یہ کہانی سعودی ہارٹ سرجن ڈاکٹر خالد الجبیر نے اپنے ایک لیکچر میں بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں،‘‘یہ منگل کادن تھا کہ جب میں نے ایک ڈھائی سالہ بچے کے دل کا آپریشن کیا۔ اگلے دن یعنی بدھ کو اس کی حالت تسلی بخش تھی مگر جمعرات کو دن کے گیار ہ بجے ایک نرس نے مجھے اطلاع دی کہ بچے کے دل کی حرکت بند ہوگئی ہے ۔میں وارڈ کی طرف بھاگا اور پورے پینتالیس منٹ تک دل کا مساج کیا اس پورے عرصے میں دل کی حرکت بند تھی لیکن اللہ کی قدرت کہ پینتالیس منٹ کے بعد دل نے پھر دھڑکنا شروع کر دیا۔میں نے سوچا بچے کے والدین کو اس صورت حال کی اطلاع دینی چاہیے ۔ میں اس کے باپ کی تلاش میں نکلا ،وہ تو نہ ملا لیکن اس کی والدہ مل گئی ۔ میں نے اُسے ساری صورت حال بتائی ۔اور بتا یا کہ حرکت قلب کا رکنا اصل میں بچے کے گلے میں خون کے جاری ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ خون کیوں جاری ہوا ہے اس کی وجہ ا بھی ہم نہیں جا ن سکے لیکن میرا خیا ل ہے کہ اس کے دماغ کی موت واقع ہو گئی ہے ۔میرا خیا ل تھا کہ یہ سنتے ہی وہ خاتون چیخے چلائے گی مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب اس نے الحمد للہ کہہ کر سر جھکا لیا۔
دس دنوں کے بعد بچے نے چلنا پھرنا شروع کر دیا ۔ ہم سب بہت خوش تھے کہ اس کا دماغ بھی بالکل صحیح کام کر رہا تھا۔لیکن بارہ دنوں کے بعد بچے کے دل کی حرکت پھر رک گئی اور اس کی وجہ وہی گلے میں خون کا جاری ہونا تھا ۔ اس بار ہم نے پھر پینتالیس منٹ مساج کیا مگر بے سود۔ دل کی حرکت بند کی بند رہی ۔میں نے پھر اس کی ما ں کو اطلاع دی اور کہا اب کوئی امید نہیں۔ ماں نے یہ الفاظ پور ے صبر اور تحمل سے سنے اور کہا الحمد للہ، پھر اس نے کہا ، میرے اللہ اگر اس بچے کی صحت یاب ہونے میں کوئی بہتر ی ہے تو توُ اسے محض اپنے کرم سے صحت یاب کر دے ۔ یہ کہہ کر اس نے پھر سر جھکا لیا۔
ایک بار پھر معجزہ ہوا اور بچے کے دل نے پھر کام شروع کر دیا۔مگر بات یہیں پہ نہ رکی ۔ چھ ماہ میں بچے کو اس طرح کے چھ اٹیک ہوئے کہ اس کا دل دھڑکنا بند کردیتا ۔ آخر چھ ماہ بعد ایک اور فزیشن بچے کے گلے میں ہونے والی بلیڈنگ روکنے میں کامیاب ہوئے تو ساتھ ہی دل کی حالت بھی سنبھلی۔اب بچہ تیزی سے صحت یاب ہو رہا تھا کہ ہمیں ایک نئی مصیبت نے آن لیا۔اس کے دماغ میں ایک رسولی بننا شروع ہو گئی اور یہ ایسی رسولی تھی کہ اس طرح کی رسولی میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں نے ایک بار پھر اس کی والدہ کو اطلاع دی لیکن وہ اس بار بھی ا لحمد للہ کہہ کر چل دی اور میں اسے دیکھتا رہ گیا۔
ہم نے بچے کو فوری طور پر دماغ کے سرجیکل وارڈ میں منتقل کیا ۔ الحمد للہ کہ تین ہفتوں کے علاج سے وہ کافی حد تک بہترتو ہو گیا لیکن چلنے پھرنے کے قابل پھر بھی نہ تھا۔ابھی دو ہفتے گزرے تھے کہ اسے ایک سو چھ ڈگری بخار نے آن لیا۔اس بخار کی وجہ بلڈ پوائزننگ تھی ۔میں نے ایک بار پھر یہ صورت حال اس کی ماں کو بتائی ۔ اور اس نے ایک بار پھر یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی کہ میرے مالک اگر میرے بچے کے صحت یاب ہونے میں کوئی بہتری ہے تو تو اسے محض اپنے کرم سے صحت یاب کر دے ۔
اس بچے کے ساتھ والے بستر پر ایک اور بچے کو سو ڈگری بخار تھا اور اس کی ماں چیخ و پکار کر رہی تھی کہ ڈاکٹر میرے بیٹے کو بچا لو ۔ میں نے اسے کہا ، تم نہیں دیکھتی کہ اس بچے کو ایک سو چھ بخار ہے لیکن پھر بھی اس کی ماں کس قدر صبر سے بیٹھی ہے اور تم صرف سو بخار پر واویلا مچا رہی ہو۔ اس نے کہا ، اس کا کیا ہے ؟یہ عورت تو بیوقوف ہے !۔ اس پر مجھے حضورﷺ کی حدیث یاد آئی کہ مبار ک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اجنبی ہیں۔۔حقیقت یہ تھی کہ میری پچھلی تیئس سالہ سروس میں یہ پہلی ایمان والی عورت تھی اورواقعتا وہ باقی سب میں کتنا اجنبی لگ رہی تھی۔
ساڑھے چھ ماہ گزر چکے تھے ، یہ بچہ اب آئی سی یو سے باہر آگیا تھا مگر اس کا حال یہ تھا کہ وہ نہ چل سکتا تھا ، نہ بول سکتا تھا ، نہ سُن سکتا تھا، نہ ہی ہل جل سکتا تھااور اس پر مستزاد یہ کہ اس کا سینہ بھی کھلاہو اتھا جس میں سے اس کا دل صاف دیکھا جا سکتا تھا۔اس کی ماں مسلسل اس کے ساتھ تھی ۔ و ہ اس کے کپڑے تبدیل کر تی ، اس کی خدمت کرتی مگر اسی پہاڑوں جیسے صبر کے ساتھ۔وہ ماں جس کا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے قبر کی طرف جا رہا ہو لیکن پھر بھی اس کے ایمان کا یہ حال ہو کہ وہ اس کو اللہ کے سپرد کر کے چپ ہو جاتی ہو ۔ اس طرح کے ایمان اورتسلیم و رضا کی میری ز ندگی میں پہلی مثال تھی ۔
لیکن ایک بارپھر اللہ نے اپنی قدرت دکھائی ۔ مزید ڈھائی ماہ گزرے تھے کہ یہ بچہ اپنی ما ں کی دعاؤں کے صدقے مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا ۔ہم سب نے اس کو خوشی خوشی ہسپتال سے رخصت کیا ۔ سارا ہسپتال اس کا گوا ہ تھا کہ جب سارے اسباب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو دعا کس طرح بڑھ کر تھام لیتی ہے ۔
لیکن یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل کہانی جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا، وہ اس کے بعد شروع ہوتی ہے ۔اس بچے کوہسپتال سے گئے ڈیڑھ برس گزر چکا تھا کہ مجھے ایک ملازم نے اطلاع دی کہ ایک مر د ، عورت او ران کے دو بچے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں ان سے ملنے گیا تو خوشی اور حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ وہی والدین تھے جن کے بچے کا میں نے آپریشن کیا تھا۔وہ بچہ اب پانچ سال کا تھا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی آیا تھا ۔ وہ ایک پھول کی مانند خوب صورت تھا اور خوب بھاگ دوڑ رہا تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ کبھی بیمار ہوا ہی نہ ہو۔ان کے ساتھ ایک چھ ما ہ کا نو مولودبچہ بھی تھا۔میں نے ان کو خوش آمدید کہا اور نئے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاقاً کہا کہ اس بچے کا کون سا نمبر ہے ،بارھواں یا تیرھواں؟با پ میری طرف دیکھ کر طنزاً مسکرایااور کہا ، ڈاکٹر، یہ ہمارا دوسرا بیٹا ہے۔اور وہ بچہ جس کا آپ نے آپریشن کیا تھا وہ ہماری شادی کے سترہ سال بعد محض دعاؤں کے صدقے پیدا ہو ا تھا۔اور اس کے بعد اس پر اور ہم پر جو بیماری کی آزمایش آئی اس کو آپ جانتے ہی ہیں۔
یہ سنتے ہی میں اپنے آنسو نہ رو ک سکا ۔ میں نے باپ کا دامن تھاما اور اس کو الگ لے گیا۔اور اس سے پوچھاکہ مجھے بتاؤ یہ تمہاری بیوی کس دنیا کی رہنے والی ہے ؟وہ عورت جس نے بانجھ پن کے ستر ہ سال دیکھے ہوں ،اس کے بچہ پیدا ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو جائے مگر وہ پھر بھی صبر کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑے وہ یقینا اس دور کی عورت نہیں ۔شاید صحابیات کے قافلے کی بچھڑی خاتو ن ہے جو اس دور میں پیدا ہو گئی ہے ۔اس مرد نے کہا ڈاکٹرصاحب میری بیوی کی کوکھ جتنی بانجھ تھی اس کا دل ایمان سے اسی قدر زرخیز تھا اور ہے ۔خاوند نے کہا ، ڈاکٹر صاحب ہماری شادی کو انیس برس ہو گئے اس سارے عرصے میں اس نے کبھی تہجد بھی قضا نہیں کی نہ اس نے کبھی جھوٹ بولا ہے نہ کسی کی غیببت کی ہے اور نہ فضول گفتگو۔ میں جب بھی گھر لوٹتا ہوں تو و ہ میرا بہت خوشی سے استقبال کرتی ہے اور مجھے پیار اور دعاؤں کے ڈھیروں تحفے دیتی ہے ۔اس کی زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے معمور رہتی ہے اور وہ نیکی ، شکر اور صبر کا مجسمہ ہے ۔ اور ڈاکٹر صاحب سچ تو یہ ہے کہ میں اس کے تقوی اور نیکی کے سامنے جب خود کو دیکھتا ہوں تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں اور کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ میری نگاہیں اس کے سامنے جھکی کی جھکی رہ جاتی ہیں اور میں ان کو اوپر نہیں اٹھا سکتا۔
ڈاکٹر خالد کی بیان کردہ کہانی تو یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن اپنے پیچھے ایک ایسا سوال چھوڑ جاتی ہے جس کا جواب سوچنا ہر اس شخص کے ذمہ ہے جو خود کو مسلمان کہتا ہے ۔او روہ سوال یہ ہے کہ کیا محض مسلمانوں جیسا نام رکھنے سے کوئی مر د ، حقیقت میں مسلمان مرد یا کوئی عورت ، حقیقت میں مسلمان عورت بن سکتی ہے؟اور یہ کہ مسلمان ہونا ، نام کا معاملہ ہے یا صفات وکردا ر کا؟ اور یہ کہ کل قیامت کو اگر اللہ نے ہمارے ایمانوں کو اس عورت کے ایمان کی کسوٹی پر جانچ لیا تو ہمارے ایمان میں کتنا کھوٹ نکلے گا اور کیا کھوٹے ایمان والے بھی جنت میں جا سکتے ہیں؟ سوچیے بار بار سوچیے، اور کوشش کیجیے کہ اس کا جواب موت سے پہلے پہلے مل جائے۔