سیدنا حسینؓ کا عفو و گزشت
بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا تو حضرت حسینؓ کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پہ نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کینہ تھا ابھر آیا میں نے ان سے کہا: پسر ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اورا ن کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔ حسینؓ نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
‘‘عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پناہ لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں توخدا کو یاد کرتے ہیں اور فورا آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔( سورہ اعراف، ۹۹۱،۲۰۲)
ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا:
تھوڑا دھیرے اور حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو رہنمائی کی ضرورت ہے تو رہنمائی کرتاہوں۔
عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور حسین نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا:کوئی اشکال اور ملامت آپ پر نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔( سورہ یوسف ۲۹)اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں اس کے بعد انہوں نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اسکے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہیے ہے مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا ہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے میں بڑا پاؤ گے۔عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے آپ سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روئے زمین پر آپ اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا۔ (سفینۃ البحار، ج 2، ص 116)
ایک سائل کے ساتھ آپ کا سلوک
شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب ‘‘ تحف العقول‘‘ نقل کرتے ہیں :انصار کا ایک آدمی حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امام نے اس سے فرمایا:اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو انشا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کے پانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے مہلت دے دے جب حسینؓ نے اس کے نوشتہ کو پڑھا فورا گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا:پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا جن کی میں تمہیں پہچان کروا رہا ہوں۔۱: متدین اور دیندار، ۲: سخی اور اہل کرامت، ۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔( تحف العقول ، ص 245)
سیدناحسینؓ کا تواضع
روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن آپ کی پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ زین العابدین سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپ نے فرمایا: یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔( مناقب ابن شہر آشوب، ج4، ص 66).
سیدنا حسینؓ کا احسان
انس کہتے ہیں: میں حسینؓ کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا دستہ امام کو ہدیہ دیا۔ امام نے فرمایا:تم راہ خدا میں آزاد ہو۔عرض کیا: اس نے آپ کے لئے پھولوں کا ایک دستہ لایا کہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپ اس کو آزاد کر دیں۔ امام نے فرمایا: خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سیکھایا ہے۔ اور قرآن میں فرمایا: واذا حْییتْم بِتَحِیۃ فَحَیوا بِاحسَن مِنہا او رْدّْوہا.‘‘ ( نساء جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔(کشف الغمۃ، ج 2، ص 31.)