دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یانبی
ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک تلخ و تاریک ہے زندگی یانبی
اے نویدِ مسیحا تیری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اسکے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبی
کام ہم نے رکھا صرف اذکارسے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یانبی
روح ویران ہے آنکھ حیران ہے ایک بحران تھا ایک بحران ہے
گلشنوں شہروں قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گھمبیر افسردگی یانبی
سچ میرے دور میں جرم ہے عیب ہے ، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہروی ایک آزار ہے آگہی یانبی
رازداں اس جہاں میں بناؤں کسے روح کے زخم جا کر دکھاؤں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں کیوں کروں دوستوں کو دکھی یانبی
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہوگی شاخ تمنا میری کب مٹے گی میری تشنگی یانبی
یانبی اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیئے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یانبی