میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
اُس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا
دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں
زینے بنا لیے کوئی اوپر نہیں گیا
جغرافیے نے کاٹ دیے راستے میرے
تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
ایسی کوئی عجیب عمارت تھی زندگی
باہر سے جھانکتا رہا اندر نہیں گیا
سب اپنے ہی بدن پہ مظفرؔ سجا لیے
واپس کسی طرف کوئی پتھر نہیں گیا