جب سے قلم ہوا ہے مرا آشنائے نعت
آتی ہے حرف حرف سے مجھ کو صدائے نعت
پھر کیسے تشنہ کام رہے طائرِ خیال
بہتی ہے کشتِ فن میں مرے آبنائے نعت
شہرت کے ساتھ ساتھ ہنر بھی ملا مجھے
یہ بھی عطائے نعت ہے وہ بھی عطائے نعت
جچتا نہیں نظر میں کوئی موسمِ خیال
یوں چھا گئی ہے ذہن پر آب و ہوائے نعت
آیاتِ دلنشیں ہیں مری بات کا ثبوت
قرآں کی ابتداء سے ہوئی ابتدائے نعت
خلاقِ دو جہاں کی حمد و ثنا کے بعد
خورشید بیگ اور کیا لکھے سوائے نعت