سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی سالی لورین بوتھ کا قبولِ اسلام نیا نہیں مگر ان کی زندگی کی پوری کہانی ایک نئی بات ضرور ہے۔ انہوں نے پہلی بار اپنی زندگی کی کہانی کھل کر سنائی ہے جو کویت کے ماہنامہ المصباح نے شائع ہے اور ان کے شکریہ کیساتھ ہم آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ ادارہ
‘‘میں اسلام قبول کرنے کے لیے ہرگز سرگرم نہ تھی، نہ ہی میں اسلام کا مطالعہ کر رہی تھی، بات دراصل یہ ہے کہ جب آپ ایک مسلم معاشرے میں مسلمانوں کے درمیان رہ کرایک طویل عرصے سے کام کر رہے ہوں تو لامحالہ ان سے روزمرہ کی گفتگو کے دوران اْن کے دین اور قرآن کے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات حاصل ہوتی ہی رہتی ہیں، میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں نے اتفاقاً مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے تھوڑا بہت قرآن کے بارے میں جانا، اس دوران یہ بھی اندازہ ہوا کہ اگر آپ نے اسلام میں دلچسپی لیتے ہوئے اسکے بارے میں جاننے کی خواہش ظاہرکی تو مسلم اْمہ کی تمام تر محبت،یگانگت اور خلوص کو آپ یقینا محسوس کئے بنا نہ رہ سکیں گے’’۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسلام،مسلمانوں کی محبت اور دوستی میں قبول نہیں کیا بلکہ جن حالات میں میں مسلمانوں کے درمیان رہ کر اک طویل مدت تک کام کرتی رہی ہوں اس دوران نہ جانے کس وقت میرا اللہ سے ربط قائم ہو گیا ، میں نے اللہ کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی اور اب میں امیدکرتی ہوں کہ میں اپنی اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہوسکی ہوں۔
اسلام کی جانب یہ سفر میری زندگی کانہایت خوشگوار سفر ہے،مجھے نہیں معلوم کہ میں کب اس راہ کی مسافر بنی، حالات سازگار ہیں اور ساتھی مسافر گرمجوش، اس سفر میں میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہوں اور وقت کی گرم آندھی اور راہ کی تمام رکاوٹوں کے باوجود اسلام کے راستے پر میرا یہ سفر تیزی سے گامزن ہے۔
اگر مجھ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ ایک انگریز صحافی، ایک تنہادو بچوں کی ماں نے مغربی میڈیا کے سب سے ناپسندیدہ مذہب کو کس طرح قبول کیاتو اس کے جواب میں میں اپنے اس انتہائی روحانی تجربے کا حوالہ ضرور دینا چاہوں گی جو مجھے ایران کی ایک مسجد میں ہواجس نے میرے دل کی دنیا بدل دی ،مگر اسلام قبول کرنے کے حوالے سے اگر ماضی میں جھانکا جائے تو اسکی بنیاد غالباً اس وقت پڑ گئی تھی جب میں جنوری 2005ء میں اکیلی فلسطینی علاقے ویسٹ بنک (مغربی کنارہ) میں برطانوی جریدے ‘دی میل’کیپی لیے فلسطینی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لیے پہنچی تھی، یہاں میں یہ بات واضح کر دو ں کہ اپنے اس سفر سے پہلے مجھے کبھی بھی مسلمانوں یا عربوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔جب میں نے اپنا مشرقِ وسطی کا یہ سفر شروع کیا تھا تو میرا ذہن مغربی میڈیاکے اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے سخت مخدوش تھا جو اس نے دنیا کے اس حصے کے لوگوں کے بارے میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے تھے جاری رکھا ہوا تھا اور انہیں بنیاد پرست ، متعصب،مذہبی انتہاء پسند، خودکش حملہ آور، ا غوا کاراور جہادی قرار دیاجاتا تھا جبکہ میرا یہ تجربہ ان تمام تصورات کے بالکل برعکس ثابت ہوا۔میں فلسطینی مغربی کنارے کے علاقے میں اس حال میں داخل ہوئی تھی کہ میرے جسم پر میرا کوٹ بھی نہیں تھا کیونکہ تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اسرائیلی حکام نے میرا سوٹ کیس اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اور میں ‘رام اللہ’(رملہ) کے مرکزی علاقے میں شدید سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی چلی جا رہی تھی کہ یکایک ایک بوڑھی فلسطینی خاتون نے میرا ہاتھ تھام لیا، تیزی سے عربی زبان میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے وہ مجھے ملحقہ گلی میں واقع ایک گھر میں لے گئی، سب سے پہلے میرے ذہن میں جس خدشے نے جنم لیا وہ یہ تھا کہ کیا میں ایک بوڑھی عورت کے ہاتھوں اغوا ہوگئی ہوں کئی منٹ تک میں خاموشی سے اسے اپنی بیٹی کے کمرے میں موجود کپڑوں کی الماری سے کچھ ڈھونڈتے ہوئے دیکھتی رہی ، بالآخراس نے الماری سے ایک کوٹ،ایک حجاب اور ایک ٹوپی نکالی اور مجھے دیکر دوبارہ اسی گلی میں چھوڑ دیا جہاں سے وہ مجھے اپنے گھر لے گئی تھی۔میرے سر پر گرمجوشی سے بوسہ دیا،اور اپنی راہ ہولی۔ حیرت کی بات یہ ہے اس سارے عمل کے دوران ہمارے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہ ہوا۔
یہ سخاوت اور فیاضی کی ایک زندہ مثال تھی جسے میں کبھی نہ بھول پاؤں گی اور جس کا مجھے اس کے بعد وہاں رہتے ہو ئے کئی موقعوں پر بارہا تجربہ ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری عملی زندگی میں روحانی گرمجوشی کا ایسا مظاہرہ شاذ ونادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
اس سفر کے بعد آنے والے تین برسوں میں میرا مقبوضہ علاقوں میں متعدد بار جانے کا اتفاق ہوا۔ ابتداً میرا وہاں اپنے صحافتی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں جانا ہوتا رہا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا میرے وہاں کے سفر کی نوعیت میں تبدیلی آتی گئی اور پھر میں نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے اور انکے لیے امدادی کام کرنے والے گروپوں کیساتھ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آنا جانا شروع کردیا۔اس دوران میں نے وہاں ہر مذہب اور عقیدے کے حامل فلسطینیوں کی بدحالی اور تکالیف کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اوردل سے محسوس کیا۔یہاں میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی عقیدے کے لوگ بھی جو تقریباً دو ہزار برس سے ارضِ مقدس پر رہ رہے ہیں وہ بھی مسلمانوں کی طرح اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں۔وہاں آتے جاتے اور فلسطینی مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے ان شاء اللہ، ماشاء اللہ اور الحمد للہ جیسے کلمات میری زبان کا حصہ بنتے رہے جو فلسطینی مسلمان اپنے روزمرہ کی گفتگو میں شکر ، تعریف اور امید کے اظہار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔اس سرزمین کے لوگوں کے حوالے سے مغربی میڈیا نے جوخوفناک تاثر مغرب کے لوگوں کے اذہان میں پیدا کردیا ہے اور جسکا دہشتناک تصور لے کر میں پہلی بار اس خطے میں آئی تھی اب اتنا عرصہ ان لوگوں میں رہنے کے بعد وہ تاثر یکسر غائب ہوگیا تھا۔ اب میں بغیرکسی خوف و تردد کے مختلف مسلم گروپوں سے ملنے لگی تھی ا ور اس طرح اس سرزمین کے ذہین،عقلمند اور سب سے بڑھ کر مہربان اور فیاض لوگوں کے درمیان مجھے رہنے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا۔فلسطین کی مسلمان خواتین’ اسلام سے میری خصوصی لگن اور پسندیدگی کا سبب بنیں، آپ اندازہ کریں کہ سر سے پیر تک برقع میں ملفوف خواتین کو ایک انگریز عورت نے کس نظر سے دیکھا ہوگا۔ اسکے برعکس یورپ میں پیشہ ور خواتین اپنی خوبصورتی اور ظاہری وضع قطع کی زیادہ سے زیادہ نمائش میں خوشی محسوس کرتی ہیں اور وہاں ایسا کرنا روزمرہ کے معمولات میں شامل ہے ،بالکل معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
جب کبھی مجھے کسی پروگرام کو نشر کرنے کے لیے ٹیلیویژن سٹیشن پر مدعو کیاجاتاتھا تو میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتی تھی کہ خواتین میزبان پندرہ منٹ کے دورانیہ کے سنجیدہ نوعیت کے پروگرام پیش کرنے سے پہلے گھنٹہ بھر تک بالوں کی تزئین وآرائش اور میک اپ پر صرف کیا کرتی تھیں۔کیا اسی کا نام آ ز ادی ہے؟ میں سوچتی ہوں کہ اس آزاد مغربی معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو کتنا حقیقی احترام دیا جاتا ہے۔
2007 ء میں مجھے لبنان جانے کا اتفاق ہوا، میں نے وہاں چار دن یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ گزارے جو سب کی سب حجاب پہنی ہوئی تھیں اور جن کے سر کے بال تک نظر نہیں آتے تھے۔ وہ خوبصورت، خودمختار اور صاف گوتھیں۔ا ور قطعاً ایسی ڈرپوک اور بزدل نہیں لگ رہیں تھیں کہ کوئی زبردستی انکی مرضی کے برخلاف انہیں پکڑ کر انکی شادی کر دیتا جیسا کہ میرے ذہن میں تصور تھاجو میں نے مغرب کے اخباروں میں پڑھ کر قائم کیا تھا۔جتنا زیادہ وقت میں مشرقِ وسطیٰ میں گزار رہی تھی اتنی ہی زیادہ تبدیلی میں اپنے اندر محسوس کر رہی تھی،میں انہیں خود کومسجد میں لے جانے کے لیے کہتی ، اپنے آپ کو میں یہ کہہ کر مطمئن کرلیتی کہ میں سیاحت کررہی ہوں مگر درحقیقت مساجد مجھے بے حد دلکش لگتی تھیں، مجسموں سے پاک اور خوبصورت غالیچوں سے آراستہ۔لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اب تک کتنا قرآن پڑھا ہے اور میں یہ کہتی ہوں کہ میں نے اب تک صرف سو صفحات کاباترجمہ مطالعہ کیا ہے مگر اس سے پہلے کہ میری اس بات کو کوئی طنزیہ نظروں سے دیکھے میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ اس عظیم کتاب کی ایک وقت میں دس لائنیں پڑھنا چاہیے، مکمل تدبرکے ساتھ۔ اسطرح کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہوں اس کو اچھی طرح سمجھ بھی رہے ہوں اور اگر ممکن ہو تو ان دس لائنوں کو زبانی یاد بھی کرلینا چاہیے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قرآن کو اللہ کی نازل کی ہوئی کتابِ ہدایت سمجھ کر پڑھنا چاہیے نہ کہ کوئی رسالہ سمجھ کر۔میں ان شاء اللہ عربی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کروں گی مگر اس میں خاصہ وقت لگے گا۔
اسلام کی تعلیمات سے واقف ہونے کے لیے بہت زیادہ مطالعے کی ضرورت پڑتی ہے، شمالی لندن کی چند مساجد سے میرا رابطہ ہے اور پْرامید ہوں کہ میں کم از کم ہفتہ میں ایک بار وہاں جایا کروں۔
اعتدال پسند انہ لباس کا انتخاب اتنا مشکل معاملہ نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ حجاب پہننے کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ باہر پہلے سے بھی زیادہ کم وقت میں جاسکتے ہیں کیونکہ حجا ب کی وجہ سے آپ کو بہت سارا وقت بالوں کی آرائش میں ضائع نہیں کرنا پرے گا۔ چند ہفتے قبل جب میں نے پہلی بار اپنے سر پرحجاب باندھا تو مجھے بہت شرم سی محسوس ہوئی تھی۔ چونکہ ان دنوں سردی کا موسم تھا تو میراحجاب پہننا کسی نے محسوس نہ کیا البتہ گرمی کے موسم میں حجاب پہن کر نکلناایک چیلنج ہے،مگر برطانیہ ایک روادار ملک ہے اور ابتک مجھے کسی نے حقارت کی نظروں سے نہیں دیکھا،حجاب کے ساتھ نقاب میں اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتی مگر برقع مجھے زیادہ موزوں محسوس ہوتاہے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد میڈیا میں ردّعمل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے میرے اس عمل سے انہیں موقع ہاتھ آگیا اور بہتان اور دشنام طرازی کا سلسلہ شرو ع ہوگیا مگر حقیقتاً ان کا ہدف میری ذات نہیں تھی بلکہ اسلام کا غلط تصور جو انہوں نے اپنے ذہنوں میں قائم کر لیا ہے دراصل وہی سوچ اس سارے قصے کے پیچھے کارفرما تھی،مگر میں نے زیادہ تر منفی تبصرے نظرانداز کردئے کیونکہ کچھ لوگ روحانیت کے معنوں سے ناآشنا ہوتے ہیں اور اس موضوع پر انکے ساتھ کسی قسم کا بحث ومباحثہ انہیں مزیدخوفزدہ کردیتا ہے۔
میرے اسلام قبول کرنے کے اعلان کے بعد ایک مشورہ مجھے اچھا لگا اور میں نے اس پر عمل بھی کیاکہ میں ایسے مواد کامطالعہ نہ کروں جو ناگوار خاطر گزریں،نہ ہی بلاگس (Blogs)میں موجود منفی تبصروں پر کان دھروں۔ اسطرح میں نے بہت سی تصوراتی اور ناخوشگوار باتوں کی طرف مطلق دھیان نہ دیابلکہ اپنی تمام تر توجہ اس بات پر مبذول کر لی ہے کہ مسلم امہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پیار اور تعلق کو مضبوط ومربوط کیا جائے۔
اپنے پیشے کے حوالے سے تشویش ظاہر کرتے ہوئے انکا سوال یہ تھاکہ کیا حجاب پہن کر وہ اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گی ۔مجھے علم ہے کہ بہت ساری مسلم خواتین نے ٹیلیویژن اور صحافت کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ
شائستہ مغربی لباس پہنتی ہیں،میں ابھی اسلام میں نئی نئی داخل ہوئی ہوں اور اسلام کے بنیادی اصولوں سے واقفیت حاصل کر رہی ہوں، اسلام سے میرے تعلقات کی نوعیت الگ قسم کی ہے۔ میرا قطعاًیہ نظریہ نہیں ہے کہ اسلام کے بعض اصول تو میں اپنا لوں اور بعض کو نظر انداز کردوں بلکہ میں اسلام کو مکمل طور پر اپنے اندر سمو لینا چاہتی ہوں۔مستقبل کے حوالے سے بھی غیر یقینی حالات کا شکار ہوں، میں روزانہ ہی کچھ نہ کچھ اپنے اندر تبدیلی اور ایک نیاپن محسوس کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا۔
اپنے معاشرتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انکا کہنا ہے کہ میں اس حوالے سے اپنے آپ کو نہایت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میرا اسلام قبول کرنا میرے اہم ترین رشتوں پر کسی طور بھی اثر انداز نہیں ہوا ہے۔ میرے اس فیصلے سے میرے غیر مسلم دوستوں کا ردّعمل تجسسانہ تھا نہ کہ مخالفانہ اور معاندانہ۔وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم بدل جاؤگی؟ کیا ہماری دوستی برقرار رہ سکے گی اور کیا ہم اب بھی شراب نوشی کے لیے جاسکیں گے؟ انکے پہلے دو سوالوں کا جواب تو میرے پاس اثبات میں ہے مگر تیسرے سوال کا جواب قطعا انکار میں۔جہاں تک میری والدہ کا تعلق ہے تو وہ میری خوشی میں خوش ہیں۔ میرے لیے یہ مناسب وقت نہیں ہے کہ میں کسی مرد سے تعلقات کے بارے میں سوچوں،میری ازدواجی زندگی انحطاط کا شکار ہے اور یہ طلاق پر منتج ہونے جارہی ہے ، کسی مناسب وقت پر اگر میں نے دوبارہ شادی کے بارے میں سوچا تو وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگی اور میرا ہونے والا شوہر یقینا ایک مسلمان ہوگا۔
یہ تھی برطانیہ کی اس خاتون کے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے بات چیت۔
آئیے ہم سب ملکر اللہ کے حضور دعا کریں
کہ وہ اس نومسلم بہن کواسلام پر ثابت قدم رکھے اور حالات کی سختیاں اور بادسموم کے مخالف جھونکے ان کے پایہ استقلال میں جنبش پیدا نہ کرسکیں بلکہ انکے عزم اورحوصلے روز افزوں جواں اور ہمت بلند سے بلند ہوتی جائے اور یہ دین کی داعی اوزبردست مجاہدہ بنے اور خصوصاً برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کو ان کی وجہ سے تقویت ملے۔ آمین ثم آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭