قسط -۱
"سوئے حرم" اس شمارے سے ڈنگہ ضلع گجرات کے ما یہ ناز محقق اورمصنف جناب افتخار احمد افتخار کی غیر مطبوعہ تصنیف "سیرۃ المزمل" کو قسط وار شروع کر رہا ہے ۔ اس اجازت کے لیے ہم جناب افتخار کے بے حد شکر گزار ہیں۔ ۱۵ جلدوں پر مشتمل سیرت کی یہ کتاب اردو زبان میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے ۔
کائنات میں رنگ و بو کی بہار جب چہار سو چھانے کو تھی تب بہت سے صاحب ِ علم جانتے تھے کہ لوگوں کی بھلائی کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور سر افلاک اِک ہلچل ہے جس کا عکس زمین کے موجودات اور نباتات تک نے محسوس کیا ہے ۔شیطان آ سمانوں سے بھگا دئیے گئے تو زمین سے آ سمان تک وہ راستے سج گئے جن راہوں سے فلاح انسان تک منتقل کی جانی تھی جب نبی اکرم ﷺ کی آمد کا وقت قریب آ گیا تودشتِ فاران کی رونق بھی بڑھ گئی ۔کئی راہبوں نے اپنی خانقاہوں پہ چراغاں کیا کہ وہ گل سر سبد تشریف لانے والے ہیں جس کے بعد دنیا میں بستے انسانوں نے اس پیغام الہٰی سے آ گاہ ہونا تھا جو انسان کے لیے آخری بار اتارا جا رہا تھا۔ یہود و نصاریٰ اس امر سے آ گاہ تھے کہ کوئی بھی شخص اگر دعویٰ کرے کہ وہ اﷲ کا نبی ہے تو اس کے دعوی کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اس کا تذکرہ سابقہ الہٰامی کتابوں میں نہ دیکھ لیا جائے اور اس آنے والے نبی کی بشارت سابقہ انبیاء نے دے دی ہو ۔اُن کے اسی خیال کو قرآن حکیم نے یوں پیش کیا ہے۔ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ۔ ترجمہ: جس پیغمبر کو وہ اپنے ہاں توراۃ و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، ( سورۃ آلِ عمران )
جب نبی اکرم ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے اپنی نبوت کا اظہار کیا تب دنیا میں یہود و نصاریٰ ہی وہ واحد امت تھے جن کے پاس الہامی کتاب موجود تھی اوروہ اپنے انبیا کی اِن بشارتوں سے بھی آ گاہ تھے جن میں نبی اکرم ﷺ کے متعلق خبر دی گئی تھی چنانچہ مورخین نے یہود و نصاریٰ کی امت سے بہت سے ایسے لوگوں کے احوال بیان کئے ہیں جنھوں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی کتابوں میں بیان کی گئی نشانیوں کی بنا پہ پہچان لیا تھا اور اپنی خوشی اور دل کی رضا سے آپ ﷺ پہ ایمان لے آئے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار لیا تھا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہود و نصاریٰ کی اکثریت بد بخت ثابت ہوئی اور انھوں نے نبی اکرم ﷺ پہ ایمان لانے سے اعراض کیا اور خاص طور پہ اُن کے علما جو آپ ﷺ کو بخوبی پہچان چکے تھے لوگوں کو آپ ﷺ پہ ایمان لانے سے روکتے تھے کہ ان کے دل تعصب و عناد سے آ لودہ ہو چکے تھے اور وہ جو صدیوں سے اُن کی آمد کی امید اپنے دلوں میں سجائے بیٹھے تھے جب آبِ حیات کا وہ سرچشمہ اُن کے سامنے آ یا تو وہ پیاسے ہی رہ گئے اور اسی تشنگی میں اُن کے دلوں میں حسد و عناد کی آگ بھڑک اٹھی جو آج تک جل رہی ہے اور قیامت تک اُن کے دل اسی آگ میں ہی جلنے کے لیے ہیں ۔ جب نبی اکرم ﷺ سے آپ کے صحابہ نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں حضرت ابراہیم کی دعا ہوں میں اپنے بھائی عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں اور آپ ﷺ نے جو فرمایا اس کی تصدیق قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی: وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیْهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠۔ ترجمہ: جب ابراہیم اورا سماعیل خانہ کعبہ کی بنیاد رکھ رہے تھے تو انھوں نے دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہماری یہ خدمت قبول فرما کہ تو ہی دعاؤں کا سننے والا ہے نیتوں کا جاننے والا ہے ۔ خداوند! ہم کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل میں سے بھی ایک گروہ ایسا پیدا کر جو تیرا فرمانبردار رہے اور ہم کو عبادت کے طریقے سکھا اور ہم سے درگزر فرما کہ تو بڑا ہی در گزر کرنے والا اور مہربان ہے ۔ اے ہمارے رب ! اوراِن میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرما جو اُن کو تیری آئیتں پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے اور تو ہی غالب اور حکمت والا ہے ۔( سور بقرہ۱۲۹۔ ۱۲۴ )
یاد رہے کہ جب ظہورِ نبوت کا زمانہ قریب آیا تو عرب کے کاہنوں اور ان کے جنوں پہ عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور ان پر آسمان کے دروازے سختی کے ساتھ بند کر دئیے گئے اور عرب کاہنوں کے مطابق اُن پہ یہ سختی دو دفعہ کی گئی ایک دفعہ تب جب نبی اکرم ﷺ پیدا ہونے والے تھے اور دوسری دفعہ تب جب آپ ﷺ پہ قرآن اترنے کو تھا چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دونوں واقعات نادر تھے اس لیے زمین و آسمان پہ جو حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اُن کی بدولت عرب کے اکثر کاہن اور یہود و نصاریٰ کے علماء یہ بات جانتے تھے کہ کوئی اہم واقعہ رو نما ہو نے کو ہے ۔ چنانچہ کتب ِسیر اور آثارِ تاریخ میں عرب کاہنوں اور نصاریٰ کی خانقاہوں سے بہت سی ایسی روایات منقول ہیں جن میں نبی اکرم ﷺ کی پیدائش یا نبوت کی بشارت دی گئی ہے تاہم ان میں بہت سی روایات چونکہ اصولِ روایت و درایت کی رو سے کمزور قرار دی جاتی ہیں اس لیے ہم اِن کا تذکرہ حذف کرتے ہوئے ان کی مشترک اساس کو قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں سرز مین عرب کے باشندوں کی گمراہی اور عقائدکی پستی اس بات کی غماز تھی کہ یہاں کوئی اﷲ کا پیغمبر اترے ۔ بھولے قافلوں کومنزل کی نوید سنائے اور اس لیے بھی کہ روم و فارس کے درمیان دس سال تک جاری رہنے والی جنگ نے عرب کو بھی اس کا متلاشی کر دیا تھا کہ وہ اس امن و آشتی کی راہ تلاش کریں جس میں ان کی دنیا اور آخرت دونوں کا سکھ موجود ہو ۔خاص عربوں کے لیے اصحاب الفیل کا واقعہ دل ہلا دینے کے لیے کافی تھا اور یہ عین اسی موسم بہار کی بات ہے جب نبی اکرم ﷺ اس دنیا میں تشریف فرما ہوئے اور اسی روح اعظم کی منتظر نگاہیں روم و فارس تک میں موجود تھیں جس کی بھر پور شہادت اہل تاریخ و سیر نے مہیا کی ہے اس لیے کہ روم و ایران کے بہت سے یہود ونصاریٰ اپنی کتابوں اور انبیا کی بشارتوں کی وجہ سے اس امر سے آگاہ تھے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں دنیا کے انسانوں کو دکھوں سے نجات دلانے کے لیے کسی مسیحا نے اترنا تھا۔
امام بخاریؒ نے روایت کی ہے جب نبی اکرم ﷺ کا قاصد قیصر روم کے دربار میں پہنچا تو اس نے کہا مجھ کو یہ خیال تو ضرور تھا کہ کوئی نبی آنے والا ہے مگر میں یہ نہ جانتا تھا کہ وہ عربوں میں ظہور کرے گا۔ اگر میں اس کے قریب ہوتا تو اس کی حمایت کرتا اس کی تکریم کرتا اور اس کے پاؤں دھو کے پیتا۔ قیصر کو اس کے محرم راز بشپ اورا س کے دوست ابن ناطور نے بتا رکھا تھا ختنہ والے رسول کے ظہور کا زمانہ قریب آ لگا ہے ۔اور نبی اکرم ﷺ کے قاصد کو اسی قسم کا جواب شاہ مصر مقوقس سے ملاکہ اس نے کہا ہاں میں جانتا ہوں کہ ایک نبی اس دنیا میں انسانوں کی خیر و فلاح کے لیے اترنے والا ہے تاہم میرا خیال تھا کہ وہ شام میں ظاہر ہوگا۔ اور حبش کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے جواب دیا کہ ہم اُن کو سچا جانتے ہیں اور اُن پہ ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ ابن سعد ، ابن اسحاق مسند احمد ، تاریخ بخاری ، مستدرک حاکم ، دلائل بہقیی ، معجم العبدان ، طبرانی اور دلائل ابونعیم وغیرہ میں سینکڑوں ایسی روایات موجود ہیں جن سے مجموعی طور پہ یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بہت سے صاحب ِ دانش لوگ اس امر سے آ گاہ تھے کہ سرکارِ دوعالم کی آمد آمد ہے اور آنحضرت ﷺ کے ظہور سے پہلے مدینہ کے یہودی تو باقاعدہ اس بات کا چرچا کیا کرتے تھے کہ ایک نبی عنقریب ظاہر ہونے والا ہے جس سے مل کر وہ عربوں پہ غلبہ حاصل کر لیں گے ۔چنانچہ ابن سعد وغیرہ کی سندکے ساتھ یہ واقعہ تاریخ و سیر کی کئی کتابوں میں منقول ہے کہ ایک انصاری نوجوان نے کہا ،کہ ہمارے ہاں ایک یہودی واعظ تھا جو ہم کو نبی اکرم ﷺ کی بشارت دیا کرتا تھا ۔ایک بار جب وہ درس دے رہا تھا تو لوگوں نے اس سے سوال کیا ؟کہ وہ نبی کب تک ظاہر ہوں گے ۔تو اس یہودی واعظ نے جواب میں اپنے لڑکے کی طرف اشارہ کیا اور کہا ۔اگر یہ جیتا رہا اور جوان ہوا تو یہ یقینا اُن کو پا لے گا ۔اسی طرح وقت گزرتا رہا ۔حتیٰ کہ نبی اکرم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے ۔یہودی کا وہ لڑکا حضرت انس بن مالک کے پاس آ یا کرتا تھا ۔اور اُن کے چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا ۔ایک دفعہ اس لڑکے کو بخار ہو گیا ۔تو حضرت انس بن مالک نے نبی اکرم ﷺ سے اُس کی بیماری کا تذکرہ کیا ۔تب نبی اکرمﷺ حضرت انس بن مالک کے ساتھ اُس یہودی لڑکے کی عیادت کو تشریف لے گئے ۔وہاں اس لڑکے کا باپ بھی تھا جو اہل مدینہ یعنی اوس و خزرج کو آ نے والے نبی ﷺ کی بشارت دیا کرتا تھا ۔تب نبی اکرم ﷺ نے اس لڑکے کے باپ کو مخاطب کیا اور کہا ،کیا تم میرا ذکر اپنی کتاب میں نہیں پاتے تو یہودی واعظ نے انکار کر دیا ۔اس پہ بخار میں تڑپتا اس کا لڑکا بولا ۔اے میرے باپ اب تو جھوٹ کو چھوڑ دے جس کی بشارت تو ہم کو ساری زندگی دیتا آیا ہے وہ تیرے سامنے بیٹھا ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے اس یہودی واعظ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔مگر اس نے نکار کر دیا ۔تب آپ ﷺ نے یہی دعوت اس کے بیمار بیٹے کو دی ۔تو اس نے اسے قبول کر لیا ۔
عربوں کے یہودی لوگ اپنے اس دوغلے رویے کی بنا پہ اس سعادت سے محروم رہ گئے جو ازلی و ابدی ہے۔ قرآن حکیم میں اِن کے اس رویے پہ جا بجا تنقید کی گئی ہے چند آیات یہاں بطور مثال پیش کی جاتی ہیں: وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ ( سورۃ البقرہ آیت 89 ) ترجمہ؛اس سے پہلے کافروں پر اسی آ نے والے پیغمبر کا نام لے کر فتح چاہا کرتے تھے پس جب وہ بات سامنے آ گئی جس کو انھوں نے پہچان لیا تو انکار کر دیا کافروں پہ خدا کی لعنت ہو۔ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ (سورۃ البقرہ) ترجمہ: جن کو کتاب پہلے دی جا چکی ہے وہ یقینا ( اِن نشانیوں کی بنا پر جو اس کتاب میں مذکور ہیں ) جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ ( سورۃ بقرہ آیت 146) ترجمہ : جن کو ہم پہلے کتاب دے چکے ہیں وہ اسلام ( اور نبی اکرم ﷺ ) کی صداقت کو اسی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں لیکن اِن میں سے ایک فریق سب کچھ جانتے ہوئے بھی چھپاتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ۔ ( سورۃ انعام 20) ترجمہ: جن کو ہم پہلے کتاب دے چکے ہیں وہ رسول اﷲ ﷺ کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔
مگر یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ کے سارے گروہوں نے نبی اکرم ﷺ کا انکار نہ کیا تھا بلکہ توراۃ و انجیل کے ماننے والوں میں سے ایک گروہ کو اﷲ نے ہدایت اور سیدھی راہ عطا فرمائی تھی اِن میں سے بہت سے لوگ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوتے اور اپنی کتاب میں بیان کی گئی نشانیوں کی بنا پہ آپ ﷺ کو پرکھتے ،سوالات کرتے اور جب اُن کے دل مطمئن ہو جاتے تب وہ ایمان لانے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ کرتے تھے ۔اسی لیے تو شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں جب حضرت جعفر طیار نے اسلام اور اس کی برکات پہ موثر اور مدلل انداز میں تقریر کی اور سورۃ مریم کی آیات پڑھ کے سنائیں تو نجاشی پہ رقت طاری ہو گئی اور اس کی دونوں آ نکھوں سے آ نسو جاری ہو گئے ۔تب نجاشی نے نبی اکرم ﷺ پہ ایمان لانے کا اظہار کیا ۔اور اس کی گواہی خود نبی پاک ﷺ کی زبان مبارک نے دی ۔اس لیے کہ جب نجاشی فوت ہو گیا تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا ۔اُٹھو اور اپنے بھائی نجاشی کی نماز جنازہ پڑھو ۔اور اہل کتاب کی اس گواہی کو اﷲ تعالیٰ نے کفار ِقریش اور دیگر عربوں کے لیے بطور حجت پیش کیاجو انکار پہ تلے کھڑے تھے ۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ- (سورۃ احقاف 10) ترجمہ: اے پیغمبر!ان سے( عربوں سے ) کہو کہ وہ غور کریں کہ اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہو اور وہ اس سے انکار کر رہے ہوں جب کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ نے اس طرح کی ایک کتاب نازل ہونے کی گواہی بھی دی ہے اور ایمان بھی لایا ہے اور تم مغرور بنے ہوئے ہو تو سوچو ایسی صورت میں تمہارا انجام کیا ہوگا ’’۔ اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ- (سورۃ الشعراء 197) ترجمہ: کیا ان کفار کے لیے یہ نشانی کافی نہیں کہ اِن کو تو علمائے بنی اسرائیل بھی جانتے ہیں ۔
عربوں کو اس طرف متوجہ کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ خاص طور پہ عرب کاہن اس بات کو جان چکے تھے کہ آ سمانوں پہ کوئی اہم فیصلہ کیاجا چکا ہے جس کی وجہ سے اُن کے جن عاجز ہوکررہ گئے تھے اور آ سمانوں پہ پہرے سخت کر دئیے گئے تھے اور شہاب و ثاقب اُن کے جنوں کو بھسم کر رہے تھے۔ان کے اس خیال کی تصدیق قرآن کی اِن آیات سے بھی ہو تی ہے۔
قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْۤا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا. یَّهْدِیْۤ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا. وَّ اَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا. وَّ اَنَّهٗ كَانَ یَقُوْلُ سَفِیْهُنَا عَلَى اللّٰهِ شَطَطًا. وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا. وَّ اَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا. وَّ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا. وَّ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّ شُهُبًا. وَّ اَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ١ؕ فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا. وَّ اَنَّا لَا نَدْرِیْۤ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا. (سورۃ الجن آیات 1 تا 10) ترجمہ: آپﷺ فرمائیے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ بڑے غور سنا ہے قرآن کو جنوں کی ایک جماعت نے پس انھوں نے ( جاکر دوسرے جنات کو)بتایا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو راہ دکھاتا ہے ہدایت کی پس ہم ( دل سے ) اس پہ ایمان لے آ ئے ہیں اور ہم ہرگز شریک نہیں بنائیں گے کسی کو اپنے رب کا اور بے شک اعلیٰ و ارفع ہے ہمارے رب کی شان نہ اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے اور نہ بیٹا اور( یہ راز بھی کھل گیا ہے کہ ) ہمارے کچھ احمق اﷲ کے بارے میں ناروا باتیں کہتے رہے اور ہم تو یہ خیال کئے تھے کہ انسان اور جن اﷲ کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے اور یہ کہ انسانوں میں سے چند مرد پناہ لینے لگے جنات میں سے چند مردوں کی ۔ پس انھوں نے بڑھا دیا جنوں کے غرور کو اور اِن انسانوں نے بھی یہی گمان کیا جیسے تم گمان کرتے ہو کہ اﷲ رسول بنا کر کسی کو مبعوث نہیں کرے گا اور سنو ! ہم نے ٹٹولنا چاہا آ سمانوں کو تو ہم نے اس کو سخت پہروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا اور پہلے تو ہم بیٹھ جایا کرتے تھے اس کے بعض مقامات پر سننے کے لیے۔ لیکن اب جو جن سننے کی کوشش کرے گا تو وہ پائے گا اپنے لیے کسی شہاب کو انتظار میں اور نہیں سمجھتے ( اس کی کیا وجہ ہے ) کیا کسی شر کا ارادہ کیا جارہا ہے زمینوں کے بارے میں یا اِن کے رب نے اِن کو ہدایت دینے کا ارادہ فرما لیا ہے۔
عرب کاہنوں کے جنات کے ساتھ تعلقات ایک معروف بات تھی جس کو عرب اچھی طرح جانتے تھے اور اس امر کا انکار نہ کرتے تھے اس لیے کہ عرب کاہن ہی اہم معاملات میں اُن کی راہنمائی کا ذریعہ تھے۔ سواد بن قارب اور ابن علاط دونوں عرب کے نامور کاہن تھے اور بنوزہرہ کی ایک کاہنہ سودا بنت زہرۃ بن کلاب نے تو حضرت آمنہ کو دیکھتے ہی بتا دیا تھا کہ یہ اُس پیغمبر کو جنم دینے والی ہیں جو لوگوں کو ڈر سنائے گا ۔اوپر کی آ یات میں جنوں کی جس جماعت نے نبی اکرم ﷺ کی زبان سے قرآنِ مبارک سن کر دین اسلام قبول کیا تھا یہ تعداد میں سات تھے تفاسیر اور مسندات میں اِن کے نام بیان کئے گئے ہیں جو کہ یہ ہیں ۔۱۔ شامر۲۔ ماصر۳۔ ومنشی۴۔ ولاشی۵۔ الاحقاب۶۔سرق۷۔ جابر۔اور ان کے نام ابن ہشام نے ابن درید سے روایت بھی کئے ہیں ۔اور ساتھ ہی یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ۔ ابوبکر طاہر الاشبیلی القیسی نے ابوعلی الغسانی سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزایک دفعہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ عازم سفر تھے کہ وہ ایک چٹیل میدان سے گذرے تو انھوں نے ایک مردہ سانپ کو پایا ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سانپ کو اپنی چادر میں لپیٹا اور اسے زمین میں دفن کر دیا ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ایک ساتھی نے بیان کیا کہ جب ہم اس سانپ کو دفن کر رہے تھے تب ہم نے یہ آواز سنی ،کوئی کہہ رہا تھا ۔اے سرق یاد کر رسول اﷲ ﷺ نے تیرے بارے میں فرمایاتھا کہ تو ایک چٹیل میدان میں مرے گا اور تجھے ایک مرد صالح دفن کرے گا ۔ہم نے اس بولنے والے کو تلاش کیا مگر کہیں نہ پایا ۔تب ہم نے اسے آ واز دی ۔اورحضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے سوال کیا ؟توکون ہے ؟تو بولنے والے نے جواب دیا ۔کہ ہم جنوں کی اس جماعت سے تھے جنہوں نے اول اول نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے کلام پاک سنا تھا اور اسے اپنے ساتھیوں تک پہنچایا تھا اور ہم سات تھے ایک ایک کر کے سب گزر گئے صرف میں ( ماصر ) اور سرق ہی باقی بچے تھے اور آج سرق بھی چل دیا ہے اور اب میں اکیلا ہی اس جماعت سے باقی بچا ہوں جنھوں نے نبی اکرم ﷺ کی اُس روز زیارت کی تھی۔ اور اس جماعت میں سے عمرو بن جابر کی موت کا احوال ابن سلام نے ابو اسحاق السبیعی کی سند سے اپنے شیوخ سے اور انھوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کرتے ہو ئے فرمایاکہ ،میں صحابہ ؓ کی ایک جماعت کے ساتھ عازم سفر تھا ۔ اچانک تیز ہوا کے ایک بگولے نے ہمارا راستہ روکا ۔پھر ایک اور بگولا آیا جو ذرا بڑا تھا اور وہ دونوں بگولے باہم مل گئے ۔پھر یہ بگولے جدا ہو گئے ۔گرد و غبار بیٹھ گیا تو ہم نے دیکھا کہ ۔وہاں ایک مردہ سانپ پڑا تھا ۔ہم میں سے ایک شخص نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے اور ایک حصے میں اس سانپ کو لپیٹ کر زمین میں دفن کر دیا ۔اور وہاں سے چلے گئے ۔ شام کو ہم نے صحراکے بیچ قیام کیا ۔اور رات گئے جب ہم چاند کی روشنی میں پرانے قصے ایک دوسرے کو سنا رہے تھے
تب اچانک ہی ہم نے دو خوبصورت عورتوں کو دیکھا ۔اُن کا حسن بے انتہا تھا اور لباس سے وہ کسی اور ہی دنیا کی عورتیں لگ رہی تھیں ۔اُن میں سے ایک نے ہم سے سوال کیا۔تم میں سے عمرو بن جابر کو کس نے دفن کیا ہے ۔ہم نے جواب دیا !ہم تو کسی عمرو بن جابر کونہیں جانتے ۔اس پہ وہ مسکرائی اور کہا !ہاں تم اسے کیسے جان سکتے ہو۔تاہم یہ جان لو کہ آج دن کے وقت تم نے جس سانپ کو دفن کیا تھا وہ ایک جن تھا اور اسی کا نام عمرو بن جابر تھا ۔اور وہ اس جماعت میں شامل تھا جس نے نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے کلام الٰہی سنا تھا اور ایمان لایا تھا ۔اور آج فاسق جنات کے ساتھ ایک جنگ میں وہ مومن جنوں کی قیادت کر رہا تھا اور شہید ہو گیا ۔اتنا کہنے کے بعد وہ عورتیں وہاں سے چلی گئیں ۔اور بعض نے یہ کہا کہ اچانک ہی غائب ہو گئیں ۔ (جار ی ہے)
٭٭٭