوں پر پنکھے لگوا دیئے اور Cross Ventilationکا بھی انتظام بہتر کرایا۔ وہ کارکنوں کے ساتھ پکنک پہ بھی جاتے تھے اور کبڈی کے میچ میں حصہ لیتے تھے۔ وہ غریب کارکنوں کی غمی اور خوشی میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے اور حسبِ توفیق مدد بھی کرتے تھے۔ ‘‘ہمدرد’’ ابھی پیدل چل رہا تھا۔ بڑے اداروں میں اس کا شمار نہ تھا کہ 1963ء میں حکیم یحییٰ جنرل منیجر ہمدرد کا انتقال ہو گیا۔ معاملات کو حکیم صاحب نے بھانپا۔ 1964ء میں ہمدرد فاؤنڈیشن قائم کی۔ ‘‘ہمدرد’’ کے پورے نظام کو جدید خطوط پر آراستہ کرنے کے لیے وہ ڈاکٹر حافظ الیاس مرحوم کے پاس گئے۔ وہ حیدرآباد کے بڑے معالجوں میں تھے اور ‘‘ہمدرد’’ کا کام بھی ان کے زیرنگرانی تھا۔ڈاکٹر حافظ محمد الیاس ‘‘ہمدرد’’ میں جنرل منیجر کے طور پر آ گئے۔ ڈاکٹر حافظ محمد الیاس کے آتے ہی کچھوے کی رفتار سے چلنے والا ادارہ بہت جلد پاکستان کے بڑے اداروں میں شامل ہونے لگا۔حکیم صاحب اپنے فلاحی کاموں، یونانی علاج کی ترقی اور تعلیم کے لیے جو طلب کرتے ادارہ ‘‘ہمدرد’’ ان کو ہمدرد فاؤنڈیشن کے ذریعے فراہم کر دیتا۔ خود حکیم محمد سعید صاحب کا کام مختلف زاویوں سے جاری اور ساری تھا۔ ہمدرد،صحت اور ہمدرد نونہال وہ باقاعدگی سے پیش کرتے رہے۔ ‘‘مطب’’ وہ کراچی، لاہور،پشاور اور پنڈی مہینہ میں ایک بار کرتے رہے، جس میں کراچی کا ‘‘مطب’’ علیحدہ تھا۔ اس ‘‘مطب’’ کو اوّلیت حاصل تھی۔ ‘‘مطب’’ کے دوران نہ وہ کسی سے ملتے تھے اور نہ ہی کسی تقریب میں جانا قبول کرتے تھے۔ جب گورنر بنے اس میں بھی ‘‘باقاعدگی’’ سے مطب کیا۔ بیماروں کا علاج کرتے وقت ان کے پتے نوٹ کرنے کی ہدایت دے رکھی تھی۔ زیادہ بیمار افراد اگر دو ماہ تک نہیں آتا تھا تو اس کے گھر جا کر خیریت طلب کرتے۔
حکیم صاحب نے ادویات کے اشتہار کی نئی روایت ڈالی جب کہ کوئی اس طرف متوجہ نہ تھا۔‘‘جنگ’’ اخبار میں میرشکیل الرحمن سے دہلی کے تعلق سے انہوں نے ایڈوانس دے کر اشتہار دیئے۔ ‘‘رْوح افزا’’ پر بڑے شاعروں نے اشعار کہے۔ کتابچہ کی صورت میں چھپے۔ بچوں کے لیے ایک ہزار کتابیں شائع کیں۔ شام ‘‘ہمدرد’’ کا آغاز انہوں نے اپنی کوٹھی سے کیا۔یہ ترقی کر کے بڑے ہوٹلوں میں پہنچی اورپاکستان کی علمی ادبی سرگرمیوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ اسی طرح بزمِ نونہال بہت نظم و ضبط کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ تشہیر کی ایک میٹنگ میں ‘‘مستورین’’ کے بارے میں تبادلہ خیال ہورہا تھا ایک لائن یہ پیش کی گئی۔‘‘گردشِ ایام میں مفید’’ سب رائے دے رہے تھے حکیم صاحب نے جمیل صدیقی ڈائریکٹر ٹریڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان سے پوچھو ہمارے ‘‘ادیب صاحب’’ سے۔ جمیل صدیقی نے کہا اس میں خرابی تو بظاہر کوئی نہیں ہے البتہ ڈر یہ ہے کہ اسے مرد نہ استعمال کرنے لگیں۔ حکیم صاحب نے کہا ادیب صاحب ٹھیک کہتے ہیں کچھ اور سوچتے ہیں۔ جمیل صدیقی صاحب کا بڑا تعلق حکیم صاحب سے اور ان کے رفقاء سے رہا ہے کہتے ہیں کہ حکیم صاحب ہمیشہ شگفتہ موڈ میں رہتے تھے کبھی بھی انھوں نے حکیم صاحب کو کسی کے ساتھ تلخی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ جب کبھی آتے جاتے ملاقات ہو جاتی تو کہتے اور بھئی لڑکے کیا حال ہے ان کی شہادت کے بعد ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ جمیل صدیقی بتاتے ہیں کہ بہت بڑا ہونے کے بعد بھی ان کا غریبوں کا خیال کم نہیں ہوا وہ اْسی تواتر سے اچانک اورنگی اور کورنگی تک اپنے مریضوں کو دیکھنے چلے جاتے تھے وہ کارکنوں کی محفلوں میں محبت سے شرکت فرماتے تھے۔ اس میں بھی عار نہ تھی کہ کسی پتلی گلی میں گئے ہیں اور فرش پر چٹائی ہے۔ گرمی، حبس، برسات، شدیدسردی ان کے لباس کو تبدیل نہ کر سکتی تھی۔ وہ شیروانی کے ‘‘ہک’’ کو بھی بند کر رکھتے تھے تاکہ سمارٹ اور الرٹ رہیں۔حکیم صاحب کو کام کے انسان کی کمال کی پرکھ تھی۔ ان کی نگاہ میں کام کا آدمی آ جاتا تھا تو وہ اس سے ‘‘لپٹ’’ جاتے تھے۔ مسعود احمد برکاتی کہتے ہیں کہ جب یہ دیکھتے تھے کہ کسی آدمی میں بوئے وفا ہے اور کچھ صلاحیت بھی ہے تو وہ اس کو اس کی خامیوں کے ساتھ قبول کر لیتے تھے۔حکیم صاحب آدمی کو کام کا آدمی بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ جو آدمی کام نہ کرتا تھا وہ چاہیے کتنا عزیز کیوں نہ ہو ان کو عزیز نہ ہو سکتا تھا۔ سچ ہے مسعود احمد برکاتی صاحب نے بعض اْلجھنوں کے باوجود حکیم کے ساتھ بڑا کام کیا۔ رفیع الزماں زبیری کہتے ہیں1988ء ریٹائر ہونے کے بعد کراچی آیا۔ حکیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حکیم صاحب کہنے لگے کہاں ہیں؟ کیا ارادہ ہے؟ کہنے لگے بچوں کے لیے ادب کے کام کر رہا ہوں ساتھ آ جایئے۔ زبیری صاحب نے دِل سے کام کیا اور ایک ذخیرہ نونہالِ ادب کا میسر آیا زبیری صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ حکیم صاحب کتنی یکسوئی سے اپنی تحریریں صاف اور واضح طور پر فراہم کرتے تھے ان کی تحریر سلسلہ وار ہوتی تھی اور کوئی کاٹ چھانٹ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔حکیم عبدالمنان لکھتے ہیں‘‘میں اپنے بزرگ کے ہمراہ مطب آرام باغ پہنچا۔ حکیم صاحب نے مجھے گوشہ چشم سے دیکھا اور بغیر کسی تمہیدو تعارف کے فرمایا کہ آپ ہمدرد آنا چاہتے ہیں تو آ جایئے، یہاں آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں سے واپسی ادارے کی روایت کے خلاف ہے۔ مختلف حیثیتوں میں ‘‘ہمدرد’’ کے ساتھ پیوستہ رہ کر آج ‘‘ہمدرد یونیورسٹی’’کے ڈین فیکلٹی آف ایسٹرین میڈیسن ہیں۔
حکیم صاحب نے 75غیرملکی کانفرنسوں میں شرکت فرمائی۔35سال ‘‘شام ہمدرد’’ کا سلسلہ جاری رہا۔امریکہ، کینیڈا، روس، چین، کوریا، برطانیہ، فرانس، سری لنکا اور دوسرے ممالک کا نہ صرف دورہ کیے بلکہ عمدہ ‘‘سفرنامے’’ پیش کیے۔ طب کے بارے میں بعض بااثر لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کے سلسلے میں انہوں نے بڑا کام کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اطباء، ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کا اتحاد قائم ہوا۔ بچوں کے ساتھ ان کو بے پناہ لگاؤ تھا۔
وہ تمام اجلاس بروقت شروع کرنے کے قائل تھے اور ہر مجلس میں وقت پر پہنچنا لازمی تھا۔پہلا مریض ساڑھے پانچ بجے دیکھ لیتے تھے، جس شگفتہ مزاج سے وہ پہلا مریض دیکھتے تھے شام تک وہ ہی موڈ برقرار رکھتے۔
میں نے کہا محترم آپ ان تمام کاموں کے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں۔ ہزاروں خطوں کا جواب آپ دیں۔ شادی غمی میں آپ شریک ہوں۔ ہمدرد کی میٹنگوں کی صدارت آپ کریں۔ شام ہمدرد اور بزمِ نونہال میں آپ موجود۔ کتابیں آپ کی آئے چلی جاتی ہیں۔ 1992ء میں سچی کہانی کے عنوان سے آپ نے نونہالوں کے لیے 200صفحات پر مشتمل کیا خوب کتابیں پیش کیں۔ لگاتار ‘‘مطب’’ کرنا اور کانفرنسوں میں شرکت کرنا یہ سب کیسے ممکن ہوتا ہے۔ کہنے لگے نیند کو مختصر کر کے اوسطاً چار گھنٹہ کی کردو اور زندگی معمولات کے مطابق گزارو، سب ممکن ہو جائے گا۔آج کل دو سوال لوگ اکثر کرتے ہیں۔ حکیم صاحب کے قاتلوں کا کیا بنا، مَیں ان سے کہتا ہوں کیا بننا ہے اوروں کا کیا بنا جو حکیم صاحب کے قاتل کا پتا چلے گا۔
نئی پوشاک بدلنے میں ہے قاتل مصروف
تعزیت کے لیے مقتول کے گھر جانا ہے