اصلا ح و دعوت
یہ امانت ہے
ضيا چترالی
الجزیرہ کی معروف صحافی خدیجہ بن قنہ لکھتی ہیں:میں ایک مرتبہ امریکہ کے سفر پر تھی۔ اس دوران کچھ خریداری کے لیے ایک بڑے اسٹور میں گئی۔ اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ اتنے میں ایک باحجاب مسلمان خاتون نمودار ہوئیں۔ وہ بڑی مشکل سے ایک بھاری ڈبہ گھسیٹ کر لا رہی تھیں جو غالباً گھاس کاٹنے والی مشین (Lawn Mower) کا تھا۔ تھکن ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ وہ سیدھی کاؤنٹر پر موجود کیشیئر کے پاس پہنچیں اور مؤدبانہ لہجے میں بولیں:"محترمہ! میں نے یہ مشین کل آپ ہی کی دکان سے پانچ سو ڈالر میں دیگر سامان کے ساتھ خریدی تھی۔"کیشیئر جو مصروفیت میں الجھی ہوئی تھی، بےساختہ بولی: "تو کیا آپ اسے واپس کرنا چاہتی ہیں؟"مسلمان خاتون نے نرمی سے جواب دیا: "جی نہیں، میں اس کی قیمت ادا کرنا چاہتی ہوں۔"کیشیئر حیرت سے چونکی: “کیا؟ میں سمجھی نہیں! آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے یہ کل خریدی ہے۔ اگر آپ کا مطلب ہے کہ کہیں اور یہ سستی ملی ہے تو ہماری پالیسی ہے کہ ہم فرق کی رقم واپس کر دیتے ہیں، بشرطیکہ آپ کے پاس دوسرے اسٹور کی قیمت کا ثبوت ہو۔ تو کیا آپ کے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے؟”خاتون مسکرائیں اور کہا: “نہیں، معاملہ یہ نہیں۔ ہوا یوں کہ کل میں نے کارڈ کے ذریعے آپ ہی کی دکان سے کئی اشیاء خریدیں اور یہ مشین بھی ساتھ لے گئی۔ میرا گھر اس اسٹور سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ جب گھر جا کر بل دیکھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ آپ نے غلطی سے اس مشین کی قیمت بل میں درج ہی نہیں کی۔ میں نے فوراً فون پر رابطہ کرنا چاہا تاکہ آپ کو نقصان نہ ہو، لیکن اسٹور بند ہو چکا تھا۔ لہٰذا آج میں نے اپنی ملازمت سے چھٹی لی، یہ بھاری ڈبہ اٹھا کر دوبارہ یہاں آئی ہوں تاکہ آپ اس کی رقم وصول کر لیں اور میں کسی ایسی چیز کو استعمال نہ کروں جس کی قیمت ادا نہ کی گئی ہو۔”یہ سنتے ہی کیشیئر یکدم کھڑی ہوگئی، اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ خاتون کو بار بار گلے لگا کر بوسے دینے لگی۔ اس نے کہا:“میں سمجھ ہی نہیں پا رہی کہ آپ نے یہ سب کیوں کیا۔ یہ اتنی بھاری مشین، چار گھنٹے کا سفر آنا جانا، کام سے چھٹی لینا اور پھر اپنی جیب سے وہ رقم دینا جو میرے حساب کی غلطی تھی! آخر آپ نے یہ کیوں کیا؟”مسلمان خاتون نے بڑی معصومیت اور سادگی سے جواب دیا:“It is AMANA”یعنی “یہ امانت ہے۔”
پھر انہوں نے نہایت سکون اور اعتماد کے ساتھ اسلام میں امانت داری کا مفہوم بیان کیا۔
کیشیئر سیدھی اپنی منیجر کے دفتر گئی۔ ہم باہر سے دیکھ رہے تھے کہ وہ کس جوش و جذبات سے یہ واقعہ سنا رہی ہے۔ چند لمحوں بعد منیجر نے پورے اسٹاف کو جمع کیا اور اس مسلمان خاتون کے عمل کو مثال بنا کر ان کے سامنے بیان کیا۔خاتون سر جھکائے کھڑی تھیں، گویا سمجھ رہی ہوں کہ انہوں نے کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا بلکہ صرف وہی کیا جو دین نے انہیں سکھایا۔ لیکن اسٹور کے تمام ملازمین اور گاہک حیران و متاثر کھڑے تھے۔ سب باری باری ان سے اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں سوال کرتے اور وہ پورے اعتماد، عاجزی اور اخلاص سے جواب دیتیں۔آخر میں منیجر نے سختی سے اصرار کیا کہ یہ مشین اسٹور کے تمام ملازمین کی طرف سے بطور تحفہ انہیں پیش کی جائے، لیکن اس باکردار خاتون نے مؤدبانہ انداز میں انکار کر دیا اور کہا:“میں اس کا اجرو ثواب صرف اللہ سے چاہتی ہوں، اس دنیاوی تحفے کے لیے نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ مشین میرے اس اجر کو کم نہ کر دے جو میرے رب کے ہاں کہیں زیادہ قیمتی ہے۔”یہ جواب سن کر ان سب کے دلوں میں ان کی عزت اور بڑھ گئی۔ وہ خاتون خاموشی سے واپس روانہ ہوگئیں لیکن اسٹور میں موجود ہر شخص چاہے ملازم ہو یا خریدار، ان کے کردار سے اس قدر متاثر تھا کہ ان کا چرچا دیر تک جاری رہا۔خدیجہ بن قنہ کہتی ہیں:“اس لمحے میرا دل فخر سے بھر گیا کہ یہ ہے ہمارا دین، یہ ہے اسلام اور الحمدللہ کہ ہم اسلام کی نعمت سے بہرہ مند ہیں۔"