پاکستان آریگا توو

مصنف : یاسر جاپانی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جنوری 2012

کسی بھی سوسائٹی میں کام کرنے کا صحیح طریقہ

            انیس سو پچانوے میں جب ونڈوز نائینٹی فائیو آیا تو آہستہ آہستہ عام یوزر میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھتا گیا۔اردو کا مواد اس وقت مجھے توکوئی خاص نیٹ پر نظر نہیں آتاتھا۔ صرف ایک اردو اخبار نیٹ پر ہوتی تھی جو شاید نیویارک سے نکلتی تھی اردو ٹائم کے نام سے۔بعد میں اردو کی سائیٹس کا اضافہ ہوتا گیا۔پاکستانی نیٹ یوزر کو عموماً چیٹ رومز وغیرہ میں گالی گلوچ کرتے یا لڑکیوں کوورغلاتے پایا گیا۔میں نیٹ پر پاکستان یا پاکستانی لکھ کر سرچ کرتا تھاتوکوئی خاص مواد نہ ملتا تھا۔پھر میں نے جاپانی میں پاکستان جن یعنی پاکستانی یا پاکستان لکھ کر کبھی کبھی سرچ کرتا تو جاپانی میں کچھ نہ کچھ پاکستان یا پاکستانی کے متعلق لکھا ہوا مل جاتا۔آہستہ آہستہ پاکستان اور پاکستانیوں کے متعلق جاپانی سائیٹس پر بہت کچھ لکھا ہوا ملنا شروع ہو گیا۔زیادہ برائی ہی لکھی ہوئی ہوتی تھی۔ابھی تک کچھ ایسا ہی ہے۔پھر کچھ عرصے بعد ایسی جاپانی خواتین کے بلاگز کا بہت اضافہ ہوا جنہوں نے پاکستانیوں سے شادی کی ہوئی تھی یا پاکستانیوں سے طلاق حاصل کی ہوئی تھی۔ان بلاگز پرالف سے ی تک پاکستانیوں کی برائیاں ہی برائیاں لکھی ہوتی ہیں۔میں نے بھی چند بار تبصرہ کیا اور خوب گالیاں وصول کیں۔جس پاکستانی اور جاپانی جوڑے کے تعلقات اچھے ہیں۔وہ زیادہ تر اسلام کے متعلق بلاگ وغیرہ میں لکھتے ہیں۔یا اسلام سیکھنے سکھلانے والی سائیٹ پر ہی پائے جاتے ہیں۔جاپانی مسلمانوں نے بھی بہت ساری اسلامی سائیٹس بنائی ہوئی ہیں۔جہاں پر قرآن اور حدیث کا جاپانی ترجمہ اور دیگر دینی معلومات ملتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپانی مسلمان دین کی خدمت پورے خلوص اور محنت سے کر رہے ہیں۔

            گیارہ مارچ کو زلزلہ اور زلزلے کے بعدسونامی اور اس کے بعد ری ایکٹر سے تابکاری کے اخراج کا حادثہ ہوا تو جاپان سے یورپین، امریکی، چینی، کورین ،انڈین سب نے ٹوکیو انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر جا ڈیرہ لگایا،جیسے جیسے فلائیٹ ملتی گئی جاپان سے بھاگتے گئے۔پاکستانی البتہ صرف وہ ہی جاپان سے نکلے جو متاثرہ علاقوں میں رہتے تھے۔یا جو بچوں کے معاملے میں زیادہ حساس تھے۔باقی جو میرے جیسے تھے انہیں معلوم تھا کہ ہمارے لئے واپسی کی کوئی جگہ نہیں ھے۔جہاں ہیں جیسے ہیں کی طرح پڑے رہے۔

            ہم نے یہ کیا کہ گیارہ مارچ کو زلزلہ آیا اور تیرہ مارچ کو پاکستانیوں نے پیسے جمع کئے اور کھانے پینے کا سامان لیکر متاثرہ علاقے میں پہنچ گئے۔متاثرہ علاقے کی حالت کچھ اس طرح تھی کہ پناہ گاہوں میں لوگ بھوکے پیاسے پڑے تھے۔نہ ہی عوامی رفاہی تنظیمیں اور نہ ہی حکومتی ادارے امداد کیلئے پہنچے تھے۔وہاں پر پاکستانی پہنچے اور دیگچے کڑچھے بھی ساتھ میں لیکر گئے۔پاکستانیوں نے کھانا تیار کیا اور لوگوں کو کھلایا۔تقریباً سارے جاپان میں بسنے والے پاکستانی ایک ساتھ متحرک ہوگئے اور جاپان کے مختلف علاقوں سے متاثرہ علاقے میں پہنچے۔ یہ ایسا وقت تھا کہ ہر کوئی اس علاقے میں جانے سے گھبرا رہا تھامگر پاکستانیوں نے کم و بیش تین ھفتے تک امدادی کاروائیاں جاری رکھیں۔جاپان کے میڈیا نے پاکستانیوں کی ان امدادی کاروائیوں کو الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر خوب دکھایا جس سے یک دم پاکستانیوں کا امیج جاپان میں بالکل تبدیل ہو گیا۔ جو پاکستانی مسلمان دہشت گرد طالبان سمجھے جاتے تھے۔اب جاپانی ان پاکستانیوں کے شکر گزار ہو گئے ۔ اب اگر آپ جاپانی میں پاکستان یا پاکستانی کی نیٹ سرچ کریں تو پاکستانیوں کیلئے شکریئے کے جذبات والی تحریریں ملتی ہیں۔اور پاکستانیوں نے جن جن علاقوں میں امدادی کام کئے ان سے متعلقہ وڈیو ملتے ہیں۔ان تحاریر پر پاکستانیوں کیلئے شکریئے کے تبصرے بھی ملتے ہیں۔اور ایک دلچسپ مشاہدہ کرنے کو ملا کہ میں اس وقت جس علاقے میں ہوتا ہوں اس کا نام تویاما ہے۔یہاں پر جو پاکستانی کھانوں کے ریسٹورنٹ ہیں۔عموماً خالی ہوتے تھے۔لیکن آج کل یہاں پر کسی وقت بھی کھانا کھانے چلے جائیں لائین میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ٹوکیو کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جس ریسٹورنٹ کے باہر پاکستانی جھنڈا لگا ہوا ہے۔وہاں پر بھی جاپانیوں کا رش ہے۔اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔لیکن مجھے ان جذباتی قسم کے پاکستانیوں پر فخر بھی ہے اور بے انتہا محبت بھی محسوس ہو رہی ہے۔میں جب بھی کسی جاپانی نیٹ تحریر میں :پاکستان آریگاتو: لکھا پڑھتا ہوں،آنکھیں خوشی سے بھیگ جاتی ہیں۔ پاکستان آریگاتو کا مطلب ہے پاکستان شکریہ ۔

٭٭٭