خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہو گا؟ 

مصنف : عنایت علی خان

سلسلہ : نظم

شمارہ : اپریل 2012

 

خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہو گا؟ 
پھر اک فریبِ بہاراں کا سلسلہ ہو گا 
 
تجھے خبر ہے نسیمِ بہار کیا ہو گا؟
گلوں کی آگ میں کل باغ جل رہا ہو گا
 
ابھی شروعِ سفر ہے ابھی کہاں منزل! 
نگاہِ شوق نے دھوکا کوئی دیا ہو گا 
 
خود اپنے در پئے آزار کون ہوتا ہے؟ 
ہمیں فلک بھی تعجب سے دیکھتا ہو گا 
 
فرازِ دار سے اُبھرے صدا تو بات بنے 
گھٹی گھٹی سی کراہوں سے کیا بھلا ہو گا 
 
عنایتؔ آج چلی ہے جو یاد کی پُروائی 
پھر آج زخمِ تمنائے جاں ہرا ہو گا 
٭٭٭
 جب بیٹی چوکھٹ پار کرے 
اور عزت کا بیوپار کرے 
 
جب باپ کی عزت کھو جائے 
جب قوم کی غیرت کھو جائے 
 
جب بھائی کو طعنے ملتے ہوں 
جب بہنوں کے دل جلتے ہوں 
 
جب ماؤں کی نظریں جھک جائیں 
اور سانس لبوں پر رک جائیں 
 
جب شرم و حیا کا آمیزہ 
جب ایک کنواری دوشیزہ 
 
جب بے شرمی کو اپنا لے 
جب خود کو ذلت میں ڈھالے 
 
تو اِس حالت کو جاہل…… 
یہاں ویلنٹینا کہتے ہیں
٭٭٭