اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں

مصنف : فراز احمد فراز

سلسلہ : نظم

شمارہ : فروری 2012

 

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں

 

تو بھی ہیرے سے بن گیا تھا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں

 

تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں

 

ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں

 

ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں

 

دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں

 

اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں

 

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں