بيرونی ممالك اور پاكستان

مصنف : سميع اللہ فراز

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2025

اصلاح و دعوت

بيرونی ممالك اور پاكستان

سميع اللہ فراز

بیرون ملک قیام کے دوران روزمرہ زندگی کے متنوع مشاہدات آپ احباب سے شئیر کرنے کا مقصد خود کو بہتر بنانے کا تفکر اور ترغیب ہے، اسے کسی مرعوبیت پر قیاس کرنے یا پاکستانی معاشرت کی تنقیص کی بجائے مومن کی گمشدہ میراث کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ یقین کیجئے میرے سمیت ہر وہ شخص جو ترقی یافتہ معاشرت دیکھ کر پلٹتا ہے، کئی دن تک یہاں ان فٹ رہتا ہے اور پاکستانی ماحول کے مطابق نارمل ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے. افسوس یہ نہیں کہ ہمارے ہاں معاشرت کے تقریباً ہر پہلو میں بگاڑ ہے، المیہ مگر یہ ہے کہ سدھار کی فکر ہے نہ منصوبہ بندی. چنانچہ یہ مشاہدات اسی لئے عرض کئے جاتے ہیں کہ سدھار کی تحریک کم از کم چند افراد سے ہی سہی، شروع تو ہو.

بہت سی چیزیں انفرادی سطح پر بھی ہم بہتر کر سکتے ہیں. مثلا ًہم جائزہ لیں کہ ہمارے کھانے کیسے ہیں اور ان کا نظم کیا ہے؟ مجھے جرمن کھانے پینے کے انداز نے خاص طور پر متاثر کیا۔ یہاں کھانوں میں مختلف اقسام کی ساسز اور سلاد غالب ہوتے ہیں، جو اکثر کھانے کا 70 فیصد حصہ ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوکنگ آئل کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے کھانے نہ صرف ہلکے بلکہ صحت بخش ہوتے ہیں. روایتی جرمن کھانوں جیسے Bratwurst (گرل ساسج)، Sauerkraut (ترش بند گوبھی)، اور Pretzels کے ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ بھی بے حد مقبول ہے۔ تاہم، ہر جرمن شہر میں ترک ریسٹورنٹس کی موجودگی اور Doner kebab کا راج ہے لیکن یقین کیجئے آپ کوئی پھل، سبزی، اسنیکس، جو بھی کھائیں اس کا وہی ذائقہ ہو گا جو قدرت نے اس میں رکھا ہے اور دوسرا وہ خالص ترین شکل میں ہو گی. جبکہ ہمارے ہاں شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جو بازار سے ہمیں خالص دستیاب ہو!.... پھر ہسپتال کیوں نہ بھریں. چنانچہ فوڈ سینس بہت ضروری ہے.

دوسرا، یہاں کا طرزِ زندگی جسمانی تحرک پر مبنی ہے۔ اندازہ ہوا کہ یہاں اکثر لوگ روزانہ اوسطاً 6 سے 9 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں۔ چونکہ 70 فیصد لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں، اس لیے بس اسٹاپ یا ٹرین اسٹیشن تک جانے، اور ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر کنیکشن پکڑنے کے لیے پیدل چلنا معمول کا حصہ ہے۔ یہی عمل ان کی عمومی صحت اور نظم و ضبط کی بنیاد بن چکا ہے۔

اگر ہم پاکستان کے بڑے شہروں جیسے لاہور اور اسلام آباد کو ہی اس ماڈل پر استوار کرنا چاہیں تو یہ عین ممکن ہے، بشرطیکہ ان شہروں اور مضافاتی علاقوں کو مؤثر پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے اور تمام بڑی چھوٹی شاہراہوں پر محفوظ اور واضح فٹ پاتھ بنائے جائیں۔ اس سے پرائیوٹ گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے نہ صرف آلودگی میں نمایاں کمی آ سکتی ہے بلکہ درجہ حرارت میں بھی کچھ کمی لائی جا سکتی ہے۔

میں اکثر کہتا ہوں کہ پاکستان پر نازل شدہ ہمہ وقتی آفات میں سے ایک بڑی آفت چاند گاڑی یا چنگ چی رکشہ ہے، جو چاند کی گاڑی تھی لیکن چل پاکستان میں رہی ہے، خیر! افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے شہروں میں ٹریفک کی ابتری کی ایک وجہ چاند گاڑیاں ہی. انگریز نے ایک فرد کی سواری بنائی، ہم نو سواریاں کھینچتے پھرتے ہیں اور پھر بغیر لائسنس کے وہ بندہ نو زندگیوں کو لادے جا رہا ہوتا ہے جس کا نہ کوئی اشارہ ہے نہ سائیڈ مرر. نہ ان پر کوئی ٹیکس یا ریگولرائزیشن کا نظام! ۔

دنیا میں سڑک یا راستہ چلنے کے لئے ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں راستے دکانیں اور ٹھیلے لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، سڑک پر ہی پھلوں کی منڈیاں لگی ہیں اور گاڑی سوار وہیں بیچ سڑک، گاڑی کھڑی کر کے خرید فرما رہے ہیں. حکومت کو رونا چھوڑیں، خود کو بدلنا شروع کریں، تہیہ کریں کہ جو شخص راستے کا حق مار رہا ہے اس سے خرید نہیں کریں گے، شاید کہ ایسے ہی سدھار آ جائے.

زندگی ایک بار ملی ہے، اسے منظم انداز میں زندہ رہنے کے اصولوں پر گزارنا، قدرتی رکھنا اور اپنے طرزِ رہن کو متحرک بنانا ناگزیر ہے۔ خود کو بدلیں، آپ کو اپنا اردگرد بدلا ہوا محسوس ہونا شروع ہو جائے گا.

غذا میں قدرتی اجزاء کو ترجیح دیں، دانستہ پیدل چلنے کو معمول بنائیں، اور جسمانی حرکت کو روزمرہ زندگی میں شامل کریں.

پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کی کہانیاں ضرور سنتے رہیں لیکن زندگی کو بھی جئیں، کیونکہ اس کے بارے ہی پوچھا جانا ہے!