عصر حاضر ملک الموت ہے ، تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا
زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوقِ خراش
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
فیضِ فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا!
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفّاش
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوتِ کوہ و بیاباں میں و ہ اسرار ہیں فاش
٭٭٭
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اکِ جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں