رنج و غم …… اسباب و علاج

مصنف : ڈاکٹر سعود الشریم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2013

Click here to read in English

ڈاکٹر سعود الشریم
ترجمہ : وصی احمد

ہم میں سے ہر ایک کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر رنج و غم سے واسطہ پڑ ہی جاتا ہے، اگر کوئی صاحب ِ اقتدار و حکومت، مالکِ جاہ و منصب ہے تو اسے ہر آن کرسی ٔاقتدار اور زمامِ کار چھن جانے کا اندیشہ اور حکومت سے بے دخل کردیے جانے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ اگر کوئی صاحب ِ اولاد ہے تو بچوں کے حال و مستقبل، تعلیم و تربیت، لباس و پوشاک، نوکری و شادی بیاہ کے تئیں ان کی فکرمندی اسی قدر دوچند ہوجاتی ہے۔

یہ غلط گمان ہے کہ دکھ درد کا تعلق صرف غربت و افلاس،فقروفاقہ اور محتاج و مسکین سے ہے، کیونکہ اس کارگہِ حیات میں بہت سے غریب و مفلس، ذہنی اطمینان، قلبی سکون اور روحانی آسودگی سے شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بہت سے اہلِ ثروت و صاحب دولت مضطرب و پریشان نظر آتے ہیں۔

کیا ہم روزمرہ کی زندگی میں نہیں دیکھتے کہ کتنے فقرا و مساکین ہیں جو ایک وقت کھانے کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور کتنے ہی ایسے اصحاب سیم وزَر ہیں جو بسیار خوری کی وجہ سے مختلف امراض کے شکار ہوکر آہ و کراہ میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس میں بچہ و جوان کی قید ہے، نہ مرد و عورت کا استثناء، بیمار و صحت مند میں کوئی فرق ہے نہ امیروفقیر میں کوئی امتیاز۔

یہ بھی امرواقعہ ہے کہ بہت سے لوگوں میں ناگہانی مصائب و حوادث، ان کی قوتِ فکروعمل کو اور بڑھا دیتی ہے، اس لیے کہ تاریخِ عالم میں جتنی بھی عبقری شخصیتیں منصہ شہود پر آئیں، ان کی خفتہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں نامساعد حالات کا اہم رول رہا ہے، لیکن بہت سے لوگ مشکلات میں اشکِ حسرت برساتے ہیں، اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سی مرغوب چیزیں بھی بے فائدہ ثابت ہوتی ہیں اور یہی مصائب و آلام، غم و حسرت اپنے دامن میں خوشی و مسرت کی سوغات لے کر آتی ہیں۔

مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود

ایک روز ابراہیم بن ادہم کا گزر ایک غمگین و رنجیدہ شخص کے پاس سے ہوا، درد و کرب میں دیکھ کر اس سے کہا: اے شخص! میں تم سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، جواب دو:

۱- کیا اس کائنات میں مشیت ِ ایزدی کے بغیر بھی کچھ پیش آسکتا ہے؟

۲- کیا تمھارے متعین رزق میں کوئی کمی و بیشی ہوسکتی ہے؟

۳- کیا تمھاری مقررہ زندگی کا ایک پل بھی آگے پیچھے ہوسکتا ہے؟

تو اس شخص نے سنتے ہی کہا: نہیں، یہ تو ناممکن و محال ہے۔

ابراہیم نے کہا: تو پھر یہ رنج و غم کیوں اور کیسا؟

رنج و غم کے ذریعہ خالقِ دوجہاں اپنے بندوں کے اعمال کا جائزہ، ان کے ایمان و یقین اور عزم و استقلال کا امتحان لیتا ہے۔ رنج و غم اور مشکل و پریشانی کا تعلق اگرچہ شعورووجدان اور احساس و اِدراک سے ہے۔ لیکن اس کی شدت ظاہری تکالیف سے بڑھ کر ہے۔

شریعت ِ اسلامی کا یہ امتیاز رہا ہے کہ وہ خیر کی دعوت دیتی ہے اور شر سے متنبہ کرتی ہے اور حد سے زیادہ رنج و غم کو اُمت مسلمہ اور اس کے جیالوں کے لیے مضر قرار دیتی ہے۔ مسلم سماج کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ زندگی کا سامنا ہشاش و بشاش رہ کر کرے اور غم و اندوہ کونظرانداز کرتے ہوئے وقت کا صحیح استعمال کرے۔

صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپﷺ رنج و غم سے پناہ مانگتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو کوئی صبح و شام یہ دعا پڑھے تو اللہ اس کے ہرغم کو دُور کردے گا:

حسبی اللّٰہ لا الٰہ الا ہو علیہ توکلت وہو رب العرش العظیم

‘‘اللہ میرے لیے کافی ہے معبود تو بس وہی ہے، میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے’’۔

اور مغموم و افسردہ دل انسان کوچاہیے کہ وہ اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھے، اس لیے کہ کثرتِ استغفار اور ذکرواذکار سے غم کافور ہوجاتا ہے، جیساکہ آپؐ کا ارشاد ہے:

من لزم الاستغفار جعل اللّٰہ لہ من کل ضیق مخرجاً ومن کل ہم فرجاً ورزقہ من حیث لا یحتسب

‘‘جس کسی نے استغفار پرمداومت کی، اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے نجات، ہر پریشانی سے خلاصی دے دیتا ہے اور ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے کہ وہ سوچ تک نہیں سکتا۔

لہٰذا یہ ذہن نشین رہے کہ بڑے سے بڑا علامہ و فاضل، ولی و صوفی اور پیروبزرگ، ہمارے درد و غم کو ہلکا نہیں کرسکتا جب تک کہ ہم ذات ارحم الراحمین کا دروازہ نہ کھٹکھٹائیں اور اس کے دربارِ عالی میں سربسجود نہ ہوں، جو دلوں کے پوشیدہ رازوں سے بھی بخوبی واقف ہے۔

ایک روز آپﷺ مسجد نبویﷺ میں جانکلے کہ حضرت ابوامامہؓ پر نظر گئی، آپﷺ نے فرمایا: ابوامامہ! خیریت، اس وقت تم یہاں؟ تو حضرت ابوامامہؓ نے جواب دیا: حضوؐر! قرض و غم کے سبب یہاں گوشہ گیر ہوں، تو آپﷺ نے فرمایا: آؤ! آج تمھیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمھارے غم و صدمہ کو دُور کردے گا اور قرض بھی ادا کرے گا۔ عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ارشاد ہو، تو آپﷺ نے فرمایا: صبح و شام یہ دعا پڑھا لیا کرو:

اللہم انی اعوذبک من الہم والحزن ، وأعوذ بک من العجز والکسل وأعوذ بک من الجبن والبخل واعوذبک من غلبۃ الدین وقہر الرجال

‘‘اے اللہ! رنج و غم سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بے بسی اور سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی و بخیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، قرض اور لوگوں کے ظلم سے تیری پناہ مانگتا ہوں’’۔

چنانچہ حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے قرض ادا کردیے اور میرے غم کو دُور کردیا۔

جس طرح ساری دنیا سے کٹ کر ایک ہی خدا کے آگے سر جھکا دینا، اسی کو اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور نجات دہندہ مان لینا، ہر طرح کے رنج و غم اور مصائب و مشاکل کے ازالہ کا اکسیر ہے، اسی طرح حبیب ِ خدا، رہبر انسانیتؐ کے احسانات کا تذکرہ اور درود شریف کاالتزام بھی درد و کرب کے لیے انس و تسلی کا سامان ہے، ایک شخص نے رحمت ِعالمؐ سے عرض کیا: یارسولﷺ اللہ! اگر میں اپنی ساری دعائیں آپ کی ذاتِ اقدس کے لیے خاص کردوں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: تب تو اللہ رب العزت تمھاری تمام دنیوی و اُخروی مصائب و آلام کو دُور کردیں گے اور وہی تمھارے لیے کافی ہوجائیں گے۔

ہر فردِ بشر کو چاہیے کہ وہ رنج و غم میں اپنے آپ کو نہ گھلاتا رہے اور اپنے دن کا سکون اور رات کا چین اس کے ضائع نہ کرے اور ایسا ہرگز نہ ہو کہ یہ سارے مسائل اس کے اپنے بنے بنائے اور خودساختہ ہوں اور حقیقت سے اس کا دُور کا بھی تعلق نہ ہو، دنیا کے معاملات کو بھی آسان انداز میں لینا چاہیے، اگر تھوڑے بہت ایسے واقعات پیش آجائیں تو اعراض کرے اور ان کے پیچھے اپنے کو ہلکان نہ کرے۔

پروردگارِ عالم کے ہربندے کوچاہیے کہ اس کا مکمل ذہنی و قلبی انہماک ، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف ہو، اس سے غم ہلکا اور پریشانی دُور ہوتی ہے، کثرتِ گناہ سے بھی بچے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ مصائب و آلام اور رنج و غم کی طرف دھیان نہ جائے، کیونکہ ؂

غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

٭٭٭

(بشکریہ پندرہ روزہ تعمیرحیات، لکھنؤ، مارچ ۲۰۱۲ء)