احادیث کی روایت عموماً بالمعنی ہوتی ہے؛ نیزان میں ناسخ ومنسوخ بھی ہوتا ہے، بعض دفعہ کسی حدیث کا تعلق بعض اشخاص واوقات کے ساتھ ہوتا ہے؛ اسی طرح حدیث کے الفاظ بعض دفعہ مختلف معانی کے متحمل ہوتے ہیں، معانی کے اس اختلاف سے عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آتی ہیں، کبھی حکم نص میں صراحتا ًموجود ہوتا ہے، اس کے بارے میں ائمہ کے درمیان اتفاق بھی ہوتا ہے؛ البتہ اس حکم کی علت اور سبب کے تلاش میں ہرفقیہ دلائل وشواہد کی روشنی میں الگ راہ اپناتا ہے۔
ان علمی اسباب کی بنیاد پریہ بات سمجھنے کی ہے کہ فقہاء کے مابین یہ اختلاف عین تقاضائے شریعت ہے اور چونکہ احکام وآراء میں یہ اختلاف اجتہاد، اخلاص وللّٰہیت، تلاشِ حق، منشائے خداوندی کوسمجھنے اور مرادِ نبوی کی حقیقت کوجاننے کے لیے ہوا ہے اس لیے اس کومذموم اوربْرا نہیں کہا جاسکتا۔ اگرمنشائے خداوندی یہ ہوتا کہ فقہاء کے مابین اس قسم کا اختلاف بالکل رونما نہ ہوتو اللہ عزوجل ان تمام جزوی مسائل کوبھی قطعی دلائل کے ساتھ نازل فرماتے اور ان کے تعلق سے بھی روایات اسی تواتر وتسلسل کے ساتھ وارد ہوتیں؛ جیسا کہ شریعت کے بنیادی امور اور دین کے ضروری احکام قطعی دلائل اور متواتر روایات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں؛ بلکہ شریعت نے خود یہ چاہا ہے کہ ائمہ کے درمیان جزوی مسائل میں اس طرح کا اختلاف رونماہو۔زمانے کے حالات وضروریات اوراس کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اس عمل کومختلف طریقے سے انجام دیا جاسکے، اور مختلف مذاہب ومسالک کی شکل میں حضوراکرم کی متفرق سنتیں اور طریقے زندہ ہوں اور سماج ومعاشرے میں رواج پائیں اور تنگی کے وقت سہولت کا باعث بنیں۔
الغرض فقہی اختلاف میں احادیثِ نبوی کا بھی کردار ہے۔ اور احادیث کی بنیاد پراس اختلاف کا رونما ہونا کوئی قبیح چیز نہیں ہے۔ چونکہ شریعت نے اپنے ایک بڑے حصے میں جزوی اور متعینہ احکام دینے کے بجائے محض اصولی ہدایات دی ہیں؛ تاکہ ہردور کے حالات اور ضروریات اور عرف ورواج کے مطابق عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آسکیں اور اس نے اپنے احکام میں ایسی گنجائش اور کشائش رکھی ہے کہ ایک ہی عمل کومختلف شکل میں انجام دیا جاسکے۔
فقہی اختلاف میں حدیثِ نبوی کا حصہ کتنا ہے؟ اور حدیث کی بنیاد پرفقہاء کے مابین اختلاف کیوں کرنمایاں ہوتے ہیں ہم اس کی مختصر سی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قرآن وحدیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ تھے، وہ براہِ راست حضور اکرمﷺ سے فیض یافتہ تھے؛ اس لیے وہی حضرات قرآن وحدیث کی مراد کوصحیح طور پرسمجھ سکتے ہیں؛ لہٰذا ان حضرات نے جوسمجھا ہے وہ ہمارے لیے معیار اور مشعلِ راہ ہے ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن ورسول کے ایک ہوتے ہوئے بھی حضراتِ صحابہ کے مابین بے شمار مسائل میں اختلاف تھا۔ائمہ اربعہ نے چونکہ ان ہی حضرات اور ان سے فیض یافتہ حضرات یعنی (تابعین) کی فہم وبصیرت پراعتماد کیا ہے اور ان ہی کے اقوال ومذاہب کواختیار کیا ہے؛ اس لیے ائمہ اربعہ کے درمیان جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا وہ دراصل صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے ہوا ہے۔
صحابہ کے باہمی اختلاف کی بیشمار مثالیں حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے صحابہ کے اختلاف کے چند نمونے ذکر فرمائے ہیں: ‘‘صحابہ وتابعین میں اور ان کے بعد کے زمانے میں بعض ایسے ہیں جونماز میں بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے اور بعض جہراً نہیں پڑھتے تھے اور بعض نمازِ فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے، بعض پچھنا لگانے، نکسیر پھوٹنے اور قے کرنے کی وجہ سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے اور اس کوناقض وضو نہیں سمجھتے تھے۔ بعض لوگ مس ذکر اور عورت کو شہوت سے ہاتھ لگانے سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔ بعض لوگ آگ سے پکی ہوئی اشیاکوکھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے ۔بعض اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔’’ (حجۃاللہ البالغہ، بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعہ:۴۱۷/۲)
حاصل یہ ہے کہ احادیث کی بنیاد پر صحابہ کے مابین اس طرح کا اختلاف رونما ہوا؛ پھران سے تابعین نے اسی طرح حاصل کیا، اس کو یاد کیا اور سمجھا اور مختلف امور کوجمع کیا اور بعض اقوال کوبعض پرترجیح دی اور بعض کواپنی نظر میں ضعیف سمجھا؛ اگرچہ وہ کبارِ صحابہ ہی سے مروی تھے؛ پھرجب ائمہ نے ان کے علوم کوحاصل کیا توانھوں نے ان سے اسی طرح اخذ کیا جس طرح ان تابعی حضرات نے حضراتِ صحابہ سے حاصل کیا تھا۔
اسبابِ اختلاف
احادیث کی بنیاد پررونما ہونے والے اختلافات کے کل چار اسباب ہوسکتے ہیں:
(۱) حدیث شریف کے قابلِ عمل ہونے کا فیصلہ کرنے میں اختلاف۔
(۲) حدیث شریف کے سمجھنے میں اختلاف کا پایا جانا۔
(۳) باہم متعارض حدیثوں میں جمع وتطبیق یاترجیح یانسخ کا فیصلہ کرنے میں اختلاف پایا جانا۔
(۴) جن حدیثوں پرحکم مدار رکھا جاتا ہے، فقیہ کے پاس ایسی حدیثوں میں کمی بیشی کا پایا جانا۔
حدیث کے قابل عمل ہونے کا فیصلہ کرنے میں اختلاف
حدیث کے قابل عمل یا ناقابل عمل ہونے کا فیصلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے جس کے کئی وجوہ ہیں:
(۱) یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ حدیث کی صحت کے بعض شرائط کے سلسلے میں علما کا اختلاف ہے، مثلاً اتصال کی شرط بعض محدثین کے یہاں ضروری ہے تودوسرے بعض محدثین مثلاً امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے یہاں یہ شرط ضروری نہیں ہے۔اسی طرح بعض شرطوں کے صحتِ حدیث کے لیے ضروری قرار دینے میں اتفاق اور بعض احادیث میں اس کے بالفعل پائے جانے کا فیصلہ کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔مثلاً ایسا راوی جومدلس نہ ہواگر عن فلان کہہ کر اپنے شیخ سے روایت کرے جب کہ اس کے شیخ سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو توعام محدثین کے نزدیک وہ سند متصل سمجھی جائے گی اور بقیہ شرائط کی موجودگی میں اس پرصحت کا حکم لگے گا، جب کہ بعض محدثین (جیسے امام بخاری اور علی بن مدینی) کے نقطہ نظر کے مطابق اس سند میں اتصال کی شرط مفقود ہے؛ اس لیے بقیہ شرائطِ صحت کے ہوتے ہوئے بھی وہ لوگ اس پرمنقطع (یاضعیف) کا حکم لگائیں گے۔
(۲) یہ مسئلہ بجائے خود مختلف فیہ ہے کہ حدیث پرعمل کرنے کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ وہ اصطلاحی اعتبار سے صحیح ہو؛ چنانچہ جمہور کے نزدیک احکام وعقائد کے علاوہ ابواب میں ضعیف حدیث عمل کے لیے کافی ہوتی ہے، بشرطیکہ موضوع نہ ہو؛ بلکہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد اور بعض اہم محدثین جیسے ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ابی حاتم، رازی وغیرھم کے نزدیک تواحکام میں بھی ضعیف حدیث قابل عمل ہوتی ہے، جب کہ باب میں ضعیف کے علاوہ کوئی اور حدیث نہ ہو؛ بشرطیکہ اس کا ضعف سخت نہ ہو؛ اسی طرح دومتعارض حدیثوں کے درمیان ترجیح دیتے وقت اگرکوئی ضعیف حدیث موجود ہو جو ان میں سے ایک کوراجح قرار دیتی ہو تواس ضعیف حدیث کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب امت میں بنیادی طور پر یہ اختلاف موجود ہے کہ عمل کرنے کے لیے حدیث کا اصطلاحِ محدثین کے اعتبار سے صحیح ہونا ضروری نہیں ہے توایسا کیوں نہ ہوگا کہ جس کے نزدیک صحتِ اصطلاحی ضروری ہے وہ تواس حدیث پرعمل نہ کرکے قیاس کرے گا اور جس کے نزدیک اصطلاحاً صحیح ہونا ضروری نہیں وہ اس حدیث کے مطابق ہی فتویٰ دے گا یاعمل کرے گا۔
(۳) یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض احادیث اگرچہ اصطلاحاً صحیح ہوتی ہیں؛ لیکن چونکہ ان کی روایت بالمعنی ہوتی ہے اس لیے بسااوقات وہ مرادِ نبوی اور منشا شارع سے دور ہوجاتی ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث جس کا بنیادی راوی ایک ہی صحابی ہوتا ہے، نیچے کے درجے میں آکراس کے الفاظ متعدد ہوجاتے ہیں اور وہی فقہاء کے اختلاف کا سبب بن جاتے ہیں، مثلاً: حدیث ابوھریرجومسبوق (نمازی کی چھوٹی ہوئی رکعت) کونمازپوری کرنے کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے: قَالَ رَسْولْ اللہِ مَاادرَکتْم فَصَلّْوا وَمَافَاتَکْم فَاَتِمّْوا۔(سنن ابوداود)
جب کہ اسی حدیث کی بعض روایات میں وَمَافَاتَکم فَاقضْوا بھی آیا ہے،اب اگر اصل لفظِ حدیث فاقضوا ہوتو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسبوق اس چھوٹی ہوئی رکعت کوپہلی رکعت تصور کرے گا؛ چنانچہ اس میں ثنا، سورہ فاتحہ اور سورہ پڑھے گا جیسا کہ حنفیہ کہتے ہیں اور اگراصل لفظ فَاَتِمّْواہوتومسبوق امام کے سلام پھیرنے کے بعد جورکعت پڑھے گا اس کودورکعت والی نماز میں دوسری اور چار رکعت والی میں چوتھی رکعت تصور کرکے اس کے مطابق عمل کرے گا جیسا کہ امام شافعی فرماتے ہیں۔
(۴) یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ بعض دفعہ حدیث کے تلفظ میں اعراب کے فرق سے حکم شرعی پرفرق پڑجاتا ہے؛ چنانچہ : ذَکاۃْ الجَنِینِ ذَکَاۃْ الاْمِّہِ۔ (ترمذی) کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ دونوں لفظ ذکاۃ مرفوع ہیں، یادونوں منصوب ہیں، یاپہلا مرفوع ہے اور دوسرا منصوب ہے؛ چنانچہ اس اختلاف کا اثر حدیث سے مستنبط ہونے والے حکمِ شرعی پربھی لازماً پڑے گا؛ الغرض یہ کہ مذکورہ بالا چارصورتوں میں حدیث کے قابلِ عمل ہونے یانہ ہونے کے اختلاف کی وجہ سے علماء کے مابین حکم شرعی میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے۔
حدیث شریف کے سمجھنے میں اختلاف کا پایا جانا
یہ بات بھی مسلم ہے کہ ہرشخص کی فطری اور کسبی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی، کسی کلام کی مراد اور تہ تک پہنچنے میں ایک شخص کا ذہن سریع الحرکت ہوتا ہے تودوسرے شخص کا ذہن سست۔ ایک ہی حدیث سے ایک شخص دس مسائل مستنبط کرتا ہے تودوسرا شخص ایک بھی مسئلہ کا حکم نکال نہیں پاتا۔
امام ابوحنیفہ اور امام اعمش کا قصہ
امام ابوحنیفہ مشہور محدث سلیمان بن مہران اعمش رحمہ اللہ کی مجلس میں تھے۔ امام اعمش سے ایک مسئلہ پوچھا گیا؛ انہوں نے امام صاحب سے پوچھا توامام صاحب نے جواب میں بتایا کہ اس کا حکم یوں ہے۔ اعمش نے پلٹ کرپوچھا ،کیا حکم شرعی ایسے ہی ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا: حضرت آپ ہی نے ہم کواپنی سند سے حضراتِ ابوھریرہ، ابن مسعود اور ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث مرفوع سنائی تھی:اور آپ ہی نے اپنی سند سے حضرت ابوھریرہ سے یہ حدیث سنائی تھی:اور آپ ہی نے اپنی سند سے حضرت حذیفہ کے طریق سے یہ مرفوع حدیث سنائی تھی اور حضرت جابر کی یہ حدیث سنائی تھی اورحضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنائی تھی؛ الغرض ساری حدیثیں اعمش ہی کی بیان کردہ حضرت امام ابوحنیفہ نے پیش کردیں۔اس پر امام اعمش نے فرمایا: بس،بس! جتنا میں نے تم سے سودن میں بیان کیا، اتنا تم نے ایک گھڑی میں بیان کردیا، میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اس طرح ان حدیثوں پرعمل کروگے:اور کہا، اے فقہا کی جماعت! تم طبیب ہو اور ہم توپنساری ہیں اور تم تواے شخص دونوں پہلووں میں کامل ہو کہ حدیثوں کا ذخیرہ بھی رکھتے ہو اور ان سے استدلال اور استنباطِ احکام کا سلیقہ بھی جانتے ہو۔
اس کے علاوہ بھی کچھ اسباب ہوتے ہیں جوحدیث کی مراد سمجھنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، مثلاً حدیث کے الفاظ کا ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھنا، یاحدیث کا دوسری نصوص یادلائل سے معارض ہونا، ظاہر ہے کہ اس طرح کے مواقع میں قرائن وقیاسات اور مرجحات مختلف ہوا کرتے ہیں، جن کے نتیجہ میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے۔
باہم متعارض احادیث میں تطبیق
متعارض احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کا کام انجام دینا، یاایک کودوسرے پرترجیح دینا، یاان میں سے ناسخ ومنسوخ کا فیصلہ کرنا انتہائی دشوار کام ہے، یہ عمل اعلیٰ درجہ کی ذہانت، ذخیرہ حدیث پرانتہائی وسیع نظر صحابہ اور جملہ بلادِاسلامیہ کے علماء کے فتاویٰ اور امت کے عملِ متوارث کی واقفیت؛ نیز وجوہِ ترجیح کی جملہ شکلوں کی معرفت (جنہیں حافظ عراقی نے ایک سودس (۱۱۰) کی تعداد میں بیان کیا ہے) کا متقاضی ہے، جس کے بغیر یہ عمل انجام نہیں پاسکتا۔ صرف دوچار صحیح نصوص کوسامنے رکھ کراجتہاد کا دعویٰ کربیٹھنا اس بندر کے عمل کی طرح ہوگاجوہلدی کی ایک گانٹھ پاکر اپنے طبیب ہونے کی ڈگڈگی بجانے لگے۔
فقہاء کے پاس ذخیرہ احادیث میں کمی بیشی کا پایا جانا
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب فقیہ کے سامنے کوئی مسئلہ ہوتا ہے تواس کے پاس اس کے متعلق کوئی صریح نص موجود نہیں ہوتی؛ چنانچہ وہ اس کے نظائر پرقیاس یانصوص کے اشاراتِ بعیدہ کے ذریعہ اس کا حکم شرعی مستنبط کرلیتا ہے؛ حالانکہ اس مسئلہ سے متعلق نص صریح موجود ہوتی ہے؛ مگروہ اس تک پہونچ نہیں پاتی ۔اس طرح کے مواقع حضراتِ صحابہ اور ائمہ مجتہدین دونوں کوپیش آتے ہیں، اس کے چند نظائر پیشِ خدمت ہیں:
(۱) حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے جدہ کی میراث سے متعلق سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا: قرآن کریم میں تواس کا حصہ مذکور نہیں ہے اور نہ میرے علم کی حد تک سنتِ رسول میں اس کا ذکر ہے؛ البتہ میں اور صحابہ سے پوچھتا ہوں؛ چنانچہ حضرتِ مغیرہ بن شعبہ اور محمدبن مسلمہ نے اْٹھ کرگواہی دی کہ رسولاللہ نے جدہ کے لیے سدس حصہ مقرر فرمایا ہے؛ چنانچہ آپ نے اس کے مطابق حکم نافذ فرمایا۔
(۲) حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کومعلوم نہیں تھا کہ بیوی کواس کے مقتول شوہر کی دیت میں سے حصہ ملے گا، وہ اس کے قائل تھے کہ دیت توصرف مقتول کے عاقلہ کا حق ہے؛ چنانچہ حضرت ضحاک بن سفیان نے انھیں رسول اللہ کی حدیث بیان کی اس پرحضرت عمرؓ نے اپنی رائے ترک فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگرہمیں یہ معلوم نہ ہوتا توہم اس کے برخلاف فیصلہ کردیتے۔
(۳) اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنے اجتہاد سے ایک فتویٰ دیا، بعد میں اس کے مطابق ان سے کسی نے حدیث مرفوع بیان کردی تواس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا۔
(۴) امام مالک سے وضو میں پیروں کی انگلیوں میں خلال کرنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ایسا کرنا مشروع نہیں ہے، آپ کے شاگرد امام عبداللہ بن وہب مصری نے اختتامِ مجلس کے بعد عرض کیا: حضرت! ہمارے پاس ایک حدیث ہے۔ جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ کواپنی چھوٹی انگلی سے پیروں کی انگلیوں کے درمیان رگڑتے ہوئے دیکھاگیا ہے، توامام مالک نے فرمایا: یہ حدیث توحسن (بمعنی صحیح) ہے (ابن القطان نے اس جملہ کوامام مالک سے نقل کرکے اس کی سند کوصحیح کہا ہے) عبداللہ بن وہب فرماتے ہیں کہ پھرمیں نے امام مالک رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ اس کی پابندی کررہے ہیں اور اسی کے مطابق فتویٰ بھی دے رہے ہیں۔
الغرض فقہاء کرام نے نص کا علم نہ ہونے کی صورت میں اجتہادات فرمائے ہیں، کبھی ان کا اجتہاد نص کے موافق ہوجاتا ہے اور کبھی نص کے خلاف ہاں البتہ وہ جب نص کی عدم موجودگی میں اپنے اجتہاد سے کوئی رائے قائم کرلیتے؛ پھرانہیں اس کے خلاف کوئی حدیث مل جاتی تووہ اس سے رجوع کرلیتے؛ یہاں پرحضرت امام شافعی کا یہ مقولہ بھی ملحوظ رہے:جوشخص یہ دعویٰ کرے کہ ساری احادیث شخصِ واحد کے پاس بلاشرکت غیراکھٹی ہوگئی ہیں تووہ فاسق ہے؛ اسی طرح جس نے یہ کہا کہ کوئی حدیث جوواقعتاًحدیثِ نبوی ہو پوری امت کونہیں پہنچی وہ بھی فاسق ہے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرات فقہاء کرام کے پاس احادیث کا ایک بہت بڑا حصہ موجود تھا؛ البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی فقیہ تمام احادیث کا علم رکھتا تھا اور نہ ہی کسی کے لیے ممکن ہوا ہے۔ اور نہ ذخیرہ حدیث میں سے کوئی حدیث امت کے کسی فرد سے رہ گئی ہو؛ اس کا علم کسی کو نہ رہا ہو۔ کسی کویہاں پریہ شبہ نہ ہو کہ جب ائمہ کے علم سے بعض احادیث رہ گئیں تواس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ہوسکتا ہے کہ اور بہت سے مسائل میں ان کوحدیثوں کا علم نہ ہوا ہو اور انہوں نے بغیر دلیل کے قیاس کی بنیاد پر رائے قائم کرلی ہو؛ لھذا خود ہم ذخیرہ حدیث سے دلیل نکال کراِس کی صحت کوپرکھیں اور اس پرمطمئن ہوکر عمل کریں۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام ائمہ کے تلامذہ اور اس کے مذہب کے محققین اور اصحاب تخریج واصحاب ترجیح علما نے کردیا ہے، نئے استدراک کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی گئی؛ جیسا کہ یہ بات ائمہ کے متبوعین کی کتابوں میں دیکھنے سے جابجا ملے گی؛ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلے حدیثیں مدون نہیں تھیں، اب بڑے بڑے مجموعہ احادیث تیار ہوگئے ہیں؛ کیونکہ نہ ان احادیث کی روشنی میں ایک ایسا نیافقہ تشکیل دیا جائے اور ایک ایسا مذھب تیار کیا جائے جوصرف قوی دلائل پرمبنی ہوں، یہ بات توٹھیک ہے کہ کتابیں مدون ہوگئیں؛ لیکن ائمہ حدیث کے حدیثی واقفیت کے مقابلہ میں ان منتخب کرکے لکھے ہوئے مجموعہ احادیث کوکوئی مناسبت نہیں ہے۔یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ صرف ان کتبِ حدیث کے مجموعوں کا یکجا موجود ہونا ہی کافی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے متون مزید درایہ وتحقیق کے محتاج ہیں کہ جس کے ذریعہ احادیث کے قابلِ عمل اور ناقابلِ عمل ہونے کا پتہ چل سکے۔
ایک شخص نے امام احمد سے پوچھا کہ کیا جب آدمی ایک لاکھ حدیثیں یاد کرے تو فقیہ ہوجائے گا؟ توآپ نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیا دولاکھ؟ فرمایا نہیں، پوچھا: کہ تین لاکھ؟فرمایا: نہیں،اسنے پوچھا توکیا چارلاکھ؟ اس پر امام صاحب نے اپنا ہاتھ ہلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں، تب ہوسکتا ہے کہ وہ فتویٰ دینے کا اہل ہوجائے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگوں کومذاہب فقہاء کے تعلق سے یہ کہتے ہوئے سناگیا کہ فقہاء نے جوکچھ فرمایا ہے وہ ان کی ذاتی آراء ہیں، ان کا حدیث وقرآن سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک بھیانک اور خطرناک سوچ ہے جوبھیانک نتائج سے دوچار کرے گی۔ ائمہ فقہاء نے جوکچھ فرمایا ہے وہ درحقیقت قرآن وحدیث ہی کی شرح ہے، قرآن وحدیث سے کوئی الگ چیز نہیں یہ قرآن وحدیث کے لیے شارح کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ شارع کی۔ حضرت امام شافعی اس حوالے سے فرماتے ہیں:امت (سلف) جو کچھ کہتے ہیں وہ درحقیقت سنت کی شرح ہے اور سنت کل کی کل قرآن کریم کی شرح ہے۔
امام ظاہریہ علامہ ابن حزم اندلسی کی یہ چشم کشا عبارت بھی ملاحظہ ہو:
ائمہ مجتہدین نے جوکچھ استنباطات کیے ہیں ان کا شمار شریعت میں ہے؛ اگرچہ اس کی دلیل عوام سے مخفی ہو، جس نے اس بات کا انکار کیا؛ گویااس نے ائمہ کوخطا کی جانب منسوب کیا اور یہ کہا کہ وہ لوگ ایسے احکام مقرر کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ہے، اس طرح کی بات سراسرصراطِ مستقیم سے بھٹکنے کے مرادف ہے۔
الغرض فقہاء مجتہدین کے پاس یقیناً احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا اور یہ بات ہے کہ ائمہ متبوعین احتیاط کی بناء پر حدثنا، حدثنا کہہ کربیان کرنے سے گریز کرتے ہیں؛ چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ نے احادیثِ نبویہ کومسائلِ فقہیہ کی شکل میں بیان فرمایا، اس کی دلیل یہ ہے کہ مدونین فقہ کی جوکمیٹی حضرت امام نے تشکیل دی تھی، جب وہ حضرت امام کے بیان فرمودہ رہنما خطوط واشاروں کے مطابق مختلف پہلووں سے مجموعی طور پر غور کرکے کسی نتیجہ پرپہنچ جاتی توامام ابویوسف فرماتے ہیں کہ میں محدثین کوفہ کی مجلسوں کا چکرلگاتا کہ اس کے موافق کوئی صریح حدیث پاجاوں؛ چند ایک حدیثیں میں لیکر آتا توحضرتِ امام فرماتے:بیٹا!مجھے کوفہ والوں کی احادیث کا خوب علم ہے۔
٭٭٭