کتنے کم طرف تھے رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے
پوچھتی رہتی ہے ڈوبی ہوئی دھرتی ہم سے
بن بتائے ہی چلا آیا ہے گھر پر ملنے
جان پہچان ہے دریا کی پرانی ہم سے
جب میسر تھی سرِ عام چھلکنے دی تھی
پھر گریزاں ہی رہے جام و صراحی ہم سے
دیکھ کر ایسی ہی ناشکریء نعمت اکثر
روٹھی رہتی ہے خْدائی بھی، خْدا بھی ہم سے
آتی نسلیں بھی کسی روز یہی پوچھیں گی
کیوں نہ محفوظ ہوا قیمتی پانی ہم سے
آج محدود ہیں کیمپوں میں جزیروں کی طرح
پہلے سیکھی تھی دریاؤں نے روانی ہم سے
اب تو ندی بھی ہماری نہیں سْنتی ہے کبھی
سْن کے سوتا تھا سمندر بھی کہانی ہم سے