شہادت حسینؓ سے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں انہیں ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں
(۱) امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:
سیدنا حسینؓ کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے اللہ! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہوں۔
(۲) عزت کی حفاظت کرنا:
سیدنا حسینؓ کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ ان کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ آپ نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ : ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں۔
(۳) دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:
دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے حضرت حسینؓ نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔
(۴) شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا:
جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ سیدنا حسینؓ نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تاکہ عوام میں جذبہ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ آپ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ : میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔
(۵)اپنے ہدف پرآخری دم تک باقی رہنا:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔آپ آخری سانس تک اپنے موقف پر قائم رہے اور دشمن کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ اس سے امت کو یہ د رس دیا کہ جو چیز آپ کے نزدیک حق ہو اس پر موت تک قائم رہنا ہی کامیابی ہے ۔
(۶) افراد کی قلت سے گھبرانا نہیں چاہئے :
کربلا ، حضرت علی ؓ کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ‘‘حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعدا د کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے۔’’ جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ سیدنا حسین ؓ اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق کادفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ فقط میرے اور ابن زیاد کے د رمیان معاملہ ہے ۔
(۷)اپنے ساتھیوں کی ہر حال میں تربیت:
کربلاکے اس مشکل سفر میں بھی آپ اس بات سے غافل نہیں ہوئے کہ اپنے متعلقین کی تربیت کرنا ہے چنانچہ مسلسل خطبات اور وعظ و نصیحت سے ان کی تربیت کا حق اداکر تے رہے۔
(۸) تلوار پر خون کوفتح:
مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً آپ اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن تاریخ میں کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔
(۹) پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے:
کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقیدہ و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ حسینؓ پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔
(۱۰) خواتین کے کردار سے استفادہ:
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام یہاں تک کہ حضورﷺ کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کوزندہ جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب ، حضرت سکینہ اور اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے ہی پہنچایا ہے۔
(۱۱)میدان جنگ میں بھی یاد خدا:
جنگ کی حالت میں بھی اللہ کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔ میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ سیدناحسینؓ نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصدتلاوت قرآن کریم ، نماز اور اللہ سے مناجات تھا۔ اسی لئے آپنے فرمایاتھاکہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشور کے دن آپ نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب کی نماز شب بھی قضا نہ ہوسکی ، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔
(۱۲) اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا:
سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہ داری کو نبھانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ سیدنا حسین ؓنے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھاکہ جو اللہ چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔
(۱۳) دنیا ، خطرناک لغزش گاہ ہے:
دنیا کے عیش و آرام و مال و دولت کی محبت تمام سازشوں ا ور فتنہ و فساد کی جڑہے۔ میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو حسینؓ کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے حکومت کے لالچ اور حکمران سے ملنے والے انعامات کی امید پر آپ کا خون بہا یا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زبانوں تک رہ گیا ہے۔ خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ آپ کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرہ برابربھی محبت نہیں تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ آپ نے عاشورہ کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آؤ۔
(۱۴) آزادی:
کربلا ،آزادی کا مکتب ہے اور سیدنا حسین ؓاس مکتب کے معلم ہیں۔ آزادی وہ اہم چیز ہے جسے ہر انسان پسندکرتا ہے۔ آپ نے عمر سعد کی فوج سے کہا کہ اگر تمھارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو تو کم سے کم آزاد انسان بن کر تو جیو۔
(۱۵) جنگ میں ابتداء نہیں کرنی چاہئے:
اسلام میں جنگ کو اولیت نہیں ہے۔ بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوں کی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے سیدنا حسینؓ نے کوشش کی کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہوجائے اور یزید سے براہ راست مذاکرات کرنے کی پیش کش کی مگر زیاد نہ مانا۔
(۱۶) اللہ سے راضی رہنا:
مسلمان کا سب سے بڑا کمال، ہر حال میں اللہ سے راضی رہنا ہے۔ سیدنا حسینؓ نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ ہم اہل بیت کی رضا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی اللہ سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔
٭٭٭