سنہء 1958 کی بات ھے جب ایک 30 سالہ خاتون نے پاکستان کے کوڑھ (جذام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی''کوڑھ اچھوت مرض تھا جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا تھا'' اس وقت تک اس وباء کا آج کے عہد کی طرح علاج نہیں تھا اس مرض میں مبتلا مریض کے جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے، کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے’ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں’ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے تھے''چونکہ اس وقت یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا ’اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے، یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا، ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں، یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں، لوگ آنکھ، منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے، لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اور کیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔ملک کے تقریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے، پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جذام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے ''یا تو وہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔''
کوڑھ کے بارے میں یہ فلم دیکھنے والی خاتون انتہائی خوبصورت اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی۔زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا، یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔ اور پھر یہ نہ لوٹنے کے لئے ساری زندگی پاکستان میں ہی بس گئی۔ اس کے بعد اپنے دیس واپس ہی نہیں گئی اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک، اپنی جوانی، اپنا خاندان اور اپنی زندگی تک تیاگ دی۔
اس خاتون نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور پھر کوڑھیوں کا علاج شروع کردیا۔ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو عذاب سمجھا جاتا تھا، لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔ چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے ۔ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا۔ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی، جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔
اس کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی، یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہوجاتا، اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا، ان دونوں نے کراچی میں سنہء 1963 میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی،ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں، سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا۔ یوں یہ سینٹر سنہء 1965 تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا، انہوں نے جذام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا۔ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے، تب یہ خاتون واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر وہاں کھڑی ہو گئی۔ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جذام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میں جذام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی، ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔ یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔
ان کی کوششوں سے پورے پاکستان سے جذام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے سنہء 1996 میں پاکستان کو ‘‘لپریسی کنٹرولڈ’’ ملک قرار دے دیا تھا۔پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جذام کنٹرول ہوا تھا، یہ لوگ پھر قبائلی علاقے اور ہزارہ میں بھی جذام کا پیچھا کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جذام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔ حکومت نے سنہء 1988 میں ان خاتون کی خدمت کو دیکھ کر ان کو پاکستان کی شہریت دے دی،انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات، یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ حق رکھتی ہیں۔
جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آجانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا، بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے۔ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
اس خاتون کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ تھا، ڈاکٹر رتھ فاؤ جرمنی کے شہر لائزگ کی رہنے والی تھیں اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھیں۔ ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے۔ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ سانس کی تکلیف اور عارضہ قلب کے باعث کراچی کے ایک نجی اسپتال میں 88 سال کی عمر میں 11 اگست سنہء 2017 کے دن ہم سے جدا ہوگئی۔ پاکستان نے سنہء 1979 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو جذام کے خاتمے کے لیے وفاقی مشیر بھی بنایا تھا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون’ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو
شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے’ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔
یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔ یہ لوگ انسانیت کے محسن ہیں۔ انہیں اپنے محسنوں میں انہیں اپنے ہیروز کی فہرست میں یاد رکھیں۔ ٭٭٭