حقیقتوں کا شناسا دکھائی دیتا ہے
جو بھیڑ میں بھی اکیلا دکھائی ہے
جو اپنے درد کا درماں نہ کر سکا اب تک
تمہیں وہ شخص مسیحا دکھائی دیتا ہے
ادا ہے کون سی اُس بے وفا ستم گر کی
جو غیر ہو کر بھی اپنا دکھائی دیتا ہے
جواب اس کا ملا ہم کو اس مقولے میں
جو اچھے ہیں اُنہیں اچھا دکھائی دیتا ہے
خزاں کی آخری ہچکی ہے یا نویدِ بہار
‘‘شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے’’
وہ آ گئے ہیں ، وہ بیٹھے ہیں ، مسکراتے ہیں
شب فراق میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے
شب وصال کے ہوتے ہیں مختصر لمحے
ہنسا ہے چاند بس اتنا دکھائی دیتا ہے
چراغِ بزم ہیں کچھ لوگ ان کی قدر کرو
کہ ان کے بعد اندھیرا دکھائی دیتا ہے
کرشمہ یہ بھی ہمارے ہی ذوق کا ہے وقار
جو رنگ و بُو کا تماشا دکھائی دیتا ہے