عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور ایک رات کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز آئی، وہ چونک پڑا، آواز کی طرف لپکا تو دیکھا ایک شخص غلاف کعبہ کو پکڑے گڑگڑا رہا ہے۔ ‘‘ مولا! دنیا میں فتنہ و فساد بہت ہو چکا، ان ظالموں کو اب اٹھا لے، جو لالچی ہیں اور حقداروں کا حق مار رہے ہیں، ان کی نفسانی خواہشات نے اندھیر مچا رکھا ہے، تیرا خوف اور انصاف بھول چکے ہیں، تو کب تک ان کو مہلت دیتا رہے گا کہ وہ لوگوں کو ظلم کی چکی میں پیستے رہیں۔ ’’ خلیفہ یہ دعا سن کر پریشان ہو گیا، حرم میں ایک طرف ہو کر جا بیٹھا اور ایک قاصد اس دعا کرنے والے کے پاس بھیجا کہ اس کو بلا لائے۔ اس شخص نے دو رکعت نفل ادا کیے، حجر اسود کو بوسہ دیا اور آ کر منصور کے پاس بیٹھ گیا۔ منصور نے پوچھا۔ ‘‘ تم خدا سے کس کی شکایت کر رہے تھے؟ کون ہے جس نے فتنہ و فساد مچا رکھا ہے؟ کون ہے جو ظالم اور لالچی ہے اور لوگوں کے حقوق غصب کرتا ہے؟ وہ شخص کمال بے نیازی سے بولا ‘‘ وہ آپ ہیں۔ ’’ خلیفہ منصور غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ‘‘ اتنی بڑی حکومت میرے پاس ہے، سونے چاندی کے ڈھیر میرے دروازے پر پڑے رہتے ہیں، میں کس طرح لالچی ہو گیا؟ دنیا میری بادشاہی سے کانپتی ہے، میں کیوں کسی کا حق دباؤں گا؟ اور کون ہے جس پر میں ظلم کرتا ہوں؟ کیوں ایسا بہتان باندھ رہے ہو؟ ’’ وہ شخص گویا ہوا ‘‘ خالق نے آپ کو اپنے بندوں کے معاملات کا نگران بنایا اور آپ صرف اپنی اغراض میں لگ گئے، آپ نے اپنے اور اپنی رعایا کے درمیان آہنی دیواریں کھڑی کر لیں، کوئی فریاد کرنے والا آپ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، خود آپ رعایا کے حالات سے نا آشنا ہیں، آپ کو نہ مظلوموں کی خبر ہے نہ بھوکوں کا پتہ، فریادی اور بھوکے آپ کی نگاہوں سے اوجھل ہیں…… اور جنہیں آپ نے اپنے اور رعایا کے درمیان کھڑا کیا ہے وہ ٹیکس وصول کرتے ہیں، مال جمع کرتے ہیں اور رعایا پر حاصل فوقیت کے زعم میں من مانیاں کیے جا رہے ہیں، وہ سوچتے ہیں جب خلیفہ، اللہ و رسول کے احکامات سے غافل اور خوف الٰہی سے بے پرواہے تو ہمیں کیا، چنانچہ وہ بھی انصاف اور ایمانداری سے کام نہیں لیتے، وہ چاہتے ہیں کہ رعایا کے حالات آپ تک نہ پہنچیں تا کہ آپ کو پتا نہ چل سکے کہ آپ کے مقرر کردہ اور آپ کے پاس آنے جانے والے کس طرح عوام کو لوٹ رہے ہیں اور رعایا کی خوراک چھین کر انہیں بھوک سے مار رہے ہیں…… اے خلیفہ! آپ اپنے حکام کے کرتوتوں سے غافل اور رعایا سے بے خبر ہیں تو یہ لاپرواہی ہے جو اچھے حکمران کے لیے عیب ہے اور اگر اپنی اغراض کے لیے ایسے حکام کو ( جانتے بوجھتے ) نظر انداز کر رہے ہیں تو یہ ظلم ہے، ایسے میں آپ کی حکومت کس طرح رحم و انصاف والی ہو سکتی ہے……؟ ‘‘ اے خلیفہ! جب کوئی مظلوم ہمت کر کے آپ کے دروازے تک پہنچ ہی جاتا ہے تو دیکھتا ہے وہاں ایسے افسر بھی مقرر ہیں جن کو فریادیں سننے کے لیے مقرر کیا گیا ہے مگر وہ فریادیوں سے نذر نیاز طلب کرتے ہیں، ٹالتے ہیں اور پھر بھی شکایات آپ تک نہیں پہنچنے دیتے۔ فریادی چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے یا مر جاتا ہے یا پھر آپ کی سواری نکلنے کا انتظار کرتا ہے مگر آپ اپنے لاؤ لشکر میں اس طرح گھرے نکلتے ہیں کہ عوام قریب پہنچنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ ’’ خلیفہ منصور خاموشی سے اس بے باک کی باتیں سنتا رہا۔ اس شخص نے ایک اور بات چھیڑ دی کہنے لگا۔ ‘‘ اے امیر المومنین! میں ایک بار چین گیا تھا، وہاں کے بادشاہ کے کان میں تکلیف ہوئی تو وہ سارا دن دھاڑیں مار کر روتا رہا، اس کے مصاحب نے صبر و ضبط کی تلقین کی تو وہ کہنے لگا ‘‘ میں کان کے درد کی وجہ سے نہیں رو رہا، میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ میرے دروازے پر مظلوم آ کر دھائی دے گا اور میں اس کی آواز سن نہ پاؤں گا ’’ …… پھر کہنے لگا ‘‘ مجھے خوشی ہے کہ میرے کان کی سماعت ختم ہوئی ہے مگر میری آنکھوں کی بصارت قائم ہے، اب فریادی اپنی بات نہیں سنا سکیں گے تو کیا ہوا، میں مظلوموں کو دیکھ تو سکوں گا۔ ہاں! اب ملک میں منادی کر دی جائے کہ ‘‘ فریادیوں اور مظلوموں کے علاوہ کوئی سرخ رنگ کی قمیص نہ پہنے ’’ …… پھر چین کے بادشاہ نے معمول بنا لیا کہ صبح و شام اپنی سواری پر نکلتا اور کسی کو سرخ رنگ کی قمیص پہنے دیکھتا، اس کے پاس جا کر اس کی فریاد سے آگاہی حاصل کرتا اور حتیٰ الامکان ازالہ کر کے لوٹتا۔ ’’
خلیفہ منصور نے تو بھیگی آنکھوں سے اس شخص کی نصیحتوں کو سنا اور جہاں تک ہو سکا ان پر عمل بھی کیا مگر ہمارے دورِ ناروا میں کہ جب پورا ملک ‘‘ شہرنا پرساں ’’ بن چکا ہے، کون ایسا سچا ناصح ہو گا جو ہمارے بڑوں کو حالات کی سنگینی کی اطلاع دے پائے گا؟ کون ہے ایسا بے باک جو ‘‘ بند آنکھوں ’’ کے دروا کر کے انہیں ننگے بھوکے عوام کی جھلک دکھانے کی جسارت کر سکے گا؟ بھارت میں تین بندروں کے سنگی مجسمے، جگہ جگہ نصب دکھائی دیتے ہیں، ان میں سے ایک بندر نے اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے ڈھانپ رکھا ہے، دوسرے نے ہاتھوں سے کان بند کر چھوڑے ہیں اور تیسرا اپنا منہ دبائے بیٹھا ہے۔ وہاں مشہور ہے ‘‘ یہ گاندھی جی کے بندر ہیں ’’ ان کا مطلب ہے غلط دیکھو نہیں، غلط سنو نہیں اور غلط بولو نہیں…… لیکن یہاں تو معاملہ عجیب ہے، لگتا ہے کہ ہمارے ہاں سب نے آنکھ، کان اور منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں مگر یہ غلط کیا، صحیح اور ضروری پر بھی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، انہیں نظر ہی نہیں آ رہا کہ شہروں میں آگ اور خون کا ننگا ناچ شروع ہے، مہنگائی کے ہاتھوں لوگ مر رہے ہیں، جگہ جگہ لاشیں گر رہی ہیں، وحشت و دہشت دھمال ڈال رہی ہے، زندگی موت کا روپ دھار چکی ہے۔ بے انصافی، بدامنی اور مہنگائی جلادوں کی صورت معصوموں کے گلے کاٹ رہی ہے۔ …… انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنے کان بند کر رکھے ہیں……ان تک روتے بلبلاتے عوام کی پکار نہیں پہنچ پاتی۔ انہیں کیا معلوم کہ گلی و بازار میں ‘‘ ہائے آٹا، ہائے بجلی ’’ کیا کیا دہائی مچی ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے خاندان، بیوہ ہونے والی عورتیں اور یتیم بچے، اپنے پیاروں کا ماتم کس طرح کر رہے ہیں، یہ فریادیوں کی فریادوں سے بے خبر اور بے پرواہ ہیں۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والے کڑھتے کڑھتے دم مرگ تک جا پہنچے ہیں، ارباب بصیرت اور اصحاب دانش بہتری کی راہیں سمجھانے کو بے تاب، اونچی آواز میں پکارتے پکارتے ہلکان ہو رہے ہیں مگر ‘‘ بے خبر و بے پروا بالا نشینوں ’’ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کو چنداں فکر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہو چکا ہے؟ کیا ہو گا؟ یہ اپنی خواہشات کی بانسری منہ سے لگائے، آنکھیں بند کیے اپنی ہی تان کھینچتے چلے جا رہے ہیں، ایسے میں روم جلتا ہے تو جل جائے ان کو پرواہ نہیں۔