اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں۔ 1637کے بعد جو شاہی لشکر دہلی میں مقیم رہا وہ اردو معلی کہلاتا تھا۔ اس لیے اس کو عام طور پر لشکری زبان بھی کہا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ ہندی،ترکی،عربی،فارسی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب تھی۔ لیکن بعض محققین کا یہ خیال ہے کہ یہ آریاؤں کی قدیم زبان کا لفظ ہے۔ سر سید احمد خان اور سید احمد دہلوی کا دعوی ہے کہ اردو زبان کی ابتدا شاہجہانی لشکر سے ہوئی اس لیے اس کا نام اردو پڑا۔ بہرصورت اس وقت اس زبان کو ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔
اردو زبان کو مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گئے۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کسی فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ زبان کو معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور اس کا ارتقاء زمانہ کی ضرورت اور حالات و افکار کے تابع رہا جس میں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بقول بابائے اردو مولوی عبدالحق۔" جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے ،پتے نکلتے ،شاخیں پھیلتی ،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے۔ بڑھتی اور پھیلتی ہے۔ "
دور اول میں اردو زبان درج ذیل ناموں سے موسوم رہی ہے۔ اور اس کا ارتقائی سفر جاری و ساری رہا ۔
1۔ حافظ محمود شیرانی اور بعض دیگر ماہرین لسانیات کے مطابق قدیم اردو کو ہندوستان کی نسبت سے ہندی یا ہندوی کہا جاتا رہا ہے۔ قاضی خان بدر اور سراج الدین علی خان آرزو نے ہندوستان کی زبان کو ہندی یا ہندوی لکھا ہے۔ مفتاح الفضلاء اور دستورالبیان میں بھی اس زبان کو ہندی ہی لکھا گیا ہے۔ صوفیائے کرام نصیرالدین چراغ دہلوی ،شریف الدین یحیی منیری اور اشرف جہانگیرسمنانی نے بھی اس زبان کو ہندی یا ہندوی ہی کہا ہے۔ مغل فرمانروا بابر نے اپنی کتاب تزک بابری میں ایک شعر کو ہندوی کے طور پر درج کیا ہے۔ شاہ عبدالقادر نے بھی اس زبان کے لیے ہندی کا لفظ استعمال کیا ہے۔
2۔ رام بابو سکسینہ نے اپنی کتاب " تاریخ ادب اردو " میں لکھا ہے کہ قدیم انگریز مورخ جنہوں نے ہندوستان کے حالات لکھے تو اردو کو " اندوستان " سے تعبیر کرتے تھے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے 1877ء میں سب سے پہلے لفظ " ہندوستانی " اردو زبان کے واسطے استعمال کیا۔ میرامن " باغ و بہار " میں ہندوستانی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو زبان کو ہندوستانی زبان کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔
3۔ "ریختہ" کے لفظی معنی ہیں بنانا ،ایجاد کرنا، نئے سانچے میں ڈھالنا ،موزوں کرنا۔ لیکن ہندوستانی ادبیات میں اسے اردو زبان کے قدیم نام کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد اردو کے اس نام ریختہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ " مختلف زبانوں نے اسے پختہ کیا جیسے دیوار کو اینٹ ، مٹی چونا اور سفیدی سے پختہ کرتے ہیں۔ یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی چیز، پریشان چیز۔ چونکہ اس میں پریشان الفاظ جمع ہیں اس لیے اسے ریختہ کہاگیا ہے۔
میر تقی میر نے اپنے تذکرہ " نکات الشعراء " میں ریختہ کی وضاحت اور تشریح کی ہے۔ اس کے علاوہ بابا فرید گنج شکر اور شیخ بہاؤالدین کے ہاں بھی ریختہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلے یہ زبان نثری تحریروں کا خاصا تھی لیکن بعد میں شاعری کے لیے معروف اور مقبول ہو گئی۔
اسداللہ غالب کے ہاں اردو دیوان میں کئی مقامات پر ریختہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں اس کا ذکر کیا ہے ۔
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب لشکر یا فوج اور چھاؤنی ہے۔ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں۔عام طور پر لشکر ،پڑاؤ، خیمہ،بازار ، حرم گاہ اور شاہی قلعہ اور محل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اردو کا لفظ سب سے پہلے بابر نے تزک بابری میں استعمال کیا ہے۔ عہد اکبری میں یہ لفظ عام طور پر معروف و مقبول ہو چکا تھا۔ شہنشاہ شاہ جہاں نے نئی دہلی آباد کرکے شاہی قلعے کو " قلعہ معلی " کے نام سے موسوم کیا تو عربی ،فارسی ،ہندی وغیرہ سے ملی جلی زبان کو جس کا رواج شاہی لشکر میں ہو گیا تھا ، اردو معلی کا نام دیا گیا۔ آگے چل کر وہ زبان اپنے خاص محاوروں اور اصطلاحوں کے ساتھ قلعہ معلی میں بولی جاتی تھی۔ اردوئے معلی سے اردو قرار پانے کے عمل تک کے بارے میں ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار کے بقول" قدیم اردو کا نام اٹھارھویں صدی عیسوی تک ہندی یا ہندوی لیا جاتا رہا۔ اس کے بعد زبان کا معیار شہری طبقے ( دہلی کے شرفاء) کا روز مرہ قرار پایا تو اسے زبان اردوئے معلی کہا جانے لگا۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں معلی کی نسبت ترک کرکے زبان کا نام اردو لیا جانے لگا۔"
خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے اے مصحفی اردو ہماری ہے
وقت گزرنے کے ساتھ اس زبان کو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا جانے لگا اور یوں یہ بہتری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور آج یہ اکثر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بہرحال اس کی آب یاری اور ترویج و ترقی میں شمالی ہند کے تمام علاقوں نے حصہ لیا۔ یہیں کے لوگ اسے دکن میں لے گئے اور یہ وہاں دکنی اور گجراتی زبان کہلائی۔ اس کے فروغ میں حیدرآباد دکن اور پنجاب کی خدمات اتنی ہی اہم ہیں جتنی دہلی اور یوپی کی۔ خصوصا پنجاب نے اس کے علمی و ادبی خزانوں میں بیش بہا اضافہ کیا۔ جس کی کوئی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔