سوال ، جواب

مصنف : محمد رفیع مفتی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2007

جواب۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں نہیں بلکہ میدان میں یا کسی ایسی جگہ پر جو اِس کے لیے متعین کی گئی ہو، وہاں ادا کی جائے۔ البتہ کسی موقع پر اگر مجبوری ہو تو مسجد میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔کسی ایک صحابی کا طرز عمل اگر ہم نبی ﷺ کے طرزِ عمل یا آپؐ کے قول سے مختلف پاتے ہیں تو اُس کی توجیہہ یہی ہو گی کہ کوئی دوسری صورت اُس وقت کسی وجہ سے ممکن نہ ہو گی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نمازِ جنازہ مردے کے لیے نبی ﷺ کی طرف سے بتائی گئی دعا ہے،اِسی لیے اِسے مسنون دعا کہتے ہیں۔ یہ نماز پڑھی ہی اِس لیے جاتی ہے کہ مردے کے حق میں نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر دعا کی جائے۔ (نمازِ جنازہ کی )اِس دعا کے بعد اگر کسی اور دعا کی ضرورت ہوتی تو نبیﷺ وہ بھی ہمیں بتا دیتے۔ لیکن کسی اور دعا کا نبی ﷺ نے تو ہمیں بتایا نہیں ہے ، اب آپ بتائیے کہ ہم خود اپنی طرف سے کسی بدعت کو کیسے اختیار کر لیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ سلام پھیرنے سے پہلے بھی سجدہ سہو کیا جا سکتا اور بعد میں بھی ۔ اِس معاملے میں توسع پایا جاتا ہے۔سجدہ سہو کے بعد تشہد کادہرانا لازم نہیں ہے۔آدمی کو سجدہ سہو اگر کرنا تھا اور وہ بھول گیا اور اِدھر اُدھر کی بات چیت میں لگ گیا تو جب اُسے یاد آئے وہ سجدہ سہو کر لے، لیکن بھولنے کا یہ وقفہ مختصر ہی ہونا چاہیے۔اگر وقفہ زیادہ ہو گیا تو پھر سجدہ سہو نہ کرے اب وہ معاف ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ جوا ایک معروف و معلوم چیزہے۔ اِس میں بغیر حق کے ایک آدمی کی رقم دوسرا آدمی محض اتفاق کی بنا پر حاصل کرلیتا ہے۔ جیسے آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے کو دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ اگر یہ دائیں طرف مڑ گیا تو تم مجھے سو روپیہ دے دینا اور اگر بائیں طرف مڑا تو میں تمہیں سو روپیہ دوں گا۔ رقم کا اِس طرح کا لین دین جوا ہے۔ جوا ، لاٹری پانسہ تیر سب شیطانی کام ہیں اور حرام ہیں آج یہ نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں، بہرحال یہ جس شکل میں بھی ظاہر ہوں، صریح حرام ہوں گے۔ آج کل اِن کی جوشکلیں رائج ہیں ، اِن میں سے بعض کو ہم سٹہ بازی ،لاٹری ، بعض انعامی سکیموں اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ریفل ٹکٹ وغیرہ کام عوام کی بہبود کے لیے کیے جائیں یا اُن کی بربادی کے لیے،جب یہ اصولاً جوئے کی شرائط پر پورا اترتے ہیں تو جوا ہی ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ لاٹری اور جوئے سے حاصل کیے ٹکٹ سے حج و عمرہ کرنا ناجائز ہے۔قرض لے کر حج و عمرہ کرنے کا ہمیں کہا نہیں گیا ۔ حج فرض ہی تب ہوتا ہے جب آدمی اُس کی استطاعت رکھتا ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مسجدِ نبوی میں نمازیں پڑھنا اور روضہ أقدس کی زیارت کرنا اصلاً حج کے مناسک کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ جب انسان سفر کرے تو محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اسے مدینہ بھی جانا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بے ایمانی بے ایمانی ہے، چاہے بجلی چوری کرنے کی ہو یا گیس چوری کرنے کی۔قرآن و سنت اِن کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے ، ورنہ خدا کے ہاں جواب دینا ہو گا کہ ایسا کیوں کیا تھا۔رہا جواز کا مسئلہ تو یہاں کسی کو مطمئن کرنا تو بہت آسان ہے ہاں انسان یہ سوچ لے کہ کیااللہ کواس جواز سے مطمئن کر سکے گا۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اگر ہمارے ذہنوں میں قرآن مجید غالب رہتا ہے، تو بائبل کے مطالعے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عمرؓ کو منع کرنے کی وجہ غالباً اِس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے اب کوئی اور کتاب بھی نسخہ ہدایت کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے، کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو تورات کی باتیں بڑے تاثر کے ساتھ بتانے لگ گئے تھے، اِس صورت میں اللہ کے رسول کی طرف سے اُس تنبیہ کی ضرورت تھی، جو آپؐ نے فرمائی تھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ علما کی تحقیق یہی ہے کہ نبی ﷺ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ویسے امی کا لفظ اہل کتاب کے مقابل میں غیر اہلِ کتاب کے لیے بولا گیا ہے۔یعنی وہ قوم جو کسی آسمانی شریعت کی حامل نہ تھی۔                               

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نہ دولت مند ہونا کوئی جرم ہے نہ اِس پر کوئی وعید سنائی گئی ہے اور نہ دولت کے حصول کی کوئی باقاعدہ کوشش دین میں کسی درجے میں کوئی مذموم بات ہے۔ اگر اسے مذموم بات مانیں تو سلیمان علیہ السلام کی اِس دعا کا کیا مطلب ہو گا جس میں آپؑ نے اللہ سے ایسی بادشاہی مانگی جیسی اُن کے بعد کسی کو بھی نہ ملے۔ دین کو اِس سے بحث ہے کہ دولت مند آدمی دولت کے نشے میں مبتلا نہ ہو ،وہ اللہ کو نہ بھولے اور وہ اُس کے سب احکام کا پابند ہو۔وہ زکوٰۃ اور صدقات دیتا ہو ۔ وہ دولت کو اللہ کا فضل سمجھتا ہو اور اللہ کے ایک حکم پر اپنی ساری دولت اللہ کی راہ میں دینے کو تیار ہو۔ اُس کے دل میں اپنی دولت سے محبت کی نسبت اللہ کی محبت کہیں زیادہ ہو۔اُس کا توکل اپنی دولت پر نہ ہو، بلکہ اللہ پر ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ دین میں زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ اس کے لیے ہمیں کسی طریقے کا پابند نہیں کیا گیا۔ بس یہ ہے کہ آدمی کے ہاں شرک و بدعات سے شعوری گریز کا رویہ ہونا چاہیے۔آپ قبر پر جا کر ‘السلام علیکِ یا والدتی’ کہیے پھر ان کے لیے دعائے مغفرت کیجیے اور خوب کیجیے۔ماں کی قبر کو بوسہ دینا ناجائز نہیں ہے، لیکن شرک و بدعات سے بچنے کے لیے ایسی چیزوں سے گریز ہی بہتر ہے۔

والدین کی مغفرت کے لیے اولاد بار بار اور زیادہ سے زیادہ دعائے مغفرت کر سکتی ہے اور یہ کوئی چھوٹا عمل نہیں ہے یہ بہت بڑا عمل ہے۔مزید یہ ہے کہ آپ اپنی والدہ کے ان نیک ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ،جنھیں وہ اگر انھیں موقع ملتا تو ضرور پورا کرتیں۔ایصالِ ثواب نہ کوئی دینی عمل ہے اور نہ اس کا کوئی طریقہ ہے۔اگر یہ کوئی دینی عمل ہوتا تو ہم اس کا ذکر اور اس کا طریقہ قرآنِ مجید میں لکھا ہوا پاتے یا کم از کم احادیثِ شریفہ ہی میں یہ بیان ہوا ہوتا۔اور پھر یہ بھی تو ہے کہ یہ صحابہ کرام کا معروف و معلوم عمل ہوتا۔لیکن آپ دیکھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور بالکل نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ کسی گنہگار سے گنہگار شخص کا بھی اپنی حالتِ توبہ میں دوسرے کو برائی سے منع کرنا اور نیکی کی تلقین کرنا بالکل صحیح اور درست ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر انتہائی ضروری ہے کہ آدمی کو ہر وقت حالت توبہ میں رہنا چاہیے، یعنی جس وقت بھی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو، اُسے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بعض لوگوں کی یہ بات کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ ء حیات ہے، گو ہمیں قرآن کے بارے میں ایک بڑا خراجِ تحسین محسوس ہوتی ہے جس سے اس کے کامل اور مکمل ہونے کا تاثر ملتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیح بات نہیں ہے۔ کیسے؟

ضابطہ ء حیات کا مطلب قاعدہ، قانون اور دستور العمل ہے اور مکمل ضابطہ حیات کا مطلب ‘‘مکمل قاعدہ، قانون اور دستور العمل’’ ہے۔ اس تصور کے مطابق ضروری ہے کہ قرآن ہمیں زمانی و مکانی ہر اعتبار سے زندگی کی سینکڑوں متنوع صورتوں میں ہر سطح پر تفصیلی اور مکمل قواعد، قوانین اور دساتیر العمل دے۔ کیونکہ اس میں کسی حوالے سے بھی اگر کوئی کمی رہ گئی تو لفظ ‘‘مکمل ’’ کا استعمال بے جا ہو گا۔دیکھیں اللہ کی ذات ایک مکمل ذات ہے، خدا ہونے کے حوالے سے اس میں کوئی کمی نہیں، اسی طرح اگر وہ ہمیں کوئی مکمل ضابطہء حیات دے گا تو پھر اس میں ضابطہء حیات ہونے کے حوالے سے کسی درجے میں بھی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، یعنی اس صورت میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں کچھ اصولوں کی روشنی میں خود سے کچٰھ قواعد، قوانین اور دساتیر العمل بنانے پڑیں۔ اب آپ یہ بتائیے کہ قرآن نے ہمیں زندگی کے کس کس معاملے میں مکمل قواعد،قوانین اور دساتیر العمل دیئے ہیں؟ آپ غور کریں اور اس بات کا جواب تلاش کریں۔ دیکھیں اس کی نشانی یہ ہوگی کہ زندگی کے جن جن معاملات میں قرآن نے مکمل ضابطہء حیات دیا ہو گا، ان سب میں کسی فقیہ کو کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہ کرنی پڑے گی۔اگر یہ بات کہی جائے کہ قرآن ایسا تو نہیں کرتا کہ وہ مکمل تفصیلی قوانین، سبھی قواعد اور پورا پورا دستور العمل بیان کرے، وہ تو صرف اصول بیان کرتا ہے ۔قوانین تو ہمیشہ فقہا کو قرآن و سنت کی روشنی میں خود سے وجود میں لانے پڑتے ہیں، تو پھر غور کیجیے ہم اس سے الگ کوئی بات نہیں کہہ رہے۔

قرآنِ مجید فرقان ہے، یعنی یہ ہدایت کے معاملے میں حق و باطل میں فرق کر دینے والی کتاب ہے۔ اس میں جو ہدایت ہے وہ سراسر حق ہے اور اس کے مقابل میں کھڑی ہونے والی ہر بات باطل ہے۔ یہ حق اور باطل دونوں کی نشان دہی کرتی ہے۔اس بات کا مطلب ہے کہ یہ کتاب آسمانی کتب کے حوالے سے اگر کوئی بات کہے تو اُنھیں اس میں موجود ہدایت کے مطابق درست کر لو، اگر فطرتِ انسانی کے بارے میں کوئی بات کہے تو اسے اس کے مطابق درست کر لو اور انسانی رویوں کے بارے میں کوئی بات کہے تو انھیں اس کے مطابق درست کر لو۔ اس میں ہر اس حوالے سے ہدایت کی بات کی گئی ہے، جس حوالے سے انسان کو تاقیامت ضرورت پیش آنی ہے۔ ہدایت کے اعتبار سے یہ ایک مکمل کتاب ہے۔ اس میں ہدایت کو بیان بھی کیا گیا ہے اور گمراہی کی نشان دہی کر کے اس سے روکا بھی گیا ہے، چنانچہ اسی حوالے سے اسے فرقان کہا گیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے، لہذا، جو شریعت اللہ تعالی نے اس سے پہلے نازل کی ہے وہ بھی قیامت تک کے لیے الہامی قانون کا حصہ ہے، دین میں اسے انبیائے کرام کی سنت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ ہماری شریعت کا ایک بڑا حصہ نزولِ قرآن سے پہلے مختلف سنن کی شکل میں، دینِ ابراہیمی کے طور پر عربوں کے ہاں موجود تھا۔ اللہ تعالی نے اس میں اپنے رسول کے ذریعے سے تجدید و اصلاح اور بعض اضافے کیے اور یوں اسے مسلمانوں کے لیے ایک مکمل شریعت بنا کر جاری کر دیا۔ پس ہماری اس شریعت کا کچھ حصہ قرآن میں موجود ہے اور کچھ سنت نبویؐ میں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اسلام کی حقیقت حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ قرآن مجید کو اپنی دعوت پر اصرار اسی بنا پر تھا کہ یہ خدا کی جانب سے ایک حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد فرمایا:‘‘لقد جاء ک الحق من ربک فلا تکونن من الممترین’’۔(یونس۱۰:۹۴)بے شک تم پر تمھارے رب کی طرف سے حق نازل ہوا ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ بننا۔

            اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا:

            ‘‘یایھا الناس قد جاء کم الرسول بالحق من ربکم فآمنوا خیرا لکم’’۔ (النساء۴:۱۷۰)اے لوگو ! تمھارے رب کی طرف سے یہ رسول تمھارے پاس حق لے کر آ گیا ہے، پس (اس پر) ایمان لاؤ، اسی میں تمھاری بہتری ہے۔کلام الہی دیکھ کر مومنین نے یہ جان لیا کہ‘‘فاما الذین اٰمنوا فیعلمون أنہ الحق من ربہم’’۔ (البقرۃ۲:۲۶)پس جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے رب کی جانب سے یہی بات حق ہے ۔

            اس کلام الہی کو سننے کے بعد اہل کتاب میں سے بعض لوگوں کے احساسات یہ تھے کہ

            واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینہم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاہدین۔وما لنا لا نومن باللہ وما جاء نا من الحق ونطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصالحین۔ (المائدہ ۵:۸۳،۸۴)

            اور جب یہ سنتے ہیں اس چیز کو جو رسول کی طرف اتاری گئی ہے تو تم دیکھو گے کہ حق کو پہچان لینے کے سبب سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ، پس تو ہمیں اس کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے اور آخر ہم اللہ اور اس حق پر جو ہم تک پہنچا ہے کیوں نہ ایمان لائیں، جب کہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیکو کاروں کے زمرے میں شامل کرے گا۔

            یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:عن ابن عباس قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم --- اللہم لک الحمد --- أنت الحق ووعدک الحق ولقاؤک حق وقولک حق والجنۃ حق والنار حق والنبیّون حق ومحمد حق والساعۃ حق ---۔(بخاری ، رقم:۱۱۲۰)ابن عباس سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا --- اے اللہ ساری حمد تیرے ہی لیے ہے --- تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تجھ سے ملاقات حق ہے، تیری بات حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، انبیا حق ہیں، محمد حق ہے اور قیامت حق ہے ----۔

            پس اُس وقت بھی مسئلہ سر تاسر دین کے حق ہونے ہی کا تھا اور آج بھی اصل بات یہی ہے کہ یہ دین حق ہے اسے قبول کرو۔

            لیکن قبولِ حق کے حوالے سے یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ کیا آدمی کو کسی حق کا حق ہونا واقعتاً معلوم ہے۔ اگر ایک حق پرست آدمی کسی غلط فہمی کی بنا پر ایک حق بات کو ناحق سمجھ رہا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کی مخالفت ہی کرے گا اور اسے کرنا بھی ایسا ہی چاہیے۔ ہمارے خیال میں ایسا آدمی اللہ تعالیٰ سے اپنی نیت کے مطابق اجر پائے گا۔ اسی طرح اگر ایک حق پرست شخص کسی ناحق بات کو حق سمجھ رہا ہے تو وہ اس کی حمایت ہی کرے گا اور ظاہر ہے اسے کرنا بھی ایسا ہی چاہیے۔چنانچہ ہمارے خیال میں یہ آدمی بھی اپنی نیت ہی کے مطابق اجر پائے گا۔

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

            عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تزول قدم ابن آدم یوم القیامۃ من عند ربہ حتیٰ یسئل عن خمس عن عمرہ فیما أفناہ و عن شبابہ فیم أبلاہ ومالہ من این اکتسبہ وفیم انفقہ وماذا عمل فیما علم۔ (ترمذی، رقم۲۴۱۶)نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اس کے رب کے ہاں سے ہل نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے، اس نے اپنی عمر کس کام میں کھپائی، جوانی کس کام میں گنوائی ، مال کہاں سے کمایا ، اسے کن کاموں میں خرچ کیا اور جو کچھ وہ جانتا تھا اس پر کیا عمل کیا۔

اس حدیث میں یہ بات زیر بحث مسئلے سے متعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اس کے علم کے حوالے سے سوال کرے گا، یعنی جو کچھ وہ جانتا تھا اس پر کیا عمل کیا۔چنانچہ اگر ایک عیسائی جان بوجھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا منکر ہے حالانکہ اسے آپ کا سچا رسول ہونا واضح طور پر معلوم ہے، تو وہ بہت بڑے حق کا منکر ہونے کی وجہ سے خدا کی سخت ناراضی کا شکار ہو گا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، اور اگر کسی عیسائی کو اس کے علما وغیرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گمراہی میں ڈال رکھا ہے ، مثلا یہ کہ آپ سچے نبی نہیں ہیں تو اس عیسائی کا کوئی قصور نہیں ہو گا، اسے کوئی سزا نہیں ملے گی اور اس کی نیکیاں ان شاء اللہ قبول ہوں گی بشرطیکہ اس نے مکمل خلوص سے حق کی تحقیق کر لی ہو۔وہ یہود و نصاریٰ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، ان پر آپ نے براہِ راست اتمام حجت کر دیا تھا، انھیں اب حق کے بارے میں کسی نوعیت کا کوئی تردد نہیں تھا، چنانچہ ان کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لاتے، ان میں سے جو ایمان نہیں لائے قرآن مجید نے ان کے بارے میں وہ سخت باتیں کہی ہیں جنھیں ہم قرآن مجید میں پاتے ہیں۔ سارے زمانوں کے یہود و نصاریٰ ان آیات کے مخاطب نہیں ہیں۔

             ہماری مراد یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ سے متعلق آیات کے اصل مخاظب دور نبوی کے یہود و نصاریٰ ہیں، بعد میں آنے والے یہودی یا نصرانی اقرارِ حق یا تکذیبِ حق کے حوالے سے اس درجے پر شمار کیے جائیں گے جس پر فی الحقیقت وہ خود کھڑے ہیں۔یہی معاملہ عام لوگوں کے عقائد و اعمال کا بھی ہے، ان کے بارے میں بھی یہی دیکھا جائے گا کہ وہ کسے حق سمجھتے رہے ہیں اور اس حق کے حوالے سے انھوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے۔ بہرحال، اصول یہ ہے کہ اخروی کامیابی حق پرستی کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عنداللہ۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ خاندان کا ادارہ مرد و عورت کے نکاح سے وجود میں آتا ہے۔اس ادارے کو قائم کرنے میں مرد و عورت یکساں طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ جب یہ ادارہ قائم ہو جائے تو اس میں مرد کو خدا کی طرف سے قوام یعنی منتظم کی حیثیت دی گئی ہے، چنانچہ اس ادارے کے قیام کے بعد اسے توڑ دینے کا اختیار بھی اسی منتظم کو دیا گیا ہے۔ اگر یہ اختیار عورت کو دے دیا جاتا تو ضروری تھا کہ پھر منتظم بھی اسی کو بنایا جاتا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ عورت کی گواہی اصلاً آدھی ہے، کیونکہ قرآن مجید میں گواہی کا کوئی ایسا نصاب بیان نہیں کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ مرد کی گواہی پوری ہوتی ہے اور عورت کی آدھی ، لہذا، گواہی کے حوالے سے ایک مرد دو عورتوں کے برابر ہو گا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس خاص صورت حال میں جب کہ کسی معاملے میں گواہی ثبت کرنے کے لیے ایک ہی مرد میسر ہو، ہمیں یہ تجویز دی ہے کہ ایسی صورت میں تم ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ثبت کر لو۔ ایک عورت کی بجائے دو عورتوں کی گواہی کا یہ مشورہ احتیاط کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ یعنی اس طرح کے معاملات چونکہ عورتوں کے لیے روز مرہ کی چیز نہیں ہوتے، لہذا، ان کے لیے ان میں نسیان کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو رکھ کر اس امکان کو محدود کر لیا جائے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ اسلام اللہ کا دین ہے، کوئی انسانی فلسفہ کیسے اس کی روح کیسے قرار پا سکتا ہے؟

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ بہتر ہے کہ قرآن کا ترجمہ عربی متن کے ساتھ ہی شائع کیا اور پڑھا پڑھایا جائے۔ ہمارے نزدیک قرآن ترجمے کا نہیں بلکہ اس عربی متن کا نام ہے جو خدا نے نازل کیا تھا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ اگر اس کی کوئی دینی اہمیت سمجھی جاتی ہے تو پھر یہ بدعت ہے، کیونکہ یہ اس دین میں نہیں پائی جاتی تھی جسے امت نے صحابہ کرام کی اجماعی روایت سے حاصل کیا تھا۔

(محمد رفیع مفتی)