خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ
مضمر تیری تقلید میں عالم کی بھلائی
میرا یہی ایمان ہے یہی میرا عقیدہ
اے رحمتِ عالم تیری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے میرا قلبِ تپیدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں بڑی دور سے با دامان دریدہ
یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخِ بریدہ