"یہ کیسی داڑھی ہے؟"

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2025

اصلاح و دعوت

"یہ کیسی داڑھی ہے؟"

محمد سليم

"طاش ماطاش" سماجی برائیوں اور معاشرتی پیچیدگیوں پر بولنے والا عرب دنیا کا ایسا مزاحیہ ٹیلیویژن پروگرام رہا ہے جو ہر بڑے چھوٹے اور امیر غریب کی پسند تھا۔ ویسے تو اس کی ہر قسط ایک سے بڑھ کر ایک تھی لیکن جن چند اقساط نے لوگوں پر گہرے اثرات چھوڑے ان میں سے ایک "یہ کیسی داڑھی ہے" بھی تھا۔

اس قسط میں معاشرتی رویوں اور ظاہری شکل و صورت پر مبنی فیصلوں پر طنزیہ انداز میں بات کی گئی، خاص طور پر داڑھی کے حوالے سے۔ کہانی میں دکھایا گیا کہ معاشرے میں بہت سے لوگ کسی کی داڑھی دیکھ کر اس کی نیکی، تقویٰ یا کردار کے بارے میں، بغیر اس کی اصل شخصیت یا عمل کو سمجھے، فوری اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں، ۔

کہانی ہے ایک ایسے بد طینت, رذیل اور بدقماش شخص کی، جس نے اپنے حلقہ تعلق و رابطے میں ہر شخص کے ساتھ فساد پیدا کر رکھا ہوتا ہے۔ بیوی کو اس کی بیمار ماں سے ملوا لانے کے بدلے میں اس سے اس کی آدھی تنخواہ لینے پر اصرار، طلاق مانگنے پر دو لاکھ ریال کے بدلے طلاق دینے پر غور کرنے کا کہنا، محلے کے دکاندار کا کئی مہینوں کا ادھار دبا رکھنا، مانگنے پر دھمکیاں دینا کہ مزید ادھار نہ دیا تو پچھلے پیسے نہیں ملیں گے، کام پر دیر سے جانا، کولیگز کی کمیٹی کھا جانا، اپنا پینڈنگ کام ان کے ڈیسک پر پھینکنا، ساتھی ملازمین سے ناشتہ یا کھانا منگوا کر انہیں پیسے نہ دینا، طفیلی بننا اور آوٹنگز میں ہمیشہ دوسروں سے کھانا اپنا خرچ نہ کرنا، کسی کا بھلا نہ کرنا اور دوسروں کو بھی کسی کا بھلا نہ کرنے دینا۔ موقع ملنے پر حکام اور مالکان سے ساتھیوں کی شکایت کرنا اور اپنے آپ کو کمپنی کے ليے ناگزیر اور مخلص ثابت کرنا۔

اس قسط کا یہ مرکزی کردار کسی طرح اپنے کام سے ایک مہینے کی چھٹی لینے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس ایک مہینے میں اس کی زندگی میں کچھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ چہرے کی الرجی کیلئے ڈاکٹر اسے مہینہ بھر چہرے پر مرہم لگانے اور اس عرصے میں شیو نہ کرنے کا پابند کرتا ہے۔اس دوران یہ اپنے چچازاد بھائی کی شادی میں جانے کے ليے کپڑے تلاش کرتا ہے، مناسب نہ ملنے پر، بادل نخواستہ پچھلے سیزن کی ایک چھوٹی پڑ چکی ثوب (جبہ) پہن کر چلا جاتا ہے۔ بڑھی ہوئی داڑھی اور ٹخنوں سے بہت اوپر تک کی بغیر استری ثوب اتفاقاً اس کا تاثر ان لوگوں کا سا پیدا کر دیتی ہے جو شدت سے مذہب پر مذہب کی ہر جزئیات کے ساتھ عمل پیرا رہتے ہیں۔ شادی کی تقریب میں شامل ہر شخص اسے شدید حیرت کے ساتھ دیکھتا ہے۔ سب لوگ اسے توبہ تائب اور ہدایت پا چکا سمجھتے ہوئے نہایت تعظیم اور احترام کے ساتھ ملتے ہیں، اسے صدر مجلس بنایا جاتا ہے اور باقی بھی اس جیسی ہدایت پا جائیں کیلئے دعا کی درخواست کی جاتی ہے۔

کردار کو اپنی اس قیمت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ اپنی پہلی فرصت میں ایک ایسے خوانچہ فروش سے ملتا ہے جسے سابقا فراڈیہ سمجھتے ہوئے یہ دھتکار چکا ہوتا ہے۔ خوانچہ فروش سے اس کے 250 ریال مانگی جانے والے قیمت کے سارے عطور (دہن عود - روغن عود - مذہبی طبقوں کی اولین پسند) 20 ریال کے حساب سے خرید لیتا ہے۔اپنی چھٹیوں کے بعد کام پر جاتا ہے تو وہ دفتر والے جو اس سے شدید نفرت کرتے تھے اب ہدایت پا چکا سمجھتے ہوئے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور دست بوسی کرتے ہیں۔ بدلے میں یہ انہیں عطر لگاتا ہے اور ان کے کہنے پر ان کیلیئے بھی ہدایت کی دعا کرتا ہے۔ اپنے دفتر والوں کو مہنگے داموں وہ عطور فروخت کرتا ہے جو وہ آنکھیں بند کر کے خریدتے ہیں۔ محلے کے دکاندار اب اپنا پچھلا ادھار بھلا کر نیا دینے کیلیئے اس کے سامنے بچھ بچھ جاتے ہیں، جو وہ کہتا ہے وہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا ہوتا ہے۔ اپنی ملازمت چھوڑ کر اسی خوانچہ فروش کو اپنے پاس ملازم رکھ لیتا ہے اور ایک گندے سے گھر میں نقلی عطر بنا کر سونے کے بھاؤ فروخت کرتا ہے۔ اس کی دکان پر گاہک امڈ آتے ہیں، طلبات پوری نہ کر سکنے کا کہہ کر لوگوں سے انویسٹمنٹ کے نام سرمایہ جمع کرتا ہے، شرق الاوسط کا سب سے بڑا عطر فروش شمار ہونے لگتا ہے، مذہبی رنگ مزید گہرا ہوتا چلا جا تا ہے اور لوگوں کا اعتبار ہر دم پہلے سے بھی زیادہ مضبوط۔ قسط کا اختتام وہی دکھایا گیا ہے جیسا ان جیسے کاموں میں ہوتا ہے۔ معاملہ کھلنے کی بھنک نہ پڑے ساری دولت سمیٹ کر ملک سے فرار ہو جاتا ہے۔

مرکزی نکات:

✅بعض افراد صرف داڑھی رکھ کر دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں، حالانکہ اندر سے ان کے کردار ٹھیک نہیں ہوتے۔

✅کچھ لوگ ہر داڑھی والے کو نیک، ایماندار یا معتبر سمجھ لیتے ہیں، جو کہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔

✅اس قسط میں طنز و مزاح کے انداز میں یہ پیغام دیا گیا کہ کسی کی ظاہری شکل (جیسے داڑھی) کی بنیاد پر فیصلہ نہ کریں بلکہ اس کے عمل، اخلاق اور سچائی کو دیکھیں۔

✅داڑھی بذات خود کوئی منفی چیز نہیں، لیکن اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرے تو اس کی نشاندہی ضروری ہے۔

نتیجہ:

قسط کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ کسی کی ظاہری وضع قطع پر فوری رائے نہ قائم کریں، بلکہ اصل کردار اور عمل کو پہچانیں۔ معاشرتی سچائی اور دھوکہ دہی جیسے مسائل کو ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

پس تحریر

** شیو کرنا روزانہ یا ہر دوسرے دن کا محنت طلب کام ہے۔ جھونپڑیوں میں رہنے والے، کچرا چننے والے یا دیگر خوانچہ فروش یا محنت مزدوری کرنے والے داڑھی سہولت کی وجہ سے رکھتے ہیں نہ کہ شرعی پابندی کے طور۔