سیلاب

مصنف : محمود شام

سلسلہ : نظم

شمارہ : جولائی 2012

 

کتنے کم طرف تھے رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے
پوچھتی رہتی ہے ڈوبی ہوئی دھرتی ہم سے

 

بن بتائے ہی چلا آیا ہے گھر پر ملنے
جان پہچان ہے دریا کی پرانی ہم سے

 

جب میسر تھی سرِ عام چھلکنے دی تھی
پھر گریزاں ہی رہے جام و صراحی ہم سے

 

دیکھ کر ایسی ہی ناشکریء نعمت اکثر
روٹھی رہتی ہے خْدائی بھی، خْدا بھی ہم سے 

 

آتی نسلیں بھی کسی روز یہی پوچھیں گی
کیوں نہ محفوظ ہوا قیمتی پانی ہم سے

 

آج محدود ہیں کیمپوں میں جزیروں کی طرح
پہلے سیکھی تھی دریاؤں نے روانی ہم سے

 

اب تو ندی بھی ہماری نہیں سْنتی ہے کبھی
سْن کے سوتا تھا سمندر بھی کہانی ہم سے