اس صدی میں جن ہندستانی علما نے قرآن کریم کی تفسیری خدمات انجام دیں، ان میں ایک عبقری شخصیت حضرت علامہ مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی رحمۃ اللہ کی ہے۔ یہ ۱۸۹۷ء میں دیوبند میں پیدا ہوئے تھے۔ اکابر و شیوخ عصر سے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پائی۔ پھر وہیں دارالافتاء میں صدر مفتی کے منصب پر فائز ہوئے اور فقہ کو اپنی تحقیقات سے مالا مال کیا۔ تفسیر ایام شباب سے مطمح نظر تھی۔ اسی زمانہ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی ہدایت و نگرانی میں قرآن سے مستنبط ہونے والے مسائل و احکام پر ایک جلیل القدر تالیف ‘‘احکام القرآن’’ کا آغاز فرمایا تھا، جو ان کے پاکستان منتقل ہونے کے بعد مکمل ہوئی۔ احکام القرآن پر مکمل تالیف کا کام حضرت تھانوی نے جن تین علماء کی ایک مجلس کو سپرد کیا تھا وہ علامہ ظفراحمد عثمانی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی تھے۔ ان کی محنتوں سے احکام القرآن پر یہ عظیم الشان تالیف چھ ضخیم جلدوں میں مکمل ہوئی۔ جو احکام القرآن جصاص رازی کی طرح بے نظیر ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب نے سورۂ شعراء سے والناس تک کی آیات کی تفسیر دو جلدوں میں لکھی ہے جو احکام القرآن کی پانچویں و چھٹی جلد ہے۔ یہ تصنیف عربی زبان میں ہے اور مطبوعہ ہے۔ ساتھ ہی مفتی صاحب کے تفقہ، وسعت نظر اور استنباطات و اجتہادات کی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے انتہائی تحقیق و تدقیق اور دیدہ ریزی و محنت سے فقہ و عقائد اور تصوف و اخلاق، نیز معاشرت و تمدن کے مسائل پر قرآنی دلالت و اقتضاء اور ارشادات سے بحث کی ہے۔ انھوں نے کیسے کیسے مسائل کو لیا ہے اس کا ہلکا نقشہ سورۂ نمل کی آیت ۳۰/۲۹ کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے مکتوب بنام بلقیس کے ذیل میں بیان کردہ مسائل کے عنوانات ذکر کر دینے سے سامنے آجائے گا۔ ان دو آیتوں کے ذیل میں انھوں نے آٹھ عنوانات قائم کیے ہیں وہ یہ کہ حضرت سلیمان کا خط کس زبان میں تھا؟ خطوط نویسی کے آداب کیا ہیں؟ خط لکھنے والا اپنا نام پہلے لکھے، پھر مکتوب الیہ کا نام لکھے۔ خط کا جواب دینا واجب ہے یا سنت، خطوط میں بسم اللہ لکھنا۔ ایسی تحریر جس میں قرآنی آیت لکھی ہوئی ہو، کافر و مشرک کے حوالہ کرنا، خط مختصر و جامع لکھنا اور اس پر مہر لگانا، یا لفافہ میں رکھنا۔ اس طرح کے عنوانات کے ذیل میں مراسلت کے تمام مسائل اس آیت سے مستنبط کر کے انھوں نے تحریر فرمائے ہیں۔
احکام القرآن کے علاوہ انھوں نے آیت ‘خاتم النبیین’ پر عربی میں ایک مبسوط کتاب ‘ہدیۃ المہدیین فی آیت خاتم النبیین’ کے نام سے لکھی ہے۔ اس تفسیری کتاب کی جلالت شان کا اندازہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے دیباچہ سے ہوتا ہے جسے انھوں نے اس پر لکھا ہے۔ اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: وھاک رسالۃ تفسیریۃ، حدیثیۃ ، کلامیۃ، فقھیۃ وبعد ذٰلک کلہ ادبیۃ یسری الفاظھا سرایۃ الروح فی البدن ویقع فی قلب المومن کحلاوۃ الایمان ویجری فی العروق کمحض اللبن (ص ۱۱۶)
یعنی یہ رسالہ تفسیری، حدیثی، کلامی اور فقہی ہے۔ مزیدبرآں یہ ادبی ہے۔ اس کے الفاظ دل و دماغ میں ایسے سرایت کرتے ہیں جیسے بدن میں روح، اور قلب مومن میں اس کا مزہ حلاوت ایمان کی طرح محسوس ہوتا ہے اور اس کے اثرات رگوں میں خالص دودھ کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔
مفتی صاحب نے کئی اور رسالے عربی زبان میں مختلف قرآنی آیات پر مستقلاً تحریر فرمائے جو احکام القرآن کا جز بن کر شائع ہوئے ہیں۔ اُردو میں انھوں نے دو رسالہ ‘تحذیر الامام عن تغیر رسم الخط من مصحف الامام’ اور ‘صیانۃ القرآن عن تغیرالرسم واللسان’ تحریر کیا ہے، جو جواہر الفقہ جلد دوم میں شامل ہے۔ پہلے رسالہ میں مصحف عثمانی کے رسم الخط اور اس کی اتباع اور کسی دوسرے رسم الخط میں قرآن لکھنے سے متعلق جواز و عدم جواز پر بحث کی ہے۔ اور دوسرے رسالہ میں ترجمۂ قرآن اور عربی متن کے بغیر اس کی اشاعت کے موضوع پر، ایک اور رسالہ حرف ضاد کے مخرج سے متعلق ہے۔ احکام القرآن اور دیگر عربی اور قرآنی رسائل و کتب کے علاوہ اُردو میں جو فقہی خدمت تفسیر قرآن کی انھوں نے کی ہے اور جو ان کے آخری دور کی تالیف ہے، اور جس میں گذشتہ ان تمام کتابوں اور ان کے علوم و معارف کا جوہر و نچوڑ سمٹ کر آگیا ہے وہ ‘معارف القرآن’ ہے جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ یہ تفسیر کئی مرحلوں سے گزری ہے۔ پہلا مرحلہ اس کا ریڈیو پاکستان کا نشری دور تھا جو ۱۹۵۴ء سے شروع ہوا تھا اور ۶۴ء میں ختم ہوا تھا۔ تقریباً دس برسوں تک ‘معارف القرآن’ کے نام سے مفتی صاحب کی یہ تفسیر ہر جمعہ کو خاص خاص آیات سے متعلق نشر ہوتی رہی۔ یہ نشری تفسیر اس قدر مقبول ہوئی کہ لوگوں نے اس کے کیسٹ رکھے اور ۶۴ء میں جب بند ہوئی تو اسے کتابی صورت میں مکمل کرنے کا تقاضا کیا۔ اس نشری سلسلہ میں صرف سورۂ ابراہیم تک کی آیات کی تفسیر ہوسکی تھی۔ وہ بھی کل آیات کی نہیں تھی۔۶۴ء کے بعد مفتی صاحب نے اس پر نظرثانی و تکمیل کا کام شروع کیا، جو آیندہ نو برسوں کی مدت میں مکمل ہوکر ان کی حیات میں ہی شائع ہوئی۔ ۱۹۷۶ء میں مفتی صاحب کی وفات ہوئی تھی۔
‘معارف القرآن’ میں مفتی صاحب نے خود سے کوئی ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ حضرت مولانا محمود الحسن شیخ الہند کا ترجمہ دیا ہے۔ دیباچہ میں انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ تفسیر سے زیادہ اہم اور احتیاط کی چیز ہے۔ اور چونکہ سلف کا ترجمۂ قرآن موجود ہے اس لیے اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ کوئی نیا ترجمہ کیا جائے بلکہ ترجمہ کی عظمت کے پیش نظر اس کی ہمت بھی نہیں کی۔ ترجمہ کے بعض مسائل پر انھوں نے معارف القرآن کی جلد اوّل میں سورۂ بقرہ کی آیت ۱۲۹ کے ذیل میں اور اپنے فقہی رسالہ وصیانۃ القرآن عن تغیر الرسم واللسان میں بحث کی ہے۔
جہاں تک بات اُردو میں قرآن کے ترجمہ کی دشواری کی ہے تو یہ علمائے کرام کو معلوم ہے کہ عربی اوراُردو میں صرفی، نحوی اور انشائی و اسلوبی اعتبار سے، نیز زبان کے ارتقاء اور وسعت کے لحاظ سے مشرق و مغرب کا فرق ہے ترجمہ، کلام کی حکایت ہوتا ہے اور عربی زبان کا حال یہ ہے کہ اس کے الفاظ جہاں متجانس ہوتے ہیں وہیں بہت سے الفاظ متضاد معانی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پھر عربی زبان میں انتشار ضمائر اتنے ہوتے ہیں کہ ترجمہ میں اصل مراد کی رعایت کے ساتھ فصاحت و بلاغت کو باقی رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ پھر ان سب لغوی امور کے ساتھ صورت حال یہ ہے کہ قرآن ایک لاثانی و منزل من اللہ کلام ہے۔ ترجمہ میں اس کی خطابت و روانی اور اثرانگیزی کو باقی رکھنا ممکن نہیں۔ اُردو زبان کی تنگ دامنی اور عربی کی وسعت مترجم کو قدم قدم پر اپنی بے بسی کا احساس دلاتی ہے۔ ترجمہ کی انھی دشواریوں نے اکثر اُردو مفسرین کے تراجم کو مقبولیت عطا کرنے سے باز رکھا۔ اور ہر مفسر نے اپنے پیش رو کے ترجمہ کی خامیوں کا احساس کر کے نئے ترجمہ سے اس کو دُور کرنے کی کوشش کی۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے جو ترجمہ اختیار کیا وہ اُردو تراجم کا سرتاج کہلانے کا مستحق ہے۔ اس ترجمہ پر اپنے وقت کے دو جلیل القدر مفسرین کی محنت صَرف ہوئی ہے۔ سب سے پہلے اس ترجمہ کو حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند جلیل مفسر قرآن حضرت مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی نے ۱۷۹۰ء میں مکمل کیا تھا۔ پھر اس پر سوا سو سال گزرنے کے بعد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ نے اس بیسویں صدی کے دوسرے عشرہ میں نظرثانی کیا اوراُردو زبان کی اس صدسالہ ارتقاء نے جن الفاظ کو متروک کر دیا تھا نظرثانی میں انھوں نے نئے الفاظ کو ان کی جگہ رکھا اور زبان میں بھی معمولی تغیر کیا۔ اس ترجمہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے آسان انداز و اختصار الفاظ کے ساتھ قرآنی کی ترتیب کے مطابق ہے اور معنی مراد کو پورے طور پر واضح کرتا ہے۔ اس میں رعایت لفظی کے ساتھ اُردو محاورات کا بھی استعمال ہوا ہے اور وہ غلطیوں سے پاک ہے۔
ترجمہ کے بعد انھوں نے تفسیر میں سب سے پہلے حل لغات کو اہمیت دی ہے۔ لیکن لغات کی تحقیق میں انھوں نے اختصار اور خاص لغات کے معانی کو ملحوظ رکھا ہے۔ تحقیق کا وہ تفصیلی طریقہ اختیار نہیں کیا ہے جس میں پڑکر عام قاری گرانی محسوس کرے اور تفسیر کو مشکل فن سمجھ کر مطالب قرآن سے دُور ہوجائے۔ اسی طرح انھوں نے نحوی ترکیب، فنِ بلاغت کے نکات اور اختلاف قرأت کی بحثوں سے بھی صرفِ نظر کیا ہے اگرچہ یہ امور اہلِ علم کے لیے فہم قرآن میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
متن قرآن اور ترجمہ کے بعد حل لغات کے ساتھ خلاصہ تفسیر انھوں نے آسان لفظوں میں اس طرح لکھا ہے کہ ترجمہ کے ساتھ تفسیر چند جملوں کے اضافہ کے ساتھ آگئی ہے۔ یہ طریقہ اور تفسیر انھوں نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی تفسیر بیان القرآن سے لیا ہے، بلکہ ‘بیان القرآن’ کو آسان کر کے پیش کردیا ہے۔ حضرت تھانوی نے ‘بیان القرآن’ اس انداز سے لکھا ہے کہ متن قرآن کے بعد ترجمہ میں قوسین کے درمیان چند الفاظ اور جملوں کے اضافہ سے تفسیر ہوگئی ہے۔ مفتی شفیع صاحب نے ‘بیان القرآن’ کو خلاصہ تفسیر میں اس طرح اختیار کیا ہے کہ کہیں بھی عام قاری کو اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی دوسری جگہ سے اخذ کیا ہے۔ اُردو تفاسیر میں ‘بیان القرآن’ اپنے اختصار کے باوجود اہلِ علم کے درمیان اشرف التفاسیر کہلاتاہے۔ لیکن اپنے مشکل الفاظ اور علمی اصطلاحات کی وجہ سے خاص قارئین تک محدود ہوگیا ہے۔ ۵۳ء میں حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اس کی تسہیل کا ارادہ فرمایا تھا مگر وہ عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ بالآخر مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں تسہیل کرکے اس کو دوام عطا فرما دیا۔ ان کے اس طریقہ کی وجہ سے ‘معارف القرآن’ میں ایک اور ترجمہ شامل ہوگیا۔ یعنی متن کے ساتھ تو ترجمہ شیخ الہند تھا اور خلاصہ تفسیر میں ترجمہ تھانوی آگیا۔ اس خلاصہ تفسیر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن پڑھنے والا جب ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن پڑھ لیتا ہے تو اس کے بعد خلاصہ تفسیر میں آیات کا سیدھا مطلب اس کے ذہن میں آجاتا ہے اور وہ اُردو کے عام مفسرین کی طویل بحثوں میں الجھے بغیر آیات کے معانی تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ اس طریقۂ تفہیم میں انھوں نے صحابہ و تابعین کے اس تفسیری نہج کو اختیار کیا ہے۔ جس میں وہ آیات کی تشریح ایک دو جملوں کے اضافہ سے کردیتے تھے۔ اور قاری دقیق مباحث میں اُلجھے بغیر آیت کی روح تک رسائی حاصل کرکے ربانی کلام سے ایمان کو تازہ کرتا تھا اور عمل کو اہمیت دیتا تھا۔
اس طریقۂ تفسیر کے بعد انھوں نے معارف و مسائل کے عنوان کے تحت ان بحثوں کو آسان جملوں میں لکھا ہے جو اس آیت کے ذیل میں آتی ہیں، اور عصرِحاضر میں ان کی ضرورت ہے لیکن وہ ہرآیت کے ذیل میں یہ عنوان نہیں قائم کرتے ہیں بلکہ چند آیات کے مسائل و معارف کو ایک ساتھ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کا ترجمہ و خلاصہ تفسیر دینے کے بعد پوری سورہ کے لیے معارف و مسائل کا عنوان قائم کرتے ہیں اور یکے بعد دیگرے ذیلی عناوین کے تحت حمد، رب، مالک، روزِ جزا کی حقیقت، نقلی و عقلی استدلال، عبادت، استعانت، ہدایت، صراط مستقیم، کتاب اللہ، رجال اللہ وغیرہ مسائل پر بحث کی ہے اور اس ذیل میں آنے والے بعض عصری مسائل جیسے فرقہ وارانہ اختلاف وغیرہ کو بیان کیا ہے۔
انھوں نے معارف و مسائل کے عنوان کے تحت چند خاص امور کا التزام کیا ہے۔ پہلی جلد میں تو انھوں نے ربط آیات کو لیا ہے۔ چونکہ اپنے معانی کے اعتبار سے قرآن ایک منظم و مربوط کتاب ہے۔ اس لیے انھوں نے ربط آیات کو ہرجگہ ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے آیات کے معانی کے ذیل میں آنے والی احادیث کو بھی ہرجگہ ذکر کیا ہے۔ تفسیر قرآن کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کا صحیح علم تعلیم رسولؐ ہی کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔ وہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۲۹ کے تحت ‘‘معارف ومسائل’’ عنوان کے ذیل میں لکھتے ہیں:
‘‘تلاوت آیات کا سن لینا فہم قرآن کے لیے عربی زبان جاننے والوں کے واسطے بھی کافی نہیں بلکہ تعلیم رسولﷺ ہی کے ذریعہ قرآنی تعلیم کا صحیح علم حاصل ہوسکتا ہے۔ قرآن کو تعلیماتِ رسولؐ سے جدا کر کے خود سمجھنے کی فکر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ آگے چند سطور کے بعد لکھتے ہیں: قرآن کریم میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے کا مقصد یہ قرار دیا کہ وہ قرآن کریم کے معانی و احکام کی شرح کرکے بیان فرمائیں، ارشاد ہے:
لتبین للناس ما نزّل الیھم (القرآن) (معارف القرآن، جلداوّل، ص ۳۳۵)
قرآن کی تفسیر میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی فردبشر کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ ہرآیت و لفظ کا مرادی معنی و مطلب سمجھ سکے؟ یا کسی مفسر نے کسی بھی آیت کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے خدا کے منشا کو من و عن اسی طرح سمجھ لیا ہے جس طرح خدا اسے سمجھانا چاہتا ہے۔ ہندستان کے بعض اہلِ علم نے اس قسم کی تشکیک پیدا کرنی چاہی ہے کہ کوئی شخص منشائے خداوندی کو من و عن سمجھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مفتی محمد شفیع صاحب نے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر۷ کے تحت ‘‘آیات محکم و متشابہ’’ کی تفسیر میں اس مسئلہ پر مختصراً بحث کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی کچھ آیات تو ایسی ہیں جن کی مراد سمجھنے میں کوئی اشتباہ و التباس ایسے شخص کو پیش نہیں آتا ہے جو قواعد عربیہ کو اچھی طرح جانتا ہو اور اصولِ شرع سے واقف ہو۔ ایسی آیات کے مرادی معنی و منشاء خداوندی سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس تفہیم میں کوئی ریب و شک ہوتا ہے بلکہ ایسی ہی آیات ساری تعلیمات شرع اسلامی کی اساس و اصل الاصول ہوتی ہیں اور انھی آیات کو اللہ نے آیات محکمات اور ‘اُم الکتاب’ قرار دیا ہے۔ باقی وہ آیات جو متشابہات کہلاتی ہیں۔ ان میں بعض الفاظ تو ایسے ہیں جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں جیسے مقطعات قرآنیہ اور بعض آیات کو آیاتِ محکمات کی طرف راجع کرنے سے متکلم کی مراد سمجھ میں آجاتی ہے۔ جیسے قرآن نے حضرت مسیح کو ‘‘کلمۃ اللہ’’ اور ‘‘روح منہ’’ کہا ہے۔ اگر ان آیات سے حضرت مسیح کی ابنیت یا الوہیت کو نصاریٰ ثابت کرنا چاہیں تو درست نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ ان آیات کو جب آیات محکمات جیسے آیت، ان ھو الا عبد انعمنا علیہ اور ان مثل عیسٰی عند اللّٰہ کمثل آدم خلقہ من ترابٍ کی طرف راجع کیا جاتا ہے تو ان کا مطلب صاف ہوکر سامنے آجاتا ہے کہ حضرت مسیح، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور اس کی مخلوق ہیں۔ مفتی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ متشابہات کی صحیح مراد صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، وہی اپنے کرم و احسان سے جس کو جس قدر حصہ پر آگاہ کرنا چاہتاہے کردیتا ہے۔ لہٰذا ایسے متشابہات سے اپنی رائے کے مطابق کھینچ تان کر کوئی معنی نکالنا صحیح نہیں ہے۔ وہ آگے تفسیر مظہری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ محکمات کے معانی ہمارے لیے معلوم کرنے مفید اور ضروری تھے تو اللہ تعالیٰ نے وہ پوشیدہ نہیں رکھے اور دوسری قسم یعنی متشابہات کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے بیان نہیں فرمائے۔ لہٰذا ان کا معلوم کرنا بھی ہمارے لیے ضروری نہیں، ایسی آیات پر اجمالاً ایمان لے آنا ہی کافی ہے۔ (معارف القرآن، جلد دوم، ص ۲۱-۲۲)
قرآن کریم کی تفسیر کے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں ایک تو جن لوگوں نے آیات کی تفسیر اپنے ذاتی خیالات و مزعومات کے ذریعے کرنی چاہی اور اپنے کسی غلط عقیدے و نظریے کو قرآنی آیات سے ثابت کرنے کی ناروا کوشش کی۔ انھوں نے آیات کی تفسیر خالصتاً اپنی عقل و فہم سے آثار و روایات اور اصولِ شرع کو پسِ پشت ڈال کر کی۔ ماضی میں ایسی کوششیں مختلف فرقوں نے کی۔ جیسے قرامطہ، باطنیہ، معتزلہ، یا زمانۂ قریب میں سرسیداحمد خاں، ڈپٹی نذیراحمد، عبداللہ چکڑالوی و پرویز وغیرہ نے اہلِ سنت کے بعض ایسے مفسرین نے بھی خاص خاص آیات کی اصول شرع اور آثار و روایات کو چھوڑ کر اپنی عقل و رائے سے ایسی تفسیر بیان کی جو قرآن کی دیگر آیات کے مفاہیم اور حدیث رسول و شرع اسلامی کے مسلم اجماعی اصولوں کے خلاف ہے۔ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے تاویل و تحریف کا طریقہ اختیار نہیں کیا ہے اور نہ تفسیر بالرائے کے نہج کو اپنایا ہے۔ انھوں نے آیات کی تفسیر میں احادیث رسولؐ، آثارِ تابعین اور اقوال آئمہ مفسرین ہی کو دلیلِ راہ بنایا ہے اور اس طرح تفسیر بالماثور کو اختیار کیا ہے لیکن تفسیر کے اس ماثور طریقہ میں انھوں نے متقدمین کے اس نہج کی پیروی نہیں کی ہے، جس میں آیات کے ذیل میں آثار نقل کردیے جاتے ہیں، اور کبھی کبھی متعارض روایات ضعیف اسناد کے ساتھ پیش ہوتے ہیں، بلکہ تفسیر تو انھوں نے راجح روایت کی اساس پر اپنے آسان لفظوں میں کی ہے۔ اور معارف و مسائل کے ذیل میں موقع و محل کی رعایت کے ساتھ آثار و روایات نقل کردیے ہیں۔ روایات کا عموماً عام اُردو قارئین کی رعایت سے ترجمہ دیتے ہیں۔ کہیں اصل عربی الفاظ بھی دے دیتے ہیں اور ہرجگہ مستند کتب حدیث و تفسیر سے حوالہ درج کردیتے ہیں۔ وہ عام طور پر کتب صحاح کے علاوہ تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر بحرمحیط، اور تفسیر مظہری سے حوالے نقل کرتے ہیں۔
اُردو میں جو تفسیریں لکھی گئی ہیں ان میں بعض تو حواشی کے طور پر ہیں جیسے شاہ عبدالقادر کی موضح القرآن، علامہ شبیراحمد عثمانی کا حاشیہ۔ مولانا احمد سعید دہلوی کا حاشیہ، اور جو مستقل تفسیری کتاب کے طور پر لکھی گئی ہیں اور کسی درجہ میں متداول ہیں۔ ان میں تفسیر ماجدی، تفسیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، تفسیر مولانا امین احسن اصلاحی وغیرہ ہیں جو حواشی کے طور پر مختصر تفسیریں ہیں وہ بلاشبہ بڑی قابلِ قدر ہیں لیکن مختصر ہیں۔ ہر دور کے کچھ خاص مسائل ہوتے ہیں جن کو مفسر آیات سے استنباط کرکے بیان کرتا ہے اور وہ ان مختصر تفسیری حواشی میں بیان نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ جو متداول تفسیریں ہیں ان میں بعض کا رنگ تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی ہے اور بعض کا نہج، جغرافیائی، مذاہب قدیم سے تقابلی، یا موجودہ سائنسی تحقیقات و معاشی انقلابات کی تردید یا تطبیق کا ہے۔ مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تاریخی، جغرافیائی، سیاسی، سائنسی یا تقابلی مسائل سے بحث نہیں کرتے ہیں بلکہ جس طرح قرآن نے اقوامِ گذشتہ کی تاریخ، ملکوں کی حالت اور گذشتہ ملتوں کی معاشرت و عقائد کے بیان میں اختصار و تذکیر کے پہلو کو مدنظر رکھا ہے۔ مفتی صاحب نے بھی ابواب پر اتنا ہی لکھا ہے جس سے مجمل علم کے ساتھ تذکیر و موعظت حاصل ہوسکے۔
اُردو مفسرین میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے سوا مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کو تنہا یہ شرف حاصل ہے کہ وہ ایک فقیہ تھے اور دارالعلوم دیوبند جیسے ادارہ کے دارالافتاء میں صدر مفتی کے منصب پر فائز ہوکر اُمت کے مسائل و مشکلات اور ضروریات کو دیکھنے اور ان کا حل پیش کرنے کا موقع ملا تھا، بلکہ زندگی بھر کا ان کا یہ مشغلہ رہا کہ وہ عوام و خواص کے روزمرہ کے مسائل کو ان کی اپنی تحریروں میں پڑھتے اور ان کا جواب لکھتے تھے ، اس لیے اخیر عمر میں جب انھوں نے تفسیر لکھی تو اس میں وقت کو پیش آنے والے مسائل کو خصوصیت کے ساتھ مدنظر رکھا، اور آیات کے ذیل میں ان سے بحث کی۔ اسی سے وہ ہرجگہ آیات کی تفسیر میں اس کے نکات و حقائق کے لیے معارف و مسائل کا عنوان لگاتے ہیں بلکہ مختصر لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ توحید، رسالت، انبیاء کے منصب و مقام، معاشرتی مسائل، معاشی و کاروباری معاملات، اخلاقیات، عباداتِ خمسہ، اسلامی حکومت کے بنیادی امور، اُمت کے تقویٰ و اتحاد کے مسائل اور اسلامی حدود جیسے مسائل پر زیادہ بحث کرتے ہیں۔ اُردو مفسرین کی صف میں وہ تنہا مفسر ہیں جو جدید فقہی مسائل پر چاہے عبادات سے متعلق ہوں یا معاشرت و معاملات سے یا حکومت و سیاست سے متعلق ہوں۔ وہ ایک مفتی و فقیہہ کی طرح دوٹوک، سادہ و پُرمغز استدلالی بحث کرتے ہیں اور اس انداز سے دلائل بوقت ضرورت دیتے ہیں کہ ایک عالم و غیرعالم کسی اُکتاہٹ و گرانی کے بغیر مطمئن ہوجائے اسی طرح توحید و رسالت، وحی یا دوسرے عقیدہ و ایمان سے متعلق مسائل ہیں یا جدید ملحدین یا مشککین کے اعتراضات کے جواب میں نہ تو انھوں نے معذرت کا لہجہ اختیار کیا ہے اور نہ ان کے پُرفریب نظریات سے متاثر و مرعوب ہوکر اسلامی مسائل میں تاویل و ترمیم کی روش اختیار کی ہے۔ اس طرح ہم یہ بات معارف القرآن کی خصوصیت میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ آسان زبان میں، صحیح قرآنی تفسیر ہے۔ اور تفسیری زوائد سے پاک ہے اور عصری مسائل میں کلام اللہ سے بہترین رہنمائی کے باب میں تمام اُردو تفسیروں میں بہترین تفسیر ہے۔ محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری اپنی کتاب یتیمۃ البیان فی شئ من علوم القرآن میں لکھتے ہیں:
معارف القرآن للاستاذ الکبیر المفتی الاکبر مولانا الشیخ مفتی محمد شفیع الدیوبندی طالت حیاتہ المبارکۃ فی عافیۃ فی ثمانی مجلّدات ماخذ بین القرآن لحکیم الامۃ الشیخ التھانوی فلخصہ فی عبارات واضحۃ وزاد علیھا مسائل وابحاثاً یحتاج الیھا العصر الحاضر، ولسنا نحتاج الثناء علی الکتاب، فاصبح خیر تفسیر یستفید منہ عالم و غیر عالم (یتیمۃ البیان، ص ۶۹)
‘‘استاذ کبیر مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی (طالت حیاتہ) کی تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں ہے۔ جس کا مآخذ حکیم الامت مولانا تھانوی کی تفسیر بیان القرآن ہے۔ جسے مفتی صاحب نے آسان اور واضح عبارت میں تلخیص کی ہے اور ایسے مسائل و مباحث کا اضافہ کردیا ہے جس کی عصرحاضر کو ضرورت ہے ۔ یہ کتاب ہماری تعریف کی محتاج نہیں ہے۔ یہ بہترین تفسیر ہے جس سے عالم و غیرعالم استفادہ کرتے ہیں۔
٭٭٭