ملالہ ہمت اور جذبے کی علامت بن چکی ہے۔یہ بات درست ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں کو ڈرون حملوں میں اپاہج اور ہلاک ہونے والے سینکڑوں بچے یاد نہیں اور میڈیا کو صرف ملالہ سے مطلب ہے۔ اس کے ساتھ زخمی ہونے والی شازیہ اور کائنات کے بارے میں کوئی فکر اور ذکر نہیں۔بالکل اسی طرح جیسے مغرب نے گزشتہ پانچ سو برس سے ایک انیس سالہ ان پڑھ فرانسیسی دہقانی لڑکی جون آف آرک کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ حالانکہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ میں لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے مرے۔ ہزاروں عورتوں کو جون کی طرح مشرک ہونے کے جرم میں پادریوں نے چوکوں میں نصب چوبی کھمبوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا۔لیکن پاپائے روم نے ان میں سے کسی کو جون کی طرح ولی کا درجہ نہیں دیا اور شیکسپئیر، والٹیئر، بریخت، برنارڈ شا نے بھی اپنے ڈراموں کا کردار بنایا تو صرف جون کو۔کیسا ظلم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کی مزاحمت کرنے والے فرانسیسی حریت پسندوں کو اپنا مزاحمتی سمبل بھی پانچ سو سال پرانی جون آف آرک میں ہی دکھائی دیا۔حالانکہ جون آف آرک کے ساڑھے تین سو برس بعد انقلابِ فرانس کو ممکن بنانے میں لاتعداد لوگوں نے لہو دیا۔ مگر مجال ہے جو کسی نام نہاد فرانسیسی لبرل یا مذہبی قدامت پسند یا بائیں بازو کے دانشور یا دائیں بازو کے کسی نسل پرست نے اس نا انصافی پر کبھی احتجاج کیا ہو۔ سب کے سب آج تک جون آف آرک کی مالا جپ رہے ہیں۔توبہ توبہ توبہ۔۔۔اور اقبال کو دیکھو۔کم از کم انہیں تو معلوم ہی تھا کہ تیرہ سو سالہ مسلمان تاریخ میں ایسی سینکڑوں بچیاں اور خواتین گزریں جنہوں نے غزوات سے لے کر صلیبی جنگوں تک اور مراکش سے ہندوستان تک مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ دشمنوں سے لڑائی کی، اگلے مورچوں تک اسلحہ اور خوراک پہنچائی، زخمیوں کا خیال رکھا۔ مگر صد افسوس کہ اقبال کو بس انیس سو گیارہ میں طرابلس ( لیبیا) کے محاذ پر اطالویوں اور ترکوں کی جنگ میں زخمی غازیوں کو مشکیزے سے پانی پلانے والی ایک گیارہ سالہ بچی فاطمہ بنتِ عبداللہ ہی یاد رہ گئی۔فاطمہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے، ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے۔اور یہ تئیس سال کا لونڈا بھگت سنگھ کون ہے ؟ ایک بگڑا ہوا ملحد مارکسی انارکسٹ جس کے ہاتھ ایک انگریز پولیس افسر کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ جس نے لیجسلیٹو اسمبلی میں بم پھینکا پھر بھی ہندوستان اور پاکستان میں کروڑوں گمراہ اسے آزادی کا ہیرو سمجھتے ہیں۔حیرت ہے کہ جناح صاحب کو اٹھارہ سو ستاون میں پھانسی پانے والے ہزاروں ہندوستانیوں میں سے کوئی یاد نہیں رہا۔ وہ بھی انیس سو اکتیس میں جذبات کی رو میں بہہ گئے اور جیل میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی بھوک ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ بھگت سنگھ کو بھلے آپ کچھ بھی سمجھیں لیکن وہ اپنے مقصد کی سچائی پر یقین رکھتا ہے اور اس جابرانہ نظام سے تنگ لوگوں کی بیزاری کا نمائندہ ہے۔اور نہرو کو تو دیکھو جسے انگریزوں کے خلاف نہ منگل پانڈے کا کلمہ ِ بغاوت یاد آیا اور نہ رانی جھانسی کی بہادرانہ شہادت۔ اگر یاد رہا تو بھگت سنگھ جسے نہرو نے کھلے میدان میں دشمن کو للکارنے والا جری قرار دیا۔ٹھیک ہے مان لیا بھگت سنگھ بڑا ہیرو تھا مگر اس کے ساتھ پھانسی چڑھنے والوں میں راج گرو اور سکھ دیو بھی تو تھے۔ ان کا ذکر کوئی بھگت سنگھ کی طرح کیوں نہیں کرتا۔ ان پر کسی نے کیوں ڈرامے نہیں لکھے، گیت نہیں کہے، فلمیں نہیں بنائیں، یادگاری ٹکٹ اور سکے جاری نہیں کیے۔اور تو اور بھارتی پارلیمنٹ کے صحن میں بھی بھگت سنگھ کا ہی اٹھارہ فٹ اونچا تانبے کا مجسمہ لگایا گیا۔ کوئی پوچھے کہ راج گرو اور سکھ دیو کا کیا قصور ؟ چلیں بھارتیوں کی مرضی جو چاہے کریں مگر غضب خدا کا یہ پنجاب حکومت کو کیا ہوا کہ اس نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے اسی برس بعد لاہور کے شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک کردیا۔ کیا اسے تقسیم کے وقت شہید ہونے والے لاکھوں لوگوں میں سے کوئی نام یاد نہیں آیا۔ بے حسی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی۔اور لو تازہ ترین ظلم دیکھو۔ مشرقِ وسطی میں شاہی، فوجی اور سیاسی استبداد کے خلاف گذشتہ سو برس میں ہزاروں لوگ جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ لیکن آج کروڑوں بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ عرب سپرنگ جس نے گذشتہ دو برس میں الجزائر سے بحرین تک ہر آمر کو ہلا دیا، تیونس، مصر، لیبیا اور یمن میں حکومتیں الٹ دیں اور لاکھوں شامیوں کو موت کے منہ پر تھوکنے کا حوصلہ بخشا اس کی ابتدا تیونس کے ایک چھبیس سالہ سبزی فروش محمد بوعزیزی کی خود سوزی سے اٹھنے والی چنگاری سے ہوئی۔ اس سبزی فروش کے لیے تیونس کی نئی حکومت نے ڈاک ٹکٹ جاری کیا اور برطانوی اخبار ٹائمز نے اسے دو ہزار دس کا مین آف دی ایئر قرار دے ڈالا۔
ایسا کیوں ہے کہ سات ہزار برس کی تاریخ لاکھوں قربانیاں دینے والوں اور ایک سے ایک ذہینوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان لاکھوں میں سے صرف سقراط، جون آف آرک، شیکسپئیر، لیونارڈو ڈا ونچی، فاطمہ بنتِ عبداللہ، آئن سٹائن، بھگت سنگھ، چی گویرا، مارٹن لوتھر کنگ، محمد بو عزیزی جیسے پانچ چھ سو لوگ ہی ہمیں یاد آتے رہتے ہیں؟بات شاید یہ ہے کہ تاریخ ایک مسلسل گیت ہے جسے ایک سے ایک سریلا میسر ہے۔ مگر ایک خاص فضا اور موقع پر ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک کا سر ایسے لگ جاتا ہے کہ چھت پھٹ جاتی ہے، شیشہ تڑخ جاتا ہے یا بارش ہوجاتی ہے۔ یوں وہ سریلا اور سر اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔ورنہ تو یہ بحث کبھی ختم ہی نہ ہو کہ ملالہ کے ساتھ دیگر سینکڑوں ہزاروں زخمی بچے کیوں یاد نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح کہ جنہیں صرف عافیہ یاد ہے انہیں امریکیوں کے ہاتھوں عقوبت خانوں میں رسوا ہونے والی سینکڑوں عراقی اور افغان عورتیں اور پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر عریاں گھمائی جانے والی لڑکیوں اور قبائلی علاقوں میں سر قلم ہونے والی ادھیڑ اور بوڑھی عورتوں کے نام کیوں یاد نہیں ؟ ایسی بحث میں نہ ملالہ کا کوئی بھلا ہے نہ عافیہ کا۔۔۔اکثر ہماری آنکھیں تعصب کے موتیے سے دھندلا جاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ منظر دھندلا ہے۔ اگر موتیا صاف کروا کے چشمے کا نمبر بدل لیا جائے تو مسئلہ با آسانی حل ہو سکتا ہے۔
(بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام ۱۵ ، اکتوبر ۲۰۱۲)