جولائی 2012
کتنے کم طرف تھے رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے پوچھتی رہتی ہے ڈوبی ہوئی دھرتی ہم سے بن بتائے ہی چلا آیا ہے گھر پر ملنے جان پہچان ہے دریا کی پرانی ہم سے جب میسر تھی سرِ عام چھلکنے دی تھی پھر گریزاں ہی رہے جام و صراحی ہم سے ...
نومبر 2005
ڈگمگاتے ہیں میرے پاؤں زمیں ہلتی ہے میرا بستہ میرے ہاتھوں سے گر جاتا ہے آسماں مجھ کو بلاتا ہے اکیلا ہی چلا جاؤں ، ماں